وضو کے لیے وضو کے پانی کے علاوہ پانی کے استعمال نہ کرنے سے مراد، اس سے سر اور پاوں کو مسح کے لیے استعمال کرنا ہے ورنہ اگر وضو میں ہاتھ منہ دھوتے وقت وضو کے پانی کے علاوہ بھی تھوڑا سا پانی ملے، تو وضو باطل نہیں ہوتا ہے، مثال کے طور پر وضو کرتے وقت نلکہ کھولتے اور بند کرتے ہوئے پانی کے کچھ قطرات ہمارے ہاتھ پر گرتے ہیں۔
اب ہم آپ کے سامنے اس سوال کے بارے میں چند مراجع تقلید کے جوابات بھی پیش کرتے ہیں:
سوال: اگر وضو کرنے والا ہاتھ منہ دھوتے وقت وضو کی نیت سے پانی کے نلکہ کو کھولے اور بند کرے، تو اس کا کیا حکم ہے؟
حضرت آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای {مدظلہ العالی} کا جواب:
کوئی حرج نہیں ہے اور وضو کے صحیح ہونے کو نقصان نہیں پہنچاتا ہے۔ لیکن اگر بایاں ہاتھ دھونے کے بعد اس سے مسح کرنے سے پہلے مرطوب نلکہ پر ہاتھ رکھے اور ہاتھ میں موجود وضو کا پانی نلکہ پر موجود پانی کی تری سے مخلوط ہو جائے، تو اس مخلوط پانی سے مسح کے صحیح ہونے میں اشکال ہے[1]۔
حضرت آیت اللہ العظمیٰ صافی {مدظلہ العالی} نے بھی اس سوال کے جواب میں کہ کیا دوسروں کے وضو کا پانی ہمارے ہاتھ منہ پر پڑنے سے وضو باطل ہوتا ہے؟ فرمایا ہے:
اگر وضو کرنے والے اس مجموعی پانی سے وضو کرنے کی نیت کریں، یعنی خود ڈالنے والے پانی یا دوسروں کے وضو کے دوران پڑے ہوئے پانی سے، تو کوئی حرج نہیں ہے[2]۔
حضرت آیت اللہ مھدی ہادوی تہرانی {دامت برکاتہ} کا جواب:
اگر بایاں ہاتھ دھونے کے بعد باہر سے کوئی پانی آپ کی ہتھیلی سے ملے اور سر یا پاوں کا مسح اس باہر سے ملے ہوئے پانی سے انجام پائے، تو وضو صحیح نہیں ہے، ورنہ وضو میں کوئی اشکال نہیں ہے[3]۔
[1] توضيح المسائل (محشى - امام خمينى)، ج1، ص 200، دفتر انتشارات اسلامى، قم، هشتم، 1424 ق.
[2]گلپايگانى، لطف الله صافى، جامع الأحكام (صافى)، ج1، ص: 35 ، انتشارات حضرت معصومه، قم، چهارم، 1417 ق.
[3]با استفاده از پاسخ 12198 (سایت: 11963).