سائٹ کے کوڈ
ur21780
کوڈ پرائیویسی سٹیٹمنٹ
66211
سوال کا خلاصہ
کیا باپ اور بیٹے، شوہر اور بیوی، مسلم اور غیر مسلم کے درمیان سود ہے ؟ کیوں ؟
سوال
کیا باپ اور بیٹا، میاں اور بیوی، غیر مسلم اور مسلم، ایک دوسرے کو سود لے اور دے سکتے ہیں، اگر ایسا ہے تو اس کی علت اور سبب کیا ہے؟
ایک مختصر
واضح ہے کہ دین اسلام میں سود لینا اور سود دینا جائز نہیں ہے، چاہے یہ سود قرض اور لین دین کی صورت میں ہی کیوں نہ ہو[1]، لیکن یہ قانون کلی بعض موارد میں استثناء بھی ہوا ہے۔ فقہاء نے اس بارے میں کہا ہے کہ:
" اگر ایک مسلمان اس کافر سے کہ جو اسلام کی پناہ اور ذمہ داری میں زندگی نہیں گزار رہا، سے سود لے لے تو اس میں کوئی شرعی اشکال نہیں ہے، اور اسی طرح باپ اور بیٹا، میاں اور بیوی ایک دوسرے سے سود لے سکتے ہیں۔" [2]
اس شرعی مسئلے میں فقہاء کے پاس دلیل وہ روایات ہیں کہ جو اس بارے میں اہل بیت (ع) سے نقل ہوئی ہیں،[3] لیکن ان روایات میں اس مسئلے کے حکم کی علت و حکمت کے بارے میں کوئی اشاہرہ نہیں ہوا ہے۔ ممکن ہے کہ اس مسئلے میں اس حکم کی علت و حکمت یہ ہو کہ سود کے وہ ضرر و نقصانات کہ جو دوسرے افراد کے درمیان دیکھے اور سنے جاتے ہیں اور بعض روایات میں انکی طرف اشارہ بھی کیا گیا ہے،[4] وہ ان مذکورہ موارد میں موجود نہ ہوں، کیونکہ عام طور پر میاں اور بیوی یا باپ اور بیٹے کی زندگی کے اخراجات آپس میں مشترک ہوتے ہیں اور انکے درمیان سود و نفع لینا یا دینا، یہ ایک قسم کی انکے درمیان ایک دوسرے کی مالی مدد کرنا شمار ہوتا ہے۔
مثلاً باپ پر لازم ہے کہ اپنی استطاعت کے مطابق اپنے بیٹے کے ساتھ مالی تعاون کرتا رہے، اب اگر ایک قرارداد کے مطابق قرار پائے کہ باپ تھوڑا سا سود یا نفع اپنے بیٹے کو دے تو یہ اصل میں وہی مالی تعاون ہے کہ جسکا ابھی ہم نے اوپر ذکر کیا ہے۔
اور کافر غیر ذمی سے بھی سود لینا اس لیے جائز ہے کہ ان جیسے افراد کی جان و مال کی کوئی ذمہ داری حکومت اسلامی کے ذمہ پر نہیں ہوتی، پس ان سے بعض قرار دادوں کے مطابق سود لینا دور از عقل نہیں ہو گا۔
" اگر ایک مسلمان اس کافر سے کہ جو اسلام کی پناہ اور ذمہ داری میں زندگی نہیں گزار رہا، سے سود لے لے تو اس میں کوئی شرعی اشکال نہیں ہے، اور اسی طرح باپ اور بیٹا، میاں اور بیوی ایک دوسرے سے سود لے سکتے ہیں۔" [2]
اس شرعی مسئلے میں فقہاء کے پاس دلیل وہ روایات ہیں کہ جو اس بارے میں اہل بیت (ع) سے نقل ہوئی ہیں،[3] لیکن ان روایات میں اس مسئلے کے حکم کی علت و حکمت کے بارے میں کوئی اشاہرہ نہیں ہوا ہے۔ ممکن ہے کہ اس مسئلے میں اس حکم کی علت و حکمت یہ ہو کہ سود کے وہ ضرر و نقصانات کہ جو دوسرے افراد کے درمیان دیکھے اور سنے جاتے ہیں اور بعض روایات میں انکی طرف اشارہ بھی کیا گیا ہے،[4] وہ ان مذکورہ موارد میں موجود نہ ہوں، کیونکہ عام طور پر میاں اور بیوی یا باپ اور بیٹے کی زندگی کے اخراجات آپس میں مشترک ہوتے ہیں اور انکے درمیان سود و نفع لینا یا دینا، یہ ایک قسم کی انکے درمیان ایک دوسرے کی مالی مدد کرنا شمار ہوتا ہے۔
مثلاً باپ پر لازم ہے کہ اپنی استطاعت کے مطابق اپنے بیٹے کے ساتھ مالی تعاون کرتا رہے، اب اگر ایک قرارداد کے مطابق قرار پائے کہ باپ تھوڑا سا سود یا نفع اپنے بیٹے کو دے تو یہ اصل میں وہی مالی تعاون ہے کہ جسکا ابھی ہم نے اوپر ذکر کیا ہے۔
اور کافر غیر ذمی سے بھی سود لینا اس لیے جائز ہے کہ ان جیسے افراد کی جان و مال کی کوئی ذمہ داری حکومت اسلامی کے ذمہ پر نہیں ہوتی، پس ان سے بعض قرار دادوں کے مطابق سود لینا دور از عقل نہیں ہو گا۔
[1] اس بارے میں مزید جاننے کے لیے آپ اسی سایٹ میں مطلب نمبر 28505 ( معنی و مفہوم سود ) کی طرف رجوع کر سکتے ہیں۔
[2] امام خمینی، توضیح المسائل (حاشیہ)، مؤلف: بنیهاشمی خمینی، سید محمدحسین، ج2، ص 215، م 2080، دفتر انتشارات اسلامی، قم، طبع ہشتم، 1424 ہجری قمری، آیت الله خویی: (بنا بر احتیاط واجب باپ اور بیٹا، میاں اور بیوی بھی ایک دوسرے سے سود نہیں لے سکتے)، آیت الله شبیری زنجانی: ( بنا بر احتیاط واجب بیٹا اپنے باپ سے اور بیوی اپنے شوہر سے سود نہ لیں، لیکن اگر برعکس ہو تو، اس میں کوئی اشکال نہیں ہے)۔
[3] رجوع کریں: ابن بابویه، محمد بن على، من لا یحضره الفقیه، ج3، ص 278، دفتر انتشارات اسلامى وابسته به جامعه مدرسین حوزه علمیه قم - قم، طبع: دوم، 1413 ہجری قمری، کلینى، محمد بن یعقوب بن اسحاق، الکافی، ج 5، ص147، دار الکتب الإسلامیة - تهران، طبع: چهارم، 1