سائٹ کے کوڈ
fa25396
کوڈ پرائیویسی سٹیٹمنٹ
47262
گروپ
کلام قدیم
سوال کا خلاصہ
کیا معصوم امام ﴿ع﴾ کا علم آج کے مسائل پر مشتمل ہے؟
سوال
کیا معصوم امام ﴿ع﴾ کا علم آج کے مسائل پر مشتمل ہے؟
ایک مختصر
شیعوں کے قطعی عقیدہ کی بنیاد پر، انبیاء ﴿ع﴾اور معصوم ائمہ ﴿ع﴾ علم و دانش اور حکمت کے عروج و کمال پر ھوتے ہیں اور جو علم خداوند متعال نے انھیں عطا کیا ہے، وہ تمام لوگوں کے علم سے بالا تر ہے اور لوگوں میں سے کوئی ان کے برتر علمی مقام کو ادراک کرنے کی طاقت نہیں رکھتا ہے۔ اس بنا پر اس میں کوئی شک و شبہہ نہیں ہے کہ انسان نے جو کچھ اپنے ناقص علم سے حاصل کیا ہے ، وہ خدا کے اس علم سے بالا تر نہیں ہے جو اس نے معصومین ﴿ع﴾ کے اختیار میں قرار دیا ہے۔ اسی بنا پر آج کے علوم بھی ان بزرگوں کے علوم میں شامل ھوتے ہیں۔
امام علی ﴿ع﴾ کی فرمائش کے مطابق: ان ﴿ معصومین﴾ سے علم کا سیلاب بہتا تھا اور کوئی بھی بلند پرواز پرندہ ان کے علم و کمال کی بلندی تک نہیں پہنچ سکتا ہے۔[1] چونکہ فلسفہ اما مت کے مطابق ، امام پر دین و شریعت کے تحفظ اور احکام الہی بیان کرنے اور لوگوں کی ہدایت و اصلاح کی ذمہ داری ھوتی ہے، اس لئے اس کا تقاضا ہے کہ مکمل دین کے بارے میں امام ﴿ع﴾ کی آگاہی مکمل اور بے نقص ھونی چاہئیے اور وہ کسی مسئلہ میں دوسروں کی تعلیم و ہدایت کا محتاج نہیں ھونا چاہئیے۔ اگر ایسا نہ ھو تو، امام سے مطلق ہدایت کا رول شک و شبہہ سے دو چار ھو جائے گا۔ اس لئے بعض روایات خاص کر اہل بیت ﴿ع﴾ کی اعلمیت کے بارے میں حدیث ثقلین کے ضمن میں بیان کیا گیا ہے کہ: “ ہر گز ان سے آگے بڑھنے کی کوشش نہ کرنا کہ ہلاک ھوجاؤ گے اور انھیں سکھانے کی کوشش نہ کرنا کیونکہ وہ تم لوگوں سے دانا تر ہیں”۔[2] ائمہ اطہار ﴿ع﴾ سے نقل کی گئی بہت سی روایتوں کے مطابق وہ علم کا خزانہ، اسرار الہی کا مرکز، قرآن مجید کے سچے اور علم و حکمت کے خزانے اور سرچشمہ ہیں اور علم کو زندہ کرنے والے اور جہل کو نابود کرنے والے اور انبیاء ﴿ع﴾ کے وارث ھونے کا لقب پا چکے ہیں۔ مثال کے طور پر ہم ذیل میں بعض ایسی روایتوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو معصومین ﴿ع﴾ کے لا محدود علم کی دلالت پیش کرتی ہیں:
١۔ سدید کہتے ہیں: میں نے امام باقر ﴿ع﴾ سے عرض کی: میں آپ ﴿ع﴾ پر قربان ھو جاؤں، آپ ﴿ع﴾ کا مقام کیا ہے؟ امام ﴿ع﴾ نے جواب میں فرمایا:“ ہم علم خدا کے خزانہ دار ہیں، ہم وحی خدا کے مترجم ہیں اور ہم آسمان کے نیچے اور زمین پر موجود تمام مخلوقات کے لئے خدا کی حجت ہیں”۔[3]
۲۔ امام صادق ﴿ع﴾ فرماتے ہیں:“ ہم اہل بیت﴿ع خدا کی طرف سے ولی امر ﴿ امامت و خلافت﴾[4] اور علم و وحی خدا کے خزانہ ہیں”۔[5]
