سائٹ کے کوڈ
fa26904
کوڈ پرائیویسی سٹیٹمنٹ
47267
گروپ
امام حسن مجتبی ع
سوال کا خلاصہ
امام حسن مجتبی ﴿ع﴾ کے جنازہ پر کیوں تیر باران کیا گیا؟
سوال
کیا امام حسن مجتبی ﴿ع﴾ کے جنازہ پر تیر باران کیا گیا؟ اگر یہ صحیح ہے تو یہ واقعہ کیوں پیش آیا ہے؟
ایک مختصر
امام حسن مجتبی ﴿ع﴾ کے جنازہ پر تیر باران کرنے کی داستان شیعوں میں مشہور ہے اور پھربہت سے علماء نے اسے ذکر کیا ہے۔ سب سے پہلے ابن شہر آشوب نے زمخشری ﴿اہل سنت﴾ کی کتاب“ ربیع الابرار” سے روایت نقل کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:“ ورموا بالنبال جنازتہ حتی سل منھا سبعون نبلا۔” [1] “ حضرت ﴿ع﴾ کے جنازہ پر تیر باران کیا گیا، یہاں تک کہ تابوت پر ستر تیر آویزان ھو گئے”۔ لیکن کتاب “ ربیع الابرار”، طبع جدید میں ہم نے اس عبارت کو نہیں پایا، جبکہ اسی کتاب کے خلاصہ “ روض الجنان” میں یہ عبارت موجود ہے۔ پس لگتا ہے کہ کتاب “ ربیع الابرار ” کے جدید طبع میں اس عبارت کوحذف کیا گیا ہے ابن شھر آشوب نے اس عبارت کو، دوسروں، من جملہ شیخ مفید کی امام حسن ﴿ع﴾ کی وصیت پر مشتمل عبارت کے ضمن میں ذکر کیا ہے، لیکن خود شیخ مفید نے اسے ذکر نہیں کیا ہے۔ شیخ عباس قمی بھی صاحب مناقب ﴿ ابن شہر آشوب﴾ سے نقل کرتے ہیں:“ امام حسن ﴿ع﴾ کے جنازہ پر تیر باران کیا گیا اور دفن کرنے کے وقت اس سے ستر تیر نکالے گئے”۔[2] علامہ مجلسی نے بھی شیخ مفید کے کلام کو نقل کرنے کی ضمن میں ابن شہر آشوب کے قول سے یہی جملہ بیان کیا ہے، لیکن اس سلسلہ میں اظہار نظر نہیں کیا ہے۔[3]
اب ہم اس موضوع کو واضح کرنے کے لئے امام حسن مجتبی ﴿ع﴾ کی اس وصیت پر نظر ڈالتے ہیں جس میں آپ ﴿ع﴾ نے اپنے بھائی امام حسین ﴿ع﴾ کو اپنے نا نا رسول خدا ﴿ص﴾ کی قبر کے پاس اپنے جنازہ کو دفن کرنے کی وصیت فرمائی تھی اور یہی مسئلہ اس بے احترامی کا سبب بنا ہے۔ تاریخ میں نقل کیا گیا ہے کہ امام حسن مجتبی ﴿ع﴾ نے اپنی وصیت میں امام حسین ﴿ع﴾ سے فرمایا تھا:“ میرے جنازہ کو پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ کی قبر کے پاس دفن کرنا، کیونکہ میں اس کا ان لوگوں سے مستحق تر ھوں جو بغیر اجازت وہاں پر داخل ھوئے ہیں ۔ ۔ ۔ لیکن اگر کوئی مشکل پیش آئی تو میں خون ریزی پر راضی نہیں ھوں، بلکہ میرے جنازہ کو قبرستان بقیع میں میری ماں ﴿ فاطمہ بنت اسد﴾ کے پاس دفن کرنا”۔ یہ مطلب اہل سنت کی اکثر کتابوں میں آیا ہے، من جملہ: الاستیعاب[4] ، انساب الاشرف[5]، تاریخ یعقوبی[6] اور ابن عثم کوفی کی کتاب الفتوح [7] میں ۔ شیعوں کی کتابوں میں بھی پہلی بار شیخ طوسی کی کتاب“ امالی” میں نقل کیا گیا ہے کہ حضرت امام حسن مجتبی ﴿ع﴾ نے امام حسین ﴿ع﴾ سے اپنی وصیت کے ضمن میں فرمایا:” :«...وَ أَنْ تَدْفِنَنِی مَعَ جَدِّی رَسُولِ اللَّهِ (صَلَّى اللَّهُ عَلَیهِ وَ آلِهِ) فَإِنِّی أَحَقُّ بِهِ وَ بِبَیتِهِ مِمَّنْ أُدْخِلَ بَیتَهُ بِغَیرِ إِذْنِهِ»؛[8] ” مجھے میرے نانا رسول اللہ کے پاس سپرد خاک کرنا کیونکہ میں آپ ﴿ص﴾ کے گھر میں دفن ھونے کے سلسلہ میں ان لوگوں سے مستحق تر ھوں جو اجازت کے بغیر وہاں پر داخل ھوئے ہیں۔”
