سوال کا خلاصہ
نماز کی ہر رکعت میں کیوں دو سجدے ہیں؟
سوال
نماز کی ہر رکعت میں کیوں دو سجدے ہیں؟
ایک مختصر
اگر چہ عبادتیں تعبدی امور میں سے ہیں اور اسی طرح ان کے بعض اجزاء و شرائط بھی تعبدی ہیں، لیکن اس کے باوجود ائمہ اطہار(ع) سے نقل کی گئی بعض روایتوں میں تعبدی امور میں سے بعض، من جملہ سوال میں بیان کئے گئے مطلب کے بارے میں کچھ حکمت اور فلسفہ کے بارے میں اشارہ کیا گیا ہے۔ ۔ ۔ : «فَإِنْ قَالَ فَلِمَ جُعِلَ رَکْعَةً وَ سَجْدَتَیْنِ قِیلَ لِأَنَّ الرُّکُوعَ مِنْ فِعْلِ الْقِیَامِ وَ السُّجُودَ مِنْ فِعْلِ الْقُعُودِ وَ صَلَاةَ الْقَاعِدِ عَلَى النِّصْفِ مِنْ صَلَاةِ الْقَائِمِ فَضُوعِفَ السُّجُودُ لِیَسْتَوِیَ بِالرُّکُوعِ فَلَا یَکُونُ بَیْنَهُمَا تَفَاوُتٌ لِأَنَّ الصَّلَاةَ إِنَّمَا هِیَ رُکُوعٌ وَ سُجُودٌ»؛[1]
اگر کوئی پوچھ لے کہ ہر رکعت میں کیوں ایک رکوع اور دوسجدے ہیں؟ کہا جاتا ہے کیونکہ نماز کا رکوع قیام کی حالت کے افعال میں سے ہے اور سجدہ قعود اور بیٹھنے کے افعال میں سے ہے اور بیٹھ کر پڑھی جانے والی نماز، کھڑے پڑھی جانے والی نماز کا نصف ھوتی ہے، اس لئے سجدہ دوبار مقرر کیا گیا ہے تاکہ رکوع کے برابر ھو اور ان دو کے درمیان فرق نہ ھو کیونکہ نماز رکوع و سجود ہے۔ أَمِیرُ الْمُؤْمِنِینَ (ع) عَنْ مَعْنَى السُّجُودِ فَقَالَ مَعْنَاهُ مِنْهَا خَلَقْتَنِی یَعْنِی مِنَ التُّرَابِ وَ رَفْعُ رَأْسِکَ مِنَ السُّجُودِ مَعْنَاهُ مِنْهَا أَخْرَجْتَنِی وَ السَّجْدَةُ الثَّانِیَةُ وَ إِلَیْهَا تُعِیدُنِی وَ رَفْعُ رَأْسِکَ مِنَ السَّجْدَةِ الثَّانِیَةِ وَ مِنْهَا تُخْرِجُنِی تَارَةً أُخْرَى»؛[2]
امام علی (ع) سے پہلے سجدہ کے فلسفہ کے بارے میں سوال کیا گیا۔ حضرت (ع) نے فرمایا: پہلا سجدہ ان معنی میں ہے کہ خدا وندا ہماری بنیاد خاک ہے اور سجدہ سے سر اٹھانے کے یہ معنی ہیں کہ خداوندا تونے ہمیں خاک سے نکالا ہے اور دوسرے کے معنی یہ ہیں کہ، خداوندا ہمیں پھر سے خاک کی طرف لوٹاتے ھو۔ اور دوسرے سجدہ سے سر اٹھانے کے یہ معنی ہیں کہ خداوندا قیامت کے دن ایک بار پھر ہمیں خاک سے باہر لاؤ گے۔ یہ کلام اس آیہ شریفہ کی طرف اشارہ ہے: «مِنْها خَلَقْناکُمْ وَ فیها نُعیدُکُمْ وَ مِنْها نُخْرِجُکُمْ تارَةً أُخْرى»؛[3]
اگر کوئی پوچھ لے کہ ہر رکعت میں کیوں ایک رکوع اور دوسجدے ہیں؟ کہا جاتا ہے کیونکہ نماز کا رکوع قیام کی حالت کے افعال میں سے ہے اور سجدہ قعود اور بیٹھنے کے افعال میں سے ہے اور بیٹھ کر پڑھی جانے والی نماز، کھڑے پڑھی جانے والی نماز کا نصف ھوتی ہے، اس لئے سجدہ دوبار مقرر کیا گیا ہے تاکہ رکوع کے برابر ھو اور ان دو کے درمیان فرق نہ ھو کیونکہ نماز رکوع و سجود ہے۔ أَمِیرُ الْمُؤْمِنِینَ (ع) عَنْ مَعْنَى السُّجُودِ فَقَالَ مَعْنَاهُ مِنْهَا خَلَقْتَنِی یَعْنِی مِنَ التُّرَابِ وَ رَفْعُ رَأْسِکَ مِنَ السُّجُودِ مَعْنَاهُ مِنْهَا أَخْرَجْتَنِی وَ السَّجْدَةُ الثَّانِیَةُ وَ إِلَیْهَا تُعِیدُنِی وَ رَفْعُ رَأْسِکَ مِنَ السَّجْدَةِ الثَّانِیَةِ وَ مِنْهَا تُخْرِجُنِی تَارَةً أُخْرَى»؛[2]
امام علی (ع) سے پہلے سجدہ کے فلسفہ کے بارے میں سوال کیا گیا۔ حضرت (ع) نے فرمایا: پہلا سجدہ ان معنی میں ہے کہ خدا وندا ہماری بنیاد خاک ہے اور سجدہ سے سر اٹھانے کے یہ معنی ہیں کہ خداوندا تونے ہمیں خاک سے نکالا ہے اور دوسرے کے معنی یہ ہیں کہ، خداوندا ہمیں پھر سے خاک کی طرف لوٹاتے ھو۔ اور دوسرے سجدہ سے سر اٹھانے کے یہ معنی ہیں کہ خداوندا قیامت کے دن ایک بار پھر ہمیں خاک سے باہر لاؤ گے۔ یہ کلام اس آیہ شریفہ کی طرف اشارہ ہے: «مِنْها خَلَقْناکُمْ وَ فیها نُعیدُکُمْ وَ مِنْها نُخْرِجُکُمْ تارَةً أُخْرى»؛[3]