مذکوره سوال کے سلسله میں مراجع تقلید کا جواب بیان کر نے سے پهلے قابل ذکر بات هے که: هر مسلمان عورت کا فریضه هے که جب کوئی شخص اس کی خواستگاری کے لئے آجائے، تو وه اس شخذص کے بارے میں تحقیق کرے تاکه هر اعتبار سے اپنی پسند کے شخص کو پا سکے اور اگر اپنے هونے والے شوهر کے بارے میں تحقیق کر نے کے لئے کسی سے سوال کرے تو سب کا فرض بنتا هے که اگر کوئی مسئله هو تو اس کو بتادیں –لیکن اگروه عورت کسی سے کوئی سوال نه کرے تو دوسروں کا فرض نهیں هے که جو کچهـ وه جانتے هیں اسے بیان کریں-
حضرت آیت الله العظمی سیدعلی خامنه ای (مدظله العالی) کا جواب: " عورت کو اطلاع دینا ضروری نهیں هے ،مذکوره ٹیسٹ کرنا ذاتی طور پر شرعا ضروری نهیں هے-"
حضرت آیت الله العظمٰی ناصر مکارم شیرازی( مد ظله العالی) کے دفتر کا جواب:
" احتیاط یه هے که مذ کوره ٹیسٹ کر کے اپنی صحت وسلامتی کے بارے میں اطمینان حاصل کرے، اس صورت میں ضروری نهیں هے که اپنے ماضی کے بارے میں اپنی هو نے والی بیوی سے کچھـ کهے-
حضرت آیت الله العظمی فاضل لنکرانی (رح) کے دفتر کا جواب:
یه کام انجام دینا ضروری نهییں هے – بیوی سے کهنا اور مذکوره ٹیسٹ کرانا بھی ضروری نهیں هے –
حضرت آیت الله العظمی بحجت (مدظله العالی) کے دفتر کا جواب:
جهاں تک ممکن هو خود مرد کو چاهئے که مذکوره ٹیسٹ کرائے ، اگر اس کا مسئله مشکوک هو ، اور اگر ممکن نه هو اور بیوی کو خبر دینے میں کوئی رکاوٹ نه هو تو احتمال کا ذکر کرے نه یه که قطعی طور پر عیب کو بیان کرے جبکه قطعی نهیں هے-[1]