سائٹ کے کوڈ
ur21552
کوڈ پرائیویسی سٹیٹمنٹ
43431
سوال کا خلاصہ
پیغمبر اسلام نے فرمایا ہے:" : "جس طرح میں نماز پڑھتا ہوں تم بھی اسی طرح پڑھو ۔"کیا عورتوں کو بھی پیغمبر[ص] کی نماز کے مانند نماز پڑھنی چاہئے ؟
سوال
عورتوں کے نماز پڑھنے کا صحیح طریقہ کیا ہے ؟ چونکہ نبی اکرم [ص]نے فرمایا ہے: "جس طرح میں نماز پڑھتا ہوں تم بھی اسی طرح پڑھو ۔"کیا سجدہ کی حالت میں مرد اور عورت کی نماز میں کوئِی فرق ہے ؟
ایک مختصر
پیغمبر اسلام [ص]کبھی زبانی طور پر احکام کو بجا لانے کی کیفیت بیان فرماتے تھے اور کبھی بیان کے علاوہ اپنی سیرت اور رفتار و کردار سے بھی عملا دینی احکام کو بجا لانے کی کیفیت کی تربیت دیتے تھے ۔البتہ بعض مواقع پر ان دونوں طریقوں کو ایک ساتھ سکھانے کی ضرورت ہوتی تھی ۔
پیغمبر اسلام[ص] کی طرف سے زبانی تشریح کے علاوہ عملی طور پر تربیت دینے کے مواقع میں سے ایک نماز ہے،اس لحاظ سے آنحضرت[ص] نے فرمایا ہے :"صلوا کما رایتمونی اصلی"۔[1] "اپنی نماز کو اس طرح پڑھو،جس طریقہ سے میں پڑھتا ہوں " یعنی اپنی نماز کومیری نماز کے مطابق بجا لاو اور میری نماز آپ کے اعمال کے صحیح ہونے کا معیار ہے۔
پیغمبر اکرم[ص] کے کلام کے یہ معنی ہیں کہ آپ مکلفین،من جملہ مرد و زن نماز کے کلی اعمال و ارکان،جیسے:رکعات کی تعداد،نیت کی کیفیت،قیام،قرائت،رکوع و سجود وغیرہ میں اپنی نماز کو میری نمازسے تطبیق دو۔ لیکن اس امر کے پیش نظر کہ عورتیں احکام کے بعض جزئیات کوبجا لانے میں مردوں سے فرق رکھتی ہیں ،جس کی وجہ ان کی خاص جنسی حالت ہوتی ہے، اس لئے ہمیں زن و مرد کے درمیان بعض جزئیات میں فرق کے بارے میں پیغمبر اسلام[ص] اور ائمہ اطہار[ع] کے گفتار و سیرت سے معلومات حاصل کرنے چاہئے، کہ جزئیات میں یہ تفاوت صابربن جعفی کی امام باقر [ع] سے نقل کی گئی روایت میں بیان کی گئی ہے : " جب عورت نماز کے لئے کھڑی ہو جائے تو اسے اپنے دونوں پاوں کوآپس میں ملاکر رکھنا چاہئے اور اپنے دونوں ہا تھوں کو سینہ پر رکھے اور رکوع کی حالت میں اپنے دونوں ہاتھوں کو دونوں زانووں پر رکھے اور جب سجدہ بجالانا چاہے تو پہلے بیٹھے پھر زمین پر سجدہ بجا لائے اور جب اپنے سر کو سجدہ سے اٹھانا چاہے تو پہلے بیٹھے پھر قیام کے لئے اٹھے او جب تشہد کے لئے بیٹھے تو دونوں پیروں پر بیٹھ کراپنی دونوں رانوں کو ملا کر رکھے اور تسبیح پڑھنا چاہے تو اپنے ہاتھوں کی انگلیوں کو ملاکر رکھے،کیونکہ ان تمام امور کے بارے میں ان سے سوال کیا جائے گا ۔"[2]
اس روایت کے مطابق،"صلوا کما رایتمونی اصلی" نماز کے کلیات کے بارے میں ہے کہ اس میں مرد اور عورت کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے ۔ لیکن بعض خصوصیات میں کچھ تفاوتیں ضرور پائی جاتی ہیں، جو امام باقر [ع] کی روایت میں بیان کی گئی ہیں اور شائد امام باقر[ع] کی روایت کے آخری نکتہ سے استنباط[3] کرکے کہا جاسکتا ہے کہ جزئیات میں یہ تفاوت عورت کے عفیف ہونے اور زندگی کے تمام امور میں حتی کہ اپنے پروردگار سے گفتگو کے دوران بھی عفت کی رعایت کرنے کے پیش نظر ہو ۔
پیغمبر اسلام[ص] کی طرف سے زبانی تشریح کے علاوہ عملی طور پر تربیت دینے کے مواقع میں سے ایک نماز ہے،اس لحاظ سے آنحضرت[ص] نے فرمایا ہے :"صلوا کما رایتمونی اصلی"۔[1] "اپنی نماز کو اس طرح پڑھو،جس طریقہ سے میں پڑھتا ہوں " یعنی اپنی نماز کومیری نماز کے مطابق بجا لاو اور میری نماز آپ کے اعمال کے صحیح ہونے کا معیار ہے۔
پیغمبر اکرم[ص] کے کلام کے یہ معنی ہیں کہ آپ مکلفین،من جملہ مرد و زن نماز کے کلی اعمال و ارکان،جیسے:رکعات کی تعداد،نیت کی کیفیت،قیام،قرائت،رکوع و سجود وغیرہ میں اپنی نماز کو میری نمازسے تطبیق دو۔ لیکن اس امر کے پیش نظر کہ عورتیں احکام کے بعض جزئیات کوبجا لانے میں مردوں سے فرق رکھتی ہیں ،جس کی وجہ ان کی خاص جنسی حالت ہوتی ہے، اس لئے ہمیں زن و مرد کے درمیان بعض جزئیات میں فرق کے بارے میں پیغمبر اسلام[ص] اور ائمہ اطہار[ع] کے گفتار و سیرت سے معلومات حاصل کرنے چاہئے، کہ جزئیات میں یہ تفاوت صابربن جعفی کی امام باقر [ع] سے نقل کی گئی روایت میں بیان کی گئی ہے : " جب عورت نماز کے لئے کھڑی ہو جائے تو اسے اپنے دونوں پاوں کوآپس میں ملاکر رکھنا چاہئے اور اپنے دونوں ہا تھوں کو سینہ پر رکھے اور رکوع کی حالت میں اپنے دونوں ہاتھوں کو دونوں زانووں پر رکھے اور جب سجدہ بجالانا چاہے تو پہلے بیٹھے پھر زمین پر سجدہ بجا لائے اور جب اپنے سر کو سجدہ سے اٹھانا چاہے تو پہلے بیٹھے پھر قیام کے لئے اٹھے او جب تشہد کے لئے بیٹھے تو دونوں پیروں پر بیٹھ کراپنی دونوں رانوں کو ملا کر رکھے اور تسبیح پڑھنا چاہے تو اپنے ہاتھوں کی انگلیوں کو ملاکر رکھے،کیونکہ ان تمام امور کے بارے میں ان سے سوال کیا جائے گا ۔"[2]
اس روایت کے مطابق،"صلوا کما رایتمونی اصلی" نماز کے کلیات کے بارے میں ہے کہ اس میں مرد اور عورت کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے ۔ لیکن بعض خصوصیات میں کچھ تفاوتیں ضرور پائی جاتی ہیں، جو امام باقر [ع] کی روایت میں بیان کی گئی ہیں اور شائد امام باقر[ع] کی روایت کے آخری نکتہ سے استنباط[3] کرکے کہا جاسکتا ہے کہ جزئیات میں یہ تفاوت عورت کے عفیف ہونے اور زندگی کے تمام امور میں حتی کہ اپنے پروردگار سے گفتگو کے دوران بھی عفت کی رعایت کرنے کے پیش نظر ہو ۔
[1]علامه حلی، حسن بن یوسف، نهج الحقّ و کشف الصدق، ص 423، بیروت، دار الکتاب اللبنانی، طبع اول، 1982م.
[2]«فَإِذَا قَامَتْ فِی صَلَاتِهَا ضَمَّتْ رِجْلَیْهَا وَضَعَتْ یَدَیْهَا عَلَى صَدْرِهَا وَ تَضَعُ یَدَیْهَا فِی رُکُوعِهَا عَلَى فَخِذَیْهَا وَ تَجْلِسُ إِذَا أَرَادَتِ السُّجُودَ سَجَدَتْ لَاطِئَةً بِالْأَرْضِ وَ إِذَا رَفَعَتْ رَأْسَهَا مِنَ السُّجُودِ جَلَسَتْ ثُمَّ نَهَضَتْ إِلَى الْقِیَامِ وَ إِذَا قَعَدَتْ لِلتَّشَهُّدِ رَفَعَتْ رِجْلَیْهَا وَ ضَمَّتْ فَخِذَیْهَا وَ إِذَا سَبَّحَتْ عَقَدَتْ بِالْأَنَامِلِ لِأَنَّهُنَّ مَسْئُولَاتٌ». شیخ صدوق، الخصال، محقق، مصحح، غفاری، علی اکبر، ج 2، ص 585 - 586، قم، دفتر انتشارات اسلامی، طبع اول، 1362ش.
[3]«مسئولیت و پرسش از زنان نسبت به این حرکات و کیفیت اجرایی در نماز».