وضو کے کچھ شرائط ہیں اور ان کی رعایت نہ کرنے کی صورت میں وضو باطل ہوتا ہے۔
وضو کے شرائط میں سے ایک یہ ہے کہ انسان اپنے منہ اور دونوں ہاتھوں کو خود دھوئے اور خود اپنے سر اور دونوں پاوں پر مسح کرے اور اگر کوئی دوسرا شخص اسے وضو کرائے، یا چہرے اور ہاتھوں کو دھونے کے لیے پانی ڈالنے یا سر اور پاوں کا مسح کرنے میں اس کی مدد کرے، تو وضو باطل ہے[1]۔
قابل ذکر بات ہے کہ اس شرط کے بارے میں فقہا کی تعبیریں مختلف ہیں:
۱۔ بعض نے وضو کرنے والے کے وضو میں اہتمام و تعاون کی تعبیر استعمال کی ہے، اور کہا ہے کہ اگر دوسرا شخص اسے اس طرح وضو کرائے کہ عرف میں وضو کے کام کو وضو کرنے والے سے نسبت نہ دی جائے، تو وضو باطل ہے[2]۔
۲۔ بعض نے کہا ہے کہ : مقدمات وضو میں کسی دوسرے سے مدد لینا مکروہ ہے۔ اس بنا پر اگر کوئی شخص وضو کرنے والے کے ہاتھ میں پانی بھرے اور وہ اس سے وضو کرے تو وضو باطل نہیں ہے[3]۔
۴۔ بعض نے وضو کرنے والے کی نیت کو معتبر جانا ہے: اس مسئلہ کا دیا گیا جواب یوں ہے:
سوال: اگر کوئی شخص لوٹے یا کسی دوسرے برتن وغیرہ سے وضو کرنے والے کے ہاتھ پر پانی ڈالے تاکہ وہ اس سے وضو کرے، کیا یہ وضو صحیح ہے؟
جواب: اگر پانی ڈالنے والا وضو کرنے والے کو وضو کرانے کی نیت سے پانی نہ ڈالے تو وضو میں کوئی حرج نہیں ہے[4]۔
بیان کیے گیے فتاویٰ کے مجموعے سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ جو چیز وضو میں جائز نہیں ہے، وہ یہ ہے کہ دوسرا شخص وضو کرنے والے کی اس صورت میں مدد کرے کہ وضو کرانا اس سے منسوب ہو جائے، لیکن اگر وضو کے مقدمات میں مدد کرے، حتی کہ ہاتھ پر پانی ڈالے، لیکن خود وضو کرنے والا اپنے منہ پر پانی ڈالے تو کوئی حرج نہیں ہے۔
[1]خمينى، سيد روح اللّٰه موسوى، توضيح المسائل (محشی) ج 1، ص 174، دفتر انتشارات اسلامى، قم، 1424 ھ.
[2]خويى، سيد ابو القاسم، منهاج الصالحين، ج 1، ص 38، نشر مدينة العلم، قم، 1410 ھ.
[3]توضيح المسائل (محشی)، ج 1، ص 174؛ تبريزى، جواد، استفتاءات جديد، ج 1، ص 45، بدون تاریخ، قم.
[4]فاضل لنكرانى، محمد، جامع المسائل، ج 1، ص 52، انتشارات امير قلم، بدون تاریخ، قم.