ماضی کے بعض فقهاء جیسے ابن عقیل ، ابن جنید ، اذان و اقامت کو واجب سمجھتے هیں [1]۔ اور استاد هادوی تهرانی کی نظر میں بنابر احتیاط وجب ، اقامت واجب هے ، لیکن اکثر مراجع کرام اذان و اقامت کے احکام کے سلسله میں فرماتے هیں : مرد اور عورت کے لیئے مستحب هے که نماز پنجگانه سے پهلے اذان و اقامت کهے[2]۔
لیکن دوسری واجب نمازوں جیسے نماز آیات ، کے لیئے مستحب هے که تین مرتبه (( الصلاۃ)) کها جائے پس اذان و اقامت اگر چه مستحب موکد هے لیکن واجبات میں سے نهیں هے ، دوسری یه که اذان و اقامت فقط پنجگانه نمازوں سے مخصوص هےمستحبی یا دوسری واجب نمازوں کے لیئے نهیں هیں ۔
رها واجب نمازوں کے لیئے اذان و اقامت کی تکرار سے متعلق تو یه کهنا مناسب هوگا که : نمازی ، نماز ظهر ، نمازمغرب، اور نماز صبح میں اذان و اقامت دونوں کهه سکتا هے لیکن نماز عصر اگر بغیر فاصله کے یا نماز ظهر کے بعد تھوڑے سے فاصله سے ( بعض مراجع نے اس فاصله کو نافله کی ادائگی تک قبول کیا هے لیکن بعض مراجع نافله اور تعقیبات کے فاصله کو کافی نهیں سمجھتے) اور یا نماز عشاء کو فاصله کے بغیر یا نماز مغرب کے بعد تھوڑے سے فاصله سے پڑھے تو دوسری اذان ساقط هوجاتی هے یعنی نماز عصر اور عشاء کی اذان [3]۔
لهذا هر اذان و اقامت کے ذریعه ایک نماز صبح ، ایک نماز ظهر ،نماز عصر کے ساﺘﻬ اور ایک نماز مغرب ، نمازعشاء کے ساﺘﻬ ( جب که نماز ظهر و عصر اور مغرب و عشاء کے درمیان فاصله نه هو) پڑھی جا سکتی هے ، لیکن اگر فاصله هو جائے تو نمازی هر ایک واجب نماز یومیه کے لیئے جداجدا اذان و اقامت کهه سکتا هے ، لیکن هر حال میں هر نماز کے لیئے ایک علیحده اقامت هونی چاهیئے ۔