جس شخص کے لیے رمضان المبارک میں روزہ رکھنا واجب ہے {تمام شرائط رکھتا ہو} صرف اس لیے کہ وہ روزہ رکھنے کا ارادہ نہیں رکھتا ہے یا ارادہ رکھتا ہے لیکن روزہ نہ رکھے، تو اسلام کے مطابق اس کے لیے تب تک کوئی سزا نہیں ہے جب تک وہ اپنے اس قصد و ارادہ کو عملی جامہ پہنائے اور عملاً اپنے واجب روزہ کو ترک کرے، یا اپنے روزہ کو باطل کرے، اس صورت میں عمداً ترک کیے ہوئے روزہ کے ہر دن کے لیے اس دن کی قضا کے علاوہ کفارہ بھی ادا کرنا پڑے گا۔ عمداً روزہ کو ترک کرنے یا رمضان المبارک کے روزہ کو عمداً توڑنے کا کفارہ درج ذیل تین موارد میں سے ایک ہے:
۱۔ ساٹھ دن روزہ رکھنا { کہ اس کے اکتیس دن پے در پے ہونے چاہئیں}۔
۲۔ ایک غلام کو آزاد کرنا {آج کل یہ ناممکن ہے ، کیونکہ غلام اور بندہ کا وجود نہیں ہے}
۳۔ ہر دن کے لیے ساٹھ فقیروں کو پیٹ بھر کر کھانا کھلانا۔ اگر ان سب میں سے کسی کام کو انجام دینے کی طاقت نہیں رکھتا ہو، تو اسے صرف بارگاہ الہٰی میں استغفار کرنا چاہئیے۔
سوال کے دوسرے حصہ کا جواب حاصل کرنے کے لیے عنوان: "ضعف بدن و روزہ گرفتن"، سوال: 11753{سائٹ: 11648} ملاحظہ ہو[1]۔