جانداروں کے جسم کی بناوٹ ایسی ہوتی ہے کہ، روح کے بدن سے نکلنے کے بعد بدن میں بدبو پیدا ہوتی ہے اور اس طرح بدن بوسیدہ ہوکر ختم ہوجاتا ہے، اس لیے بعید لگتا ہے کہ بعض جسم سال ہا گزرنے کے بعد صحیح و سالم باقی رہیں۔ لیکن چونکہ خداوندمتعال ہر کام انجام دینے پر قادر ہے[1]، اس لیے اس قسم کی چیز کو عقلی طور پر ناممکن نہیں جاننا چاہئیے۔ اس قاعدہ اور کلی قانون میں بعض مواقع پر استثنا ہو سکتا ہے، اور خدا کی اجازت سے ،بعض جسم بوسیدہ ہونے سے بچ سکتے ہیں۔چنانچہ مومیائی کرنا بدن کے طولانی مدت تک صحیح و سالم رہنے کا سبب بن جاتا ہے اور یہ مسئلہ ہزاروں سال سے تجربہ کے ذریعہ ثابت ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ اگر خداوندمتعال کا ارادہ کسی حقیقت کو ثابت کرنے سے متعلق ہو تو، کسی شخص کے مرنے کے بعد اس کے جسم کو صحیح و سالم محفوظ رکھ سکتا ہے اور دوبارہ اس میں روح پھونک سکتا ہے اور اسے زندہ کر سکتا ہے، چنانچہ قرآن مجید میں خدا کے پیغمبر حضرت عزیر{ع} کے بارے میں آیا ہے[2]۔
روایتوں میں آیا ہے کہ اگر کوئی شخص غسل جمعہ بجالانے کا عادی ہو تو، اس کا بدن قبر میں بوسیدہ نہیں ہوتا ہے[3]۔ اور یہ واقعہ فراوان صورت میں رونما ہو چکا ہے، ایسے واقعات کے سینہ بہ سینہ شواہد بھی ملتے ہیں اور کتابوں میں بھی درج ہو چکے ہیں کہ فلاں مومن کی قبر کھولنے کے بعد اس کے جسم کو صحیح و سالم پایا گیا۔
اس لیے ، اگرچہ مادی جسم کا ختم ہونا ایک طبیعی امر ہے اور اکثر شہداء کے بدن بھی نابود ہو چکے ہیں، لیکن اگر کسی شہید سپاہی کے بدن کو کئی برسوں کے بعد صحیح و سالم پایا گیا، تو یہ ناقابل یقین نہیں ہے، کیونکہ ممکن ہے یہ مذکورہ مصادیق میں سے ایک مصداق ہو۔
[1] آل عمران، 26؛ تحریم، 8.
[2]" اس بندے {عزیر} کی مثال جس کا گزر ایک قریہ سے ہوا جس کے سارے عرش و فرش گرچکے تھے تو اس بندے نے کہا خدا ان سب کو موت کے بعد کس طرح زندہ کرے گا تو خدا نے اس بندے کو سو سال کے لیے موت دیدی اور پھر زندہ کیا اور پوچھا کہ کتنی دیر پڑے رہے ؟ تو اس نے کہا ایک دن یا کچھ کم ۔ فرمایا: نہیں سو سال ۔ ذرا اپنے کھانے اور پینے کو دیکھو کہ خراب تک نہیں ہوا ہےاور اپنے گدھے پر نگاہ ڈالو { کہ سڑ گل گیا ہے}۔"، بقره، 259.
[3]ملاحظہ ہو عنوان "غسل جمعه و نپوسیدن بدن در قبر" سوال:، 4156 (سایٹ: 4583).