امام علی ﴿ع﴾ کی فرمائش کے مطابق: ان ﴿ معصومین﴾ سے علم کا سیلاب بہتا تھا اور کوئی بھی بلند پرواز پرندہ ان کے علم و کمال کی بلندی تک نہیں پہنچ سکتا ہے۔[1] چونکہ فلسفہ اما مت کے مطابق ، امام پر دین و شریعت کے تحفظ اور احکام الہی بیان کرنے اور لوگوں کی ہدایت و اصلاح کی ذمہ داری ھوتی ہے، اس لئے اس کا تقاضا ہے کہ مکمل دین کے بارے میں امام ﴿ع﴾ کی آگاہی مکمل اور بے نقص ھونی چاہئیے اور وہ کسی مسئلہ میں دوسروں کی تعلیم و ہدایت کا محتاج نہیں ھونا چاہئیے۔ اگر ایسا نہ ھو تو، امام سے مطلق ہدایت کا رول شک و شبہہ سے دو چار ھو جائے گا۔ اس لئے بعض روایات خاص کر اہل بیت ﴿ع﴾ کی اعلمیت کے بارے میں حدیث ثقلین کے ضمن میں بیان کیا گیا ہے کہ: “ ہر گز ان سے آگے بڑھنے کی کوشش نہ کرنا کہ ہلاک ھوجاؤ گے اور انھیں سکھانے کی کوشش نہ کرنا کیونکہ وہ تم لوگوں سے دانا تر ہیں”۔[2] ائمہ اطہار ﴿ع﴾ سے نقل کی گئی بہت سی روایتوں کے مطابق وہ علم کا خزانہ، اسرار الہی کا مرکز، قرآن مجید کے سچے اور علم و حکمت کے خزانے اور سرچشمہ ہیں اور علم کو زندہ کرنے والے اور جہل کو نابود کرنے والے اور انبیاء ﴿ع﴾ کے وارث ھونے کا لقب پا چکے ہیں۔ مثال کے طور پر ہم ذیل میں بعض ایسی روایتوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو معصومین ﴿ع﴾ کے لا محدود علم کی دلالت پیش کرتی ہیں:
١۔ سدید کہتے ہیں: میں نے امام باقر ﴿ع﴾ سے عرض کی: میں آپ ﴿ع﴾ پر قربان ھو جاؤں، آپ ﴿ع﴾ کا مقام کیا ہے؟ امام ﴿ع﴾ نے جواب میں فرمایا:“ ہم علم خدا کے خزانہ دار ہیں، ہم وحی خدا کے مترجم ہیں اور ہم آسمان کے نیچے اور زمین پر موجود تمام مخلوقات کے لئے خدا کی حجت ہیں”۔[3]
۲۔ امام صادق ﴿ع﴾ فرماتے ہیں:“ ہم اہل بیت﴿ع خدا کی طرف سے ولی امر ﴿ امامت و خلافت﴾[4] اور علم و وحی خدا کے خزانہ ہیں”۔[5]
[1] ۔ «أَمَا وَ اللَّهِ لَقَدْ تَقَمَّصَهَا فُلَانٌ [ابْنُ أَبِي قُحَافَةَ] وَ إِنَّهُ لَيَعْلَمُ أَنَّ مَحَلِّي مِنْهَا مَحَلُّ الْقُطْبِ مِنَ الرَّحَى يَنْحَدِرُ عَنِّي السَّيْلُ وَ لَا يَرْقَى إِلَيَّ الطَّيْرُ فَسَدَلْتُ دُونَهَا ثَوْباً وَ طَوَيْتُ عَنْهَا كَشْحاً وَ طَفِقْتُ أَرْتَئِي بَيْنَ أَنْ أَصُولَ بِيَدٍ جَذَّاءَ أَوْ أَصْبِرَ عَلَى طَخْيَةٍ عَمْيَاءَ يَهْرَمُ فِيهَا الْكَبِيرُ وَ يَشِيبُ فِيهَا الصَّغِيرُ وَ يَكْدَحُ فِيهَا مُؤْمِنٌ حَتَّى يَلْقَى رَبَّه»؛ شریف الرضی، محمد بن حسین، نهج البلاغة، صالح، صبحی، خطبه 3، ص 48، هجرت، قم، طبع اول، 1414ق.
[2] ۔ کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، محقق و مصحح: غفاری، علی اکبر، آخوندی، محمد، ج 1، ص 294، دار الکتب الإسلامیة، تهران، طبع چهارم، 1407ق.
[3] ۔ ایضا ، ص 192.
[4] ۔ مجلسی، محمد باقر، مرآة العقول فی شرح أخبار آل الرسول، محقق و مصحح: رسولی، سید هاشم، ج 2، ص 346، دار الکتب الإسلامیة، تهران، طبع دوم، 1404ق.
[5] ۔ الکافی، ج 1، ص 192.