شیخ طوسی کے بعد “ بشارة المصطفی”[9] وغیرہ جیسی شیعوں کی دوسری کتابوں میں ان سے نقل کیا گیا ہے، لیکن شیخ مفید کی “ ارشاد” جیسی کتاب میں وصیت کا یہ حصہ نہیں آیا ہے اور حتی کہ کافی میں امام باقر ﴿ع﴾ کے قول سے نقل کیا گیا ہے کہ امام حسن مجتبی ﴿ع﴾ نے وصیت کی تھی کہ صرف تجدید عہد کے لئے آپ ﴿ع﴾ کے جنازہ کو پیغمبر اسلام ﴿ص﴾ کے مرقد کے پاس لے جائیں نہ دفن کرنے کے لئے اور کافی کی روایت کے ضمن میں بھی آیا ہے کہ امام حسین ﴿ع﴾ نے عائشہ کے جواب میں فر مایا کہ:“ تم نے پیغمبر ﴿ص﴾ کے گھر کی بے حرمتی کی ہے اور اپنے باپ اور اس شخص کو وہاں پر داخل ھونے کی اجازت دیدی جسے آنحضرت ﴿ص﴾ پسند نہیں کرتے، اس لئے تمھیں خدا کے پاس جواب دینا ہے۔ ۔ ۔ اور جان لو کہ میرے بھائی نے مجھے حکم دیا ہے کہ تجدید عہد کے لئے انھیں رسول اللہ ﴿ص﴾کے پاس لے جاؤں کہ وہ کتاب خدا کے بارے میں دوسروں سے زیادہ آگاہ تر ہیں کہ اللہ نے ارشاد فرمایا ہے: کہ «لا تَدْخُلُوا بُیوتَ النَّبِی إِلاَّ أَنْ یؤْذَنَ لَكُم»؛[10] “ پیغمبر ﴿ص﴾ کے گھروں میں اجازت کے بغیر داخل نہ ھو جاؤ ۔ ۔ ۔ افسوس ھو تجھ پر عائشہ ! تو نے پیغمبر ﴿ص﴾ کے پاس ﴿ اپنے باپ اور عمر کو دفن کرنے کے لئے﴾ گینتی کی آواز بلند کی جبکہ خداوند متعال نے پیغمبر ﴿ص﴾ کے پاس آواز بلند کرنے کی ممانعت کی ہے۔ ۔ ۔ اور اگر دفن کرنا جائز ھوتا تو ہم دفن کرتے تاکہ تمھیں معلوم ھوتا کہ کچھ نہیں کرسکتی ھو۔ ۔ ۔”[11]
علامہ مجلسی اپنی کتاب “ مرآة العقول”[12] میں اس روایت کو بیان کرتے ھوئے فرماتے ہیں: “ شاید یہ کلام مصلحت پر مبنی کیا گیا ھو کہ ان دو کو اجازت کے بغیر دفن کرنا برا کام تھا، ورنہ امام حسن ﴿ع﴾ پیغمبر اکرم ﴿ص﴾کی زندگی میں آپ ﴿ص﴾ کے گھر میں داخل ھونے کی اجازت رکھتے تھے اور اس کے بعد بھی۔ ۔ ۔ وہ اپنے کلام کی تائید میں شیخ طوسی کی امالی میں ذکر کی گئی روایت کی طرف اشارہ کرتے ہیں ، جو دفن کرنے کی وصیت کی دلالت کرتی ہے۔
اس کے علاوہ شیخ مفید کی کتاب “ امالی” میں حضرت امام حسن ﴿ع﴾ کی وصیت کو بیان کرنے کے ضمن میں آیا ہے:“ جب میں دنیا سے چلا جاؤں ، میری آنکھیں بند کرنا، مجھے غسل دینا، مجھے کفن پہنانا اور ایک تخت ﴿ تابوت﴾ پر رکھنا، میرے جنازہ کو میرے نانا رسول خدا ﴿ص﴾ کے پاس لے جانا تاکہ تجدید عہد کروں، اس کے بعد مجھے میری جدہ فاطمہ بنت اسد ﴿ مادر امیرالمومنین﴾ کی قبر کی طرف سے لے جانا اور وہاں پر مجھے سپرد خاک کرنا۔”
اس کے بعد حضرت ﴿ع﴾ نے فرمایا:“ جلدی ہی آپ دیکھ لیں گے کہ، کچھ لوگ اس گمان سے آپ کو روکنے کے لئے جمع ھوں گے کہ آپ مجھے میرے نا نا کی قبر کے پاس دفن کرنا چاہتے ہیں۔ میں اس وقت آپ کو سفارش کرتا ھوں خدا کے لئے کوشش کرنا، میرے جنازہ کی وجہ سے خونریزی نہ ھو جائے۔ ۔ ۔ ” مروان اور بنی امیہ کے دوسرے افراد نے یقین کرلیا کہ لوگ بدن مطہر کو رسول خدا ﴿ص﴾ کے پاس دفن کرنا چاہتے ہیں، اس لئے انھوں نے جنگ کے لئے اپنے آپ کو مسلح کیا اور جمع ھوکر کاروان عزا کا راستہ روک لیا۔ جوں ہی امام حسین ﴿ع﴾ بدن مبارک کو پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ کی قبر کی طرف لے جانے لگے تاکہ اپنے نانا رسول خدا﴿ص﴾ سے تجدید عہد کریں، مقابلے میں آئے ھوئے لوگوں﴿ پیروان سقیفہ﴾ نے صف آرائی کی اور رکاوٹ بنے۔ عائشہ بھی ایک خچر پر سوار ھوکر ان سے ملحق ھوئیں اور کہتی تھیں:“ ہمیں آپ سے کوئی تعلق نہیں ہے؟! آپ ایک ایسے شخص کو میرے گھر میں داخل کرنا چاہتے ہیں کہ میں اس کے بارے میں کسی قسم کی محبت اور احترام کی قائل نہیں ھوں؟
معاویہ کے نوکر، مروان کو انتقام لینے کا مناسب موقع فراہم ھوا اور زبان کھول کر کہنے لگا:“ عثمان، مدینہ سے دور ترین جگہ پر دفن ھوجائے اور حسن، پیغمبر ﴿ص﴾ کے پاس ؟ ! یہ نا ممکن ہے ۔”
اس کے بعد یہ جملہ کہتے ھوئے کہ: “ وانا احمل السیف” تشییع کرنے والوں کو جنگ کی دھمکی دی۔
نزدیک تھا کہ ایک فتنہ برپا ھو جائے کہ ابن عباس آگے بڑھے اور مروان سے مخاطب ھوکر کہا: “ ارجع یا مروان من حیث جئت۔” “ مروان ہٹ جاؤ یہاں سے ، ہم اس بدن مطہر کو رسول خدا ﴿ص﴾ کے پاس دفن کرنا نہیں چاہتے ہیں بلکہ ہم صرف اس بدن مطہر کو زیارت کراکے رسول خدا ﴿ص﴾ سے تجدید عہد کرنا چاہتے ہیں، اس کے بعد بقیع کی طرف لے جاکر حضرت ﴿ع﴾ کی وصیت کے مطابق ان کی دادای﴿ فاطمہ بنت اسد﴾ کی قبر کے پاس سپرد خاک کرنا چاہتے ہیں۔
مطمئن رہنا، اگر انھوں نے وصیت کی ھوتی کہ ان کے بدن مطھر کو رسول خدا ﴿ص﴾ کی قبر کے پاس دفن کرنا، تو تمھاری مجال نہیں تھی کہ ہمیں اس کام سے روکتے۔ لیکن حضرت ﴿ امام حسن ﴿ع﴾ خدا اور اس کے رسول ﴿ص﴾ اور آپ ﴿ص﴾ کی قبر کا احترام کرنے میں دوسروں سے عالم تر ہیں اور جانتے تھے کہ خرابی ایجاد نہ ھو، چنانچہ دوسروں نے یہ کام انجام دیا ہے اور اجازت کے بغیر آنحضرت ﴿ص﴾ کے گھر میں داخل ہوئے ہیں۔ ۔ ۔”
ارسشاد میں آیا ہے:
“ ابن عباس آگے بڑھے اور عائشہ سے مخاطب ھوکر کہا: عائشہ! یہ کیسی رسوائی ہے؟ ایک دن خچر پر اور ایک دن اونٹ پر سوار ھوکر ﴿ جنگ جمل کی طرف اشارہ﴾ نور خدا کو بجھانا چاہتی ھو اور خدا کے دوستوں سے جنگ کرنا چاہتی ھو؟ واپس لوٹنا! جس چیز کے بارے میں ڈرتی ھو، مطمئن رہنا کہ ہم وصیت کے مطابق بدن مطہر کو یہاں پر دفن کرنا نہیں چاہتے ہیں، خوش رہنا کہ تو اپنے مقصد کو پہنچی ھو، لیکن یاد رکھنا خدا جب چاہے اہل بیت عصمت ﴿ع﴾ کے دشمنوں سے ضرور انتقام لے گا۔
«وَ قَالَ الْحُسَیْنُ وَ اللَّهِ لَوْ لَا عَهْدُ الْحَسَنِ إِلَیَّ بِحَقْنِ الدِّمَاءِ وَ أَنْ لَا أُهَرِیقَ فِی أَمْرِهِ مِحْجَمَةَ دَمٍ لَعَلِمْتُمْ كَیْفَ تَأْخُذُ سُیُوفُ اللَّهِ مِنْكُمْ مَأْخَذَهَا وَ قَدْ نَقَضْتُمُ الْعَهْدَ بَیْنَنَا وَ بَیْنَكُمْ وَ أَبْطَلْتُمْ مَا اشْتَرَطْنَا عَلَیْكُمْ لِأَنْفُسِنَا»؛ اور امام حسین ﴿ع﴾ نے فرمایا: خدا کی قسم! اگر میرے بھائی نے مجھ سے عہد و پیمان نہیں کیا ھوتا کہ خونریزی نہیں ھونی چاہئیے، تو تم لوگ دیکھتے کہ تلواریں کیسے تمھاری جانیں لیتیں! تم وہی روسیا ھو جنھوں نے ہمارے ساتھ کئے ھوئے عہد و پیمان کو توڑ دیا ہے اور اس پیمان کے شرائط کو باطل کیا ہے۔
