سوال کا خلاصہ
ایک سڑک کے حادثہ میں، میری بہن اپنی شیر خوار بیٹی کے ہمراہ فوت ھوئی، لیکن اس کا شوہر اور دوسری بیٹی زندہ بچے ہیں۔ میرے ماں باپ بھی زندہ ہیں، دیت کی رقم کس طرح تقسیم کی جائے گی؟
سوال
سلام علیکم: ایک سڑک کے حادثہ میں، میری بہن اپنی شیر خوار بیٹی کے ہمراہ فوت ھوئی، لیکن اس کا شوہر اور دوسری بیٹی زندہ بچے ہیں۔ میرے ماں باپ بھی زندہ ہیں، دیت کی رقم کس طرح تقسیم کی جائے گی؟
ایک مختصر
چونکہ دیت، وراثت کے طبقات کے مطابق، تقسیم ھوتی ہے[1] اور وراثت کا قانون کہتا ہے کہ جو بھی پہلے دنیا سے رخصت ھوجائے، اس کے ورثاء اس سے وراثت لیتے ہیں۔ دیکھنا چاہئیے کہ اس حادثہ میں ، ماں یا اولاد میں سے کون پہلے مرگیا ہے یایہ کہ کیا دونوں ایک ہی وقت میں فوت ھوئے ہیں؟ اس بناپر حسب ذیل تین فرض ممکن ہیں:
۱۔ ماں، بچی سے پہلے مرگئی ہے۔
۲۔ بچی، ماں سے پہلے فوت ھوئی ہے۔
۳۔ دونوں ایک ہی وقت میں مرگئے ہیں یا یہ کہ ہم نہیں جانتے ہیں کہ ان میں سے کون پہلے مرگیا ہے۔
اب مذکورہ سوال کا جواب، ہر فرض کے مطابق حسب ذیل ہے:
۱۔ اگر ماں، بچی سے پہلے مرگئی ھو، تو اس کے وارث یہ ھوں گے: باپ اور ماں، شوہر اور دوبیٹیاں ۔ دیت کی وراثت کو آسان صورت میں تقسیم کرنے کے لئے، پورے اموال کو بارہ حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے، اور اس میں سے تین حصے شوہر کو، دوحصے باپ کو، دوحصے ماں کو اور باقی بچا مال اس کے دو بچوں کو پہنچتا ہے۔[2] اور فوت شدہ شیر خوار بچی کا حصہ (چونکہ وراثت کا طبقہ اول کے عنوان سے صرف اس کا باپ موجود ہے اور طبقہ اول کی موجودگی میں دوسرے طبقات کو وراثت نہیں ملتی ہے) اس کے باپ کو ملے گا۔[3]
۲۔ اگر شیر خوار بچی ماں سے پہلے مرگئی ھو، تو اس کے وارث اس کے باپ اور ماں ھوں گے، کہ اس فرض کے مطابق، اس کی (دیت کی) وراثت چھ حصوں میں تقسیم ھوگی اور اس میں سے دو حصے ماں کو اور بقیہ میت کے باپ کو ملے گا۔[4] اس ضمن میں کہ ماں کا حصہ ، جو بعد میں مرگئی ہے، بھی (پہلے فرض کے مانند) وارثوں میں تقسیم ھوگا۔ اس فرق کے ساتھ کہ یہاں پر شیر خوار بچی کو کوئی حصہ نہیں ملے گا۔
۳۔ اگر ماں اور بچی ایک ساتھ فوت ھوچکے ھوں یا ہم نہیں جانتے کہ ان میں سے کون پہلے مرگئی ہے۔ تو فقہا کے درمیان مشہور قول یہ ہے کہ دونوں ایک دوسرے سے وراثت لیتے ہیں۔[5] اس صورت میں کہ پہلے ہم فرض کریں کہ ماں، بچی سے پہلے مرگئی ہے اور اس کا مال (من جملہ دیت) وارثوں میں (پہلے فرض میں بیان کے مطابق) تقسیم ھوگا اور فوت شدہ بچی کا حصہ بھی (ماں کے علاوہ) اس کے وارثوں کو ملے گا۔ اس کے بعد ہم فرض کریں کہ بچی، ماں سے پہلے مر گئی ہے اور اس کی دیت (اس کے علاوہ کہ قرار ہے کہ ماں سے وراثت لے گی) اس کے وارثوں میں (فرض دوم میں کئے گئے بیان کے مطابق) تقسیم ھوگی۔
۱۔ ماں، بچی سے پہلے مرگئی ہے۔
۲۔ بچی، ماں سے پہلے فوت ھوئی ہے۔
۳۔ دونوں ایک ہی وقت میں مرگئے ہیں یا یہ کہ ہم نہیں جانتے ہیں کہ ان میں سے کون پہلے مرگیا ہے۔
اب مذکورہ سوال کا جواب، ہر فرض کے مطابق حسب ذیل ہے:
۱۔ اگر ماں، بچی سے پہلے مرگئی ھو، تو اس کے وارث یہ ھوں گے: باپ اور ماں، شوہر اور دوبیٹیاں ۔ دیت کی وراثت کو آسان صورت میں تقسیم کرنے کے لئے، پورے اموال کو بارہ حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے، اور اس میں سے تین حصے شوہر کو، دوحصے باپ کو، دوحصے ماں کو اور باقی بچا مال اس کے دو بچوں کو پہنچتا ہے۔[2] اور فوت شدہ شیر خوار بچی کا حصہ (چونکہ وراثت کا طبقہ اول کے عنوان سے صرف اس کا باپ موجود ہے اور طبقہ اول کی موجودگی میں دوسرے طبقات کو وراثت نہیں ملتی ہے) اس کے باپ کو ملے گا۔[3]
۲۔ اگر شیر خوار بچی ماں سے پہلے مرگئی ھو، تو اس کے وارث اس کے باپ اور ماں ھوں گے، کہ اس فرض کے مطابق، اس کی (دیت کی) وراثت چھ حصوں میں تقسیم ھوگی اور اس میں سے دو حصے ماں کو اور بقیہ میت کے باپ کو ملے گا۔[4] اس ضمن میں کہ ماں کا حصہ ، جو بعد میں مرگئی ہے، بھی (پہلے فرض کے مانند) وارثوں میں تقسیم ھوگا۔ اس فرق کے ساتھ کہ یہاں پر شیر خوار بچی کو کوئی حصہ نہیں ملے گا۔
۳۔ اگر ماں اور بچی ایک ساتھ فوت ھوچکے ھوں یا ہم نہیں جانتے کہ ان میں سے کون پہلے مرگئی ہے۔ تو فقہا کے درمیان مشہور قول یہ ہے کہ دونوں ایک دوسرے سے وراثت لیتے ہیں۔[5] اس صورت میں کہ پہلے ہم فرض کریں کہ ماں، بچی سے پہلے مرگئی ہے اور اس کا مال (من جملہ دیت) وارثوں میں (پہلے فرض میں بیان کے مطابق) تقسیم ھوگا اور فوت شدہ بچی کا حصہ بھی (ماں کے علاوہ) اس کے وارثوں کو ملے گا۔ اس کے بعد ہم فرض کریں کہ بچی، ماں سے پہلے مر گئی ہے اور اس کی دیت (اس کے علاوہ کہ قرار ہے کہ ماں سے وراثت لے گی) اس کے وارثوں میں (فرض دوم میں کئے گئے بیان کے مطابق) تقسیم ھوگی۔