یہ روایت: «رَوَى الْمُفَضَّلُ بْنُ عُمَرَ عَنْ أَبِی عَبْدِ اللَّهِ (ع) قَالَ إِذَا کَانَتْ لَکَ حَاجَةٌ إِلَى اللَّهِ وَ ضِقْتَ بِهَا ذَرْعاً فَصَلِّ رَکْعَتَئیْنِ فَإِذَا سَلَّمْتَ کَبِّرِ اللَّهَ ثَلَاثاً وَ سَبِّحْ تَسْبِیحَ فَاطِمَةَ (ع) ثُمَّ اسْجُدْ وَ قُلْ مِائَةَ مَرَّةٍ یَا مَوْلَاتِی فَاطِمَةُ أَغِیثِینِی ثُمَّ ضَعْ خَدَّکَ الْأَیْمَنَ عَلَى الْأَرْضِ وَ قُلْ مِثْلَ ذَلِکَ ثُمَّ عُدْ إِلَى السُّجُودِ وَ قُلْ ذَلِکَ مِائَةَ مَرَّةٍ وَ عَشْرَ مَرَّاتٍ وَ اذْکُرْ حَاجَتَکَ فَإِنَّ اللَّهَ یَقْضِیهَا» جلیل القدرعالم، کفعمی کی تالیف شدہ کتاب " بلد الامین" میں درج ہے-[1] علامہ مجلسی نے بھی بحارالانوار میں اسے کفعمی کی کتاب "بلد الامین" اور " مصباح" سے نقل کیا ہے-[2]
مفضل نے امام جعفر صادق{ع} سے نقل کیا ہے کہ آپ{ع} نے فرمایا: اگر بارگاہ الہی سے کوئی حاجت ھو اور اس حاجت کی استجابت چاہتے ھو، اوریہ حاجت ضروری ھو تو پہلے دورکعت نماز بجا لانا اور اس نماز کی سلام بجا لا تے وقت تین بار تکبیر کہنا اور اس کے بعد حضرت فاطمہ زہراء {ع} کی تسبیح پڑھنا، اس کے بعد سجدہ میں جاکر ایک سو مرتبہ " یا مولاتی فاطمہ اغیثنی"{ اے فاطمہ زہراء میری فریاد سننا} پڑھنا اس کے بعد اپنے دائیں رخ کو زمین پر رکھ کر اس عبارت کو دہرانا اس کے بعد پھر سے سجدہ میں جاکر اس عبارت کو ایک سو دس مرتبہ دہرانا اور اس کے بعد اپنی حاجت کو خداوند متعال سے طلب کرنا، خدا اس حاجت کو پورا کرے گا-
یہ روایت مقطوع ہے اور اس کے تمام راوی مفضل بن عمر تک ذکر نہیں ھوئے ہیں اور یہ بذات خود حدیث کا ضعیف ھونا شمار ھوتا ہے-
لیکن مفضل بن عمر، امام جعفر صادق{ع} اور امام موسی کاظم{ع} کے صحابیوں میں شمار ھوتے ہیں اور شیعوں کی کتابوں میں انھوں نے ان دو اماموں {ع} سے بہت سی روایتیں نقل کی ہیں- " توحید مفضل" نامی کتاب قدیم زمانہ سے علم کلام کے بہت سے اساتذہ کی نظر میں قابل توجہ رہی ہے- یہ کتاب امام صادق {ع} کی فرمائشات کو نقل کرکے مفضل نے علم کلام اور عقائد کے بارے میں تالیف کی ہے-
شیخ طوسی ، مفضل بن عمر کو ممدوح جانتے ہیں-[3] شیخ مفید انھیں امام جعفر صادق {ع} کےان خاص اور قابل اعتماد صحابیوں اور صالح فقہامیں سے جانتے ہیں، جنھوں نے امام جعفر صادق {ع} سے روایتیں نقل کی ہیں-[4] یہاں تک کہ حدیث بیان کرنے والے راویوں کے درمیان کوفہ میں اختلاف پیدا ھونے کی صورت میں، مفضل بن عمر اختلافات کو دور کرنے کا مرجع سمجھے جاتے تھے اور بہت سی روایتوں میں امام جعفر صادق {ع} نے ان کی تائید اور تمجید بھی کی ہے- لیکن اس کے مقابلے میں نجاشی[5] اور ابن غضائری[6] جیسے علم رجال کے علماء نے ان کو فاسد المذہب جانا ہے اور ان کی وثافت پر شک کیا ہے اور ان کی مذمت میں بھی کئی روایتیں نقل کی گئی ہیں-