اس کے بعد مظلوم امام حسن ﴿ع﴾ کے جنازہ کو بقیع کی طرف لے گئے اور آپ ﴿ع﴾ کی دادی، فاطمہ بنت اسد کی قبر کے پاس دفن کیا۔[13]
مذکورہ عبارت ، شیخ مفید کی تھی جو اس فن کے استاد ہیں۔ لیکن اس میں دفن کرنے کی وصیت کی بحث نہیں ہے۔ بہرحال امام حسین﴿ع﴾ اپنے بھائی کی وصیت کے مطابق، جنازہ کو بقیع کی طرف لے گئے اور وہاں پر انھیں سپرد خاک کیا۔ اس سلسلہ میں اہل سنت کی کتابوں میں، مثال کے طور پر تاریخ ابن عساکر[14] میں یہ موضوع بیان کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ نقل کیا گیا ہے کہ طرفین نے لباس جنگ زیب تن کیا اور ان کے درمیان تیر اندازی ھوئی۔[15]
اب ہم شیعوں کی مذکورہ دو معتبر کتابوں سے مطالب کو نقل کرکے چند نکات پر مشتمل نتیجہ حاصل کرنے کے بعد اس سے متعلق سوال کا جواب دیں گے:
١۔ امام حسن مجتبی﴿ع﴾ کی اصل وصیت میں پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ کی قبر کے پاس دفن کرنے کے سلسلہ میں کوئی مستحکم دلیل موجود نہیں ہے، حتی کہ کافی کی روایت کے مطابق بھی کسی دوسرے شخص نے بھی اس قسم کا قصد نہیں کیا ہے؛ اور یہ ایک نامناسب کام شمار ھوتا تھا۔
۲۔ دفن کرنے کے عدم قصد سے آگاہ ھونے کے بعد، جیسا کہ خود امام حسن مجتبی ﴿ع﴾ نے پیشن گوئی فرمائی تھی، اس قسم کے برے عزائم ﴿ جنگ و دعوی﴾ کے لئے کوئی بہانہ باقی نہیں رہتا تھا، لیکن بنی امیہ کے ﴿اہل بیت﴾ کی بہ نسبت کینہ و بغض کے نتیجہ میں وہ کچھ بھی کرنے سے گریز نہیں کرتے تھے۔
۳۔ عائشہ کے لئے اس قسم کی دھمکی کو عنملی جامہ پہنانے میں ، اچھا نتیجہ نہیں نکلتا کیونکہ وہ جنگ جمل میں بے آبرو ھو چکی تھیں، بہرحال مدینہ کے لوگ امام حسن مجتبی ﴿ع﴾ کا احترام کرتے تھے، یہاں تک کہ مروان نے اپنی تمام خباثتوں کے باوجود تشییع جنازہ میں شرکت کی اور حضرت ﴿ع﴾ کی عظمت اور حلم و بردباری کی تعریف کی۔
۴۔ اس بنا پر اصل دھمکی مسلم ہے، لیکن اس پر عمل در آمد کرنا قطعی اطور پر ثابت نہیں ہے ورنہ بنی ہاشم بھی آرام سے نہیں بیٹھتے اور کم از کم بعد میں ان کے اشعار اور گفتگو میں اس کا ذکر ھوتا۔
۵۔ تابوت سے تیر کھینچنا ضروری نہیں ہے کہ تیر جنازہ پر لگ گئے ھوں اور جنازہ خون آلود ھو چکا ھو، کیونکہ ممکن ہے تیر تابوت کی لکڑی پر لگے ھوں اور جنازہ تک نہ پہنچے ھوں، لہذا تاریخ میں کفن کو بدلنے کا کہیں ذکر نہیں آیا ہے۔
٦۔ اہل سنت کی کتابوں میں ابن شہر آشوب کے زمخشری سے نقل کرنے کے علاوہ تیر اندازی کے بارے میں کوئی چیز بیان نہیں کی گئی ہے، جبکہ ہم نے ابن شہر اشوب کی موجودہ کتاب میں بھی یہ مطلب نہیں پایا۔ لیکن دفن کی وصیت کو ان میں سے بہت لوگوں نے نقل کیا ہے۔
اب ہم اس موضوع کو واضح کرنے کے لئے امام حسن مجتبی ﴿ع﴾ کی اس وصیت پر نظر ڈالتے ہیں جس میں آپ ﴿ع﴾ نے اپنے بھائی امام حسین ﴿ع﴾ کو اپنے نا نا رسول خدا ﴿ص﴾ کی قبر کے پاس اپنے جنازہ کو دفن کرنے کی وصیت فرمائی تھی اور یہی مسئلہ اس بے احترامی کا سبب بنا ہے۔ تاریخ میں نقل کیا گیا ہے کہ امام حسن مجتبی ﴿ع﴾ نے اپنی وصیت میں امام حسین ﴿ع﴾ سے فرمایا تھا:“ میرے جنازہ کو پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ کی قبر کے پاس دفن کرنا، کیونکہ میں اس کا ان لوگوں سے مستحق تر ھوں جو بغیر اجازت وہاں پر داخل ھوئے ہیں ۔ ۔ ۔ لیکن اگر کوئی مشکل پیش آئی تو میں خون ریزی پر راضی نہیں ھوں، بلکہ میرے جنازہ کو قبرستان بقیع میں میری ماں ﴿ فاطمہ بنت اسد﴾ کے پاس دفن کرنا”۔ یہ مطلب اہل سنت کی اکثر کتابوں میں آیا ہے، من جملہ: الاستیعاب[4] ، انساب الاشرف[5]، تاریخ یعقوبی[6] اور ابن عثم کوفی کی کتاب الفتوح [7] میں ۔ شیعوں کی کتابوں میں بھی پہلی بار شیخ طوسی کی کتاب“ امالی” میں نقل کیا گیا ہے کہ حضرت امام حسن مجتبی ﴿ع﴾ نے امام حسین ﴿ع﴾ سے اپنی وصیت کے ضمن میں فرمایا:” :«...وَ أَنْ تَدْفِنَنِی مَعَ جَدِّی رَسُولِ اللَّهِ (صَلَّى اللَّهُ عَلَیهِ وَ آلِهِ) فَإِنِّی أَحَقُّ بِهِ وَ بِبَیتِهِ مِمَّنْ أُدْخِلَ بَیتَهُ بِغَیرِ إِذْنِهِ»؛[8] ” مجھے میرے نانا رسول اللہ کے پاس سپرد خاک کرنا کیونکہ میں آپ ﴿ص﴾ کے گھر میں دفن ھونے کے سلسلہ میں ان لوگوں سے مستحق تر ھوں جو اجازت کے بغیر وہاں پر داخل ھوئے ہیں۔”
شیخ طوسی کے بعد “ بشارة المصطفی”[9] وغیرہ جیسی شیعوں کی دوسری کتابوں میں ان سے نقل کیا گیا ہے، لیکن شیخ مفید کی “ ارشاد” جیسی کتاب میں وصیت کا یہ حصہ نہیں آیا ہے اور حتی کہ کافی میں امام باقر ﴿ع﴾ کے قول سے نقل کیا گیا ہے کہ امام حسن مجتبی ﴿ع﴾ نے وصیت کی تھی کہ صرف تجدید عہد کے لئے آپ ﴿ع﴾ کے جنازہ کو پیغمبر اسلام ﴿ص﴾ کے مرقد کے پاس لے جائیں نہ دفن کرنے کے لئے اور کافی کی روایت کے ضمن میں بھی آیا ہے کہ امام حسین ﴿ع﴾ نے عائشہ کے جواب میں فر مایا کہ:“ تم نے پیغمبر ﴿ص﴾ کے گھر کی بے حرمتی کی ہے اور اپنے باپ اور اس شخص کو وہاں پر داخل ھونے کی اجازت دیدی جسے آنحضرت ﴿ص﴾ پسند نہیں کرتے، اس لئے تمھیں خدا کے پاس جواب دینا ہے۔ ۔ ۔ اور جان لو کہ میرے بھائی نے مجھے حکم دیا ہے کہ تجدید عہد کے لئے انھیں رسول اللہ ﴿ص﴾کے پاس لے جاؤں کہ وہ کتاب خدا کے بارے میں دوسروں سے زیادہ آگاہ تر ہیں کہ اللہ نے ارشاد فرمایا ہے: کہ «لا تَدْخُلُوا بُیوتَ النَّبِی إِلاَّ أَنْ یؤْذَنَ لَكُم»؛[10] “ پیغمبر ﴿ص﴾ کے گھروں میں اجازت کے بغیر داخل نہ ھو جاؤ ۔ ۔ ۔ افسوس ھو تجھ پر عائشہ ! تو نے پیغمبر ﴿ص﴾ کے پاس ﴿ اپنے باپ اور عمر کو دفن کرنے کے لئے﴾ گینتی کی آواز بلند کی جبکہ خداوند متعال نے پیغمبر ﴿ص﴾ کے پاس آواز بلند کرنے کی ممانعت کی ہے۔ ۔ ۔ اور اگر دفن کرنا جائز ھوتا تو ہم دفن کرتے تاکہ تمھیں معلوم ھوتا کہ کچھ نہیں کرسکتی ھو۔ ۔ ۔”[11]
علامہ مجلسی اپنی کتاب “ مرآة العقول”[12] میں اس روایت کو بیان کرتے ھوئے فرماتے ہیں: “ شاید یہ کلام مصلحت پر مبنی کیا گیا ھو کہ ان دو کو اجازت کے بغیر دفن کرنا برا کام تھا، ورنہ امام حسن ﴿ع﴾ پیغمبر اکرم ﴿ص﴾کی زندگی میں آپ ﴿ص﴾ کے گھر میں داخل ھونے کی اجازت رکھتے تھے اور اس کے بعد بھی۔ ۔ ۔ وہ اپنے کلام کی تائید میں شیخ طوسی کی امالی میں ذکر کی گئی روایت کی طرف اشارہ کرتے ہیں ، جو دفن کرنے کی وصیت کی دلالت کرتی ہے۔
اس کے علاوہ شیخ مفید کی کتاب “ امالی” میں حضرت امام حسن ﴿ع﴾ کی وصیت کو بیان کرنے کے ضمن میں آیا ہے:“ جب میں دنیا سے چلا جاؤں ، میری آنکھیں بند کرنا، مجھے غسل دینا، مجھے کفن پہنانا اور ایک تخت ﴿ تابوت﴾ پر رکھنا، میرے جنازہ کو میرے نانا رسول خدا ﴿ص﴾ کے پاس لے جانا تاکہ تجدید عہد کروں، اس کے بعد مجھے میری جدہ فاطمہ بنت اسد ﴿ مادر امیرالمومنین﴾ کی قبر کی طرف سے لے جانا اور وہاں پر مجھے سپرد خاک کرنا۔”
اس کے بعد حضرت ﴿ع﴾ نے فرمایا:“ جلدی ہی آپ دیکھ لیں گے کہ، کچھ لوگ اس گمان سے آپ کو روکنے کے لئے جمع ھوں گے کہ آپ مجھے میرے نا نا کی قبر کے پاس دفن کرنا چاہتے ہیں۔ میں اس وقت آپ کو سفارش کرتا ھوں خدا کے لئے کوشش کرنا، میرے جنازہ کی وجہ سے خونریزی نہ ھو جائے۔ ۔ ۔ ” مروان اور بنی امیہ کے دوسرے افراد نے یقین کرلیا کہ لوگ بدن مطہر کو رسول خدا ﴿ص﴾ کے پاس دفن کرنا چاہتے ہیں، اس لئے انھوں نے جنگ کے لئے اپنے آپ کو مسلح کیا اور جمع ھوکر کاروان عزا کا راستہ روک لیا۔ جوں ہی امام حسین ﴿ع﴾ بدن مبارک کو پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ کی قبر کی طرف لے جانے لگے تاکہ اپنے نانا رسول خدا﴿ص﴾ سے تجدید عہد کریں، مقابلے میں آئے ھوئے لوگوں﴿ پیروان سقیفہ﴾ نے صف آرائی کی اور رکاوٹ بنے۔ عائشہ بھی ایک خچر پر سوار ھوکر ان سے ملحق ھوئیں اور کہتی تھیں:“ ہمیں آپ سے کوئی تعلق نہیں ہے؟! آپ ایک ایسے شخص کو میرے گھر میں داخل کرنا چاہتے ہیں کہ میں اس کے بارے میں کسی قسم کی محبت اور احترام کی قائل نہیں ھوں؟
معاویہ کے نوکر، مروان کو انتقام لینے کا مناسب موقع فراہم ھوا اور زبان کھول کر کہنے لگا:“ عثمان، مدینہ سے دور ترین جگہ پر دفن ھوجائے اور حسن، پیغمبر ﴿ص﴾ کے پاس ؟ ! یہ نا ممکن ہے ۔”
اس کے بعد یہ جملہ کہتے ھوئے کہ: “ وانا احمل السیف” تشییع کرنے والوں کو جنگ کی دھمکی دی۔
نزدیک تھا کہ ایک فتنہ برپا ھو جائے کہ ابن عباس آگے بڑھے اور مروان سے مخاطب ھوکر کہا: “ ارجع یا مروان من حیث جئت۔” “ مروان ہٹ جاؤ یہاں سے ، ہم اس بدن مطہر کو رسول خدا ﴿ص﴾ کے پاس دفن کرنا نہیں چاہتے ہیں بلکہ ہم صرف اس بدن مطہر کو زیارت کراکے رسول خدا ﴿ص﴾ سے تجدید عہد کرنا چاہتے ہیں، اس کے بعد بقیع کی طرف لے جاکر حضرت ﴿ع﴾ کی وصیت کے مطابق ان کی دادای﴿ فاطمہ بنت اسد﴾ کی قبر کے پاس سپرد خاک کرنا چاہتے ہیں۔
مطمئن رہنا، اگر انھوں نے وصیت کی ھوتی کہ ان کے بدن مطھر کو رسول خدا ﴿ص﴾ کی قبر کے پاس دفن کرنا، تو تمھاری مجال نہیں تھی کہ ہمیں اس کام سے روکتے۔ لیکن حضرت ﴿ امام حسن ﴿ع﴾ خدا اور اس کے رسول ﴿ص﴾ اور آپ ﴿ص﴾ کی قبر کا احترام کرنے میں دوسروں سے عالم تر ہیں اور جانتے تھے کہ خرابی ایجاد نہ ھو، چنانچہ دوسروں نے یہ کام انجام دیا ہے اور اجازت کے بغیر آنحضرت ﴿ص﴾ کے گھر میں داخل ہوئے ہیں۔ ۔ ۔”
ارسشاد میں آیا ہے:
“ ابن عباس آگے بڑھے اور عائشہ سے مخاطب ھوکر کہا: عائشہ! یہ کیسی رسوائی ہے؟ ایک دن خچر پر اور ایک دن اونٹ پر سوار ھوکر ﴿ جنگ جمل کی طرف اشارہ﴾ نور خدا کو بجھانا چاہتی ھو اور خدا کے دوستوں سے جنگ کرنا چاہتی ھو؟ واپس لوٹنا! جس چیز کے بارے میں ڈرتی ھو، مطمئن رہنا کہ ہم وصیت کے مطابق بدن مطہر کو یہاں پر دفن کرنا نہیں چاہتے ہیں، خوش رہنا کہ تو اپنے مقصد کو پہنچی ھو، لیکن یاد رکھنا خدا جب چاہے اہل بیت عصمت ﴿ع﴾ کے دشمنوں سے ضرور انتقام لے گا۔
«وَ قَالَ الْحُسَیْنُ وَ اللَّهِ لَوْ لَا عَهْدُ الْحَسَنِ إِلَیَّ بِحَقْنِ الدِّمَاءِ وَ أَنْ لَا أُهَرِیقَ فِی أَمْرِهِ مِحْجَمَةَ دَمٍ لَعَلِمْتُمْ كَیْفَ تَأْخُذُ سُیُوفُ اللَّهِ مِنْكُمْ مَأْخَذَهَا وَ قَدْ نَقَضْتُمُ الْعَهْدَ بَیْنَنَا وَ بَیْنَكُمْ وَ أَبْطَلْتُمْ مَا اشْتَرَطْنَا عَلَیْكُمْ لِأَنْفُسِنَا»؛ اور امام حسین ﴿ع﴾ نے فرمایا: خدا کی قسم! اگر میرے بھائی نے مجھ سے عہد و پیمان نہیں کیا ھوتا کہ خونریزی نہیں ھونی چاہئیے، تو تم لوگ دیکھتے کہ تلواریں کیسے تمھاری جانیں لیتیں! تم وہی روسیا ھو جنھوں نے ہمارے ساتھ کئے ھوئے عہد و پیمان کو توڑ دیا ہے اور اس پیمان کے شرائط کو باطل کیا ہے۔
اس کے بعد مظلوم امام حسن ﴿ع﴾ کے جنازہ کو بقیع کی طرف لے گئے اور آپ ﴿ع﴾ کی دادی، فاطمہ بنت اسد کی قبر کے پاس دفن کیا۔[13]
مذکورہ عبارت ، شیخ مفید کی تھی جو اس فن کے استاد ہیں۔ لیکن اس میں دفن کرنے کی وصیت کی بحث نہیں ہے۔ بہرحال امام حسین﴿ع﴾ اپنے بھائی کی وصیت کے مطابق، جنازہ کو بقیع کی طرف لے گئے اور وہاں پر انھیں سپرد خاک کیا۔ اس سلسلہ میں اہل سنت کی کتابوں میں، مثال کے طور پر تاریخ ابن عساکر[14] میں یہ موضوع بیان کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ نقل کیا گیا ہے کہ طرفین نے لباس جنگ زیب تن کیا اور ان کے درمیان تیر اندازی ھوئی۔[15]
اب ہم شیعوں کی مذکورہ دو معتبر کتابوں سے مطالب کو نقل کرکے چند نکات پر مشتمل نتیجہ حاصل کرنے کے بعد اس سے متعلق سوال کا جواب دیں گے:
١۔ امام حسن مجتبی﴿ع﴾ کی اصل وصیت میں پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ کی قبر کے پاس دفن کرنے کے سلسلہ میں کوئی مستحکم دلیل موجود نہیں ہے، حتی کہ کافی کی روایت کے مطابق بھی کسی دوسرے شخص نے بھی اس قسم کا قصد نہیں کیا ہے؛ اور یہ ایک نامناسب کام شمار ھوتا تھا۔
۲۔ دفن کرنے کے عدم قصد سے آگاہ ھونے کے بعد، جیسا کہ خود امام حسن مجتبی ﴿ع﴾ نے پیشن گوئی فرمائی تھی، اس قسم کے برے عزائم ﴿ جنگ و دعوی﴾ کے لئے کوئی بہانہ باقی نہیں رہتا تھا، لیکن بنی امیہ کے ﴿اہل بیت﴾ کی بہ نسبت کینہ و بغض کے نتیجہ میں وہ کچھ بھی کرنے سے گریز نہیں کرتے تھے۔
۳۔ عائشہ کے لئے اس قسم کی دھمکی کو عنملی جامہ پہنانے میں ، اچھا نتیجہ نہیں نکلتا کیونکہ وہ جنگ جمل میں بے آبرو ھو چکی تھیں، بہرحال مدینہ کے لوگ امام حسن مجتبی ﴿ع﴾ کا احترام کرتے تھے، یہاں تک کہ مروان نے اپنی تمام خباثتوں کے باوجود تشییع جنازہ میں شرکت کی اور حضرت ﴿ع﴾ کی عظمت اور حلم و بردباری کی تعریف کی۔
۴۔ اس بنا پر اصل دھمکی مسلم ہے، لیکن اس پر عمل در آمد کرنا قطعی اطور پر ثابت نہیں ہے ورنہ بنی ہاشم بھی آرام سے نہیں بیٹھتے اور کم از کم بعد میں ان کے اشعار اور گفتگو میں اس کا ذکر ھوتا۔
۵۔ تابوت سے تیر کھینچنا ضروری نہیں ہے کہ تیر جنازہ پر لگ گئے ھوں اور جنازہ خون آلود ھو چکا ھو، کیونکہ ممکن ہے تیر تابوت کی لکڑی پر لگے ھوں اور جنازہ تک نہ پہنچے ھوں، لہذا تاریخ میں کفن کو بدلنے کا کہیں ذکر نہیں آیا ہے۔
٦۔ اہل سنت کی کتابوں میں ابن شہر آشوب کے زمخشری سے نقل کرنے کے علاوہ تیر اندازی کے بارے میں کوئی چیز بیان نہیں کی گئی ہے، جبکہ ہم نے ابن شہر اشوب کی موجودہ کتاب میں بھی یہ مطلب نہیں پایا۔ لیکن دفن کی وصیت کو ان میں سے بہت لوگوں نے نقل کیا ہے۔
[1] ۔ بن شهر آشوب مازندرانی، مناقب آل أبی طالب علیهم السلام، ج 4،ص 44، علامه، قم، طبع اول، 1379ق.
[2] ۔ محدث قمّی، شیخ عباس، منتهی الآمال، ج 1،ص 440،هجرت،قم، طبع یازدهم،بیتا.
[3] ۔ مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار،ج 44،ص 157، مؤسسة الطبع و النشر، بیروت، طبع اول، 1410ق.
[4] ۔ ابن عبد البر ،یوسف بن عبد الله، الاستیعاب فی معرفه الاصحاب، ج 1، ص 391، دار الجیل،بیروت، 1412ق.
[5] ۔ ا بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، ج 3 ص 55، دار الفکر، بیروت، 1417ق..
[6] ۔ یعقوبی، احمد بن أبی یعقوب، تاریخ الیعقوبی،ج 2،ص 225، دار صادر، بیروت، چاپ اول، بیتا.
[7] ۔ ابن اعثم کوفی، محمد بن علی، الفتوح،ج 4، ص 319،دار الاضواء، بیروت، 1411ق.
[8]. شیخ طوسی، الأمالی،ص 160، مجلس ششم، دار الثقافة، قم، چاپ اول، 1414ق.
[9] ۔ طبری آملی، عماد الدین محمد، بشارة المصطفی لشیعة المرتضی، ص 272،المکتبة الحیدریة، نجف، طبع دوم، 1383ق.
[10]. احزاب ،53
[11] ۔ کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، محقق و مصحح: غفاری، علی اکبر، آخوندی، محمد، ج 1، ص 300- 302، دار الکتب الإسلامیة، تهران، طبع چهارم، 1407ق.
[12] ۔ مجلسی، محمد باقر، مرآة العقول فی شرح أخبار آل الرسول، محقق و مصحح: رسولی، سید هاشم، ج 3،ص 314، دار الکتب الإسلامیة، تهران، طبع دوم، 1404ق.
[13] شیخ مفید، الارشاد فی معرفة حجج الله علی العباد، ج 2،ص 16،کنگره شیخ مفید، قم، چاپ اول، 1413ق. «فَإِذَا قَضَیْتُ فَغَمِّضْنِی وَ غَسِّلْنِی وَ كَفِّنِّی وَ احْمِلْنِی عَلَى سَرِیرِی إِلَى قَبْرِ جَدِّی رَسُولِ اللَّهِ ص لِأُجَدِّدَ بِهِ عَهْداً ثُمَّ رُدَّنِی إِلَى قَبْرِ جَدَّتِی فَاطِمَةَ بِنْتِ أَسَدٍ رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَیْهَا فَادْفِنِّی هُنَاكَفَلَمَّا تَوَجَّهَ بِهِ الْحُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ إِلَى قَبْرِ جَدِّهِ رَسُولِ اللَّهِ ص لِیُجَدِّدَ بِهِ عَهْداً أَقْبَلُوا إِلَیْهِمْ فِی جَمْعِهِمْ وَ لَحِقَتْهُمْ عَائِشَةُ عَلَى بَغْلٍ وَ هِیَ تَقُولُ مَا لِی وَ لَكُمْ تُرِیدُونَ أَنْ تُدْخِلُوا بَیْتِی مَنْ لَا أُحِبُّ...».
[14] ۔ ابن عساکر، ابو القاسم علی بن حسن بن هبة الله،تاریخ ابن عساکر،ج 13، ص 29، دار الفکر، بیروت.
[15] ۔ ایضا ۔