تیمم کرنے کا ایک سبب ، وضو یا غسل کے لیے وقت نہ ہونا ہے۔
۱۔ اگر وقت اس قدر تنگ ہو کہ اگر وضو کر لے یا غسل انجام دے ، تو اس کی پوری نماز یا نماز کا ایک حصہ وقت کے بعد پڑھا جائے، تو اس صورت میں تیمم کرنا چاہئیے[1]۔
۲۔ اگر عمداً نماز پڑھنے میں اس قدر تاخیر کرے کہ وضو کرنے یا غسل انجام دینے کے لیے وقت نہ بچے ، تو اس نے گناہ کیا ہے، لیکن تیمم کر کے نماز پڑھنا صحیح ہے، اگرچہ احتیاط مستحب ہے کہ اس نماز کی قضا بجا لائے۔
۳۔ اگر کوئی شخص شک کرے کہ وضو یا غسل کرنے کی صورت میں نماز کے لیے وقت باقی بچے گا یا نہیں، تو اسے تیمم کرنا چاہئیے[2]۔
اس لیے مذکورہ مواقع پر تیمم کرنا کافی ہے ، اور اس تیمم کے ساتھ پڑھی گئی نماز کی قضا نہیں ہے، لیکن اس کے بعد والی نماز کے لیے پانی موجود ہونے کی صورت میں تیمم کافی نہیں ہے بلکہ اسے غسل یا وضو بجا لانا چاہئیے۔ البتہ امام خمینی{رح} کے نظریہ کے مطابق اگر یہ تاخیر عمداً ہو تو احتیاط مستحب کے طور پر اس نماز کی قضا بجا لائے۔ قابل ذکر ہے کہ اگر یہ موضوع ماہ رمضان میں اذان صبح سے پہلے جنابت کی وجہ سے ہو، تو تیمم صرف روزہ صحیح ہونے کے لیے کافی ہے، لیکن نماز کے لیے غسل کرنا فرض ہے[3]۔
[1]آیت الله بهجت: اگر تمام نماز وقت کے بعد پڑھی جائے، تو اسے تیمم کرنا چاہئیے۔ اور وضو بجا لانے کی صورت میں اگر نماز کی ایک رکعت وقت کے اندر پڑھے ، لیکن تیمم کرنے کی صورت میں تمام نماز وقت کے اندر پٰھ سکتا ہو تو بظاہر ان میں سے جس صورت کو بھی چاہے انجام دے سکتا ہے، لیکن احتیاط مستحب ہے کہ تیمم کر کے نما زکو وقت کے اندر پڑھے اور اگر تیمم کر کے بھی پوری نماز کو وقت کے اندر نہیں پڑھ سکتا ہے تو اسے احوط بلکہ اقرب کی بنا پر وضو کرنا چاہئیے اور ایک رکعت نماز وقت کے اندر با وضو پڑھے.
[2]توضيح المسائل (المحشى للإمام الخميني)، ج1، ص 377-378، م 678- 680.
[3]امام خمینی، تحریر الوسیلة، ج 1، ص 283.