تحقیق کی بنا پر قابل بیان ہے کہ ان کی مذمت میں نقل کی گئی روایتیں یا ضعیف ہیں یا تقیہ کی بنا پر کہی گئی ہیں اور اس کے مقابلے میں بعید نہیں ہے کہ ان کی مدح اور تمجید میں نقل کی گئی روایتیں اجمالی تواتر رکھتی ھوں- اس لئے ان کی مذمت میں نقل کی گئی روایتوں میں وہ قوت نہیں ہے کہ ان کی تمجید میں نقل کی گئی روایتوں کا مقابلہ کرسکیں- اس لحاظ سے اور شیخ مفید اور شیخ طوسی جیسے بہت سے علماء کے نظریہ کے پیش نظر نجاشی کے قول پر اعتماد نہیں کیا گیا ہے اور مفضل بن عمر کو امام جعفر صادق {ع} کے قابل اعتماد صحابی کے عنوان سے شمار کیا گیا ہے- چنانچہ آیت اللہ خوئی جیسے علم رجال کے بہت سے علماء کا بھی یہی نظریہ ہے-
لیکن اس حدیث کی دلالت اور معنی کے بارے میں قابل بیان ہے کہ، بہت سی احادیث میں جو کام قابل مذمت شمار کیا گیا ہے، وہ خدا کے علاوہ کسی کو سجدہ کرنا ہے، لیکن انبیاء {ع} اور ائمہ معصومین {ع} سے توسل اور شفاعت طلب کرنا شیعوں کا مسلم اعتقاد ہے اور کسی صورت میں اسے شرک شمار نہیں کیا جاسکتا ہے-[7]
مذکورہ حدیث میں بھی جو کچھ روایت سے استنباط ھوتا ہے، وہ یہ ہے کہ حاجت خدا سے طلب کی جاتی ہے، نماز خدا کے لئے ہے، تسبیحات حضرت فاطمہ زہراء {ع} میں بھی خداوند متعال کا حمد و ثنا ہے، نماز کے بعد بجا لانے والا سجدہ بھی خدا کے لئے ہے- اس سجدہ میں صرف ایک چیز یعنی حضرت فاطمہ زہراء{ع} سے خطاب کیا جاتا ہے اور انھیں شفیع قرار دیا جاتا ہے، نہ یہ کہ ان کے لئے سجدہ کیا جاتا ہے- بالاخر اسی روایت میں صراحت سے بیان کیا گیا ہے کہ یہ خداوند متعال ہے، جو حاجت پوری کرتا ہے، اس لحاظ سے اس نماز میں کسی قسم کا شرک موجود ھونے کی دلیل نہیں پائی جاتی ہے-
سجدہ میں خدا کے علاوہ کسی کو خطاب قرار دینے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے، چنانچہ خود نماز بھی ، جو صرف خدا کے لئے خاص عبادت ہے، اور نماز خدا کے علاوہ کسی کے لئے بجا لانا جائز نہیں ہے، پیغمبر اکرم {ص} اور صالح بندوں کو خطاب قرار دیا جاتا ہے اور ان پر درود و سلام بھیجا جاتا ہے- شیعہ اور سنی نماز کے تشہد اور سلام میں " «السلام علیک أیها النبی و رحمة الله و برکاته، السلام علینا و علی عباد الله الصالحین» کہنا جائز جانتے ہیں-
[1] کفعمی، ابراهیم بن علی عاملی، البلد الامین و الدرع الحصین، ص 159، مؤسسة الاعلمی للمطبوعات، بیروت، 1418ق.
[2] مجلسی، محمد باقر، بحار الأنوار، ج 99، ص254، دار إحیاء التراث العربی، بیروت، 1403ق.
[3] طوسی، محمد بن الحسن، تهذیب الأحکام، تحقیق، خرسان حسن الموسوی، ج 7، ص278، دار الکتب الاسلامیه، تهران، 1407ق؛ طوسی، محمد بن الحسن، الغیبة، تحقیق، تهرانی و ناصح، ص346، دار المعارف الاسلامیه، قم، 1411ق.
[4] شیخ مفید، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفة حجج الله علی العباد، تحقیق موسسه آل البیت، ج 2، ص216، کنگره شیخ مفید، قم، 1413ق.
[5] نجاشی، احمد بن علی، رجال النجاشی، ص416، مؤسسة النشر الاسلامی التابعه لجامعه المدرسین بقم المشرفه، قم، 1365ش.
[6] واسطی بغدادی، احمد بن حسین، الرجال بابن الغضائری، تحقیق حسینی، ص87، دار الحدیث، قم، 1364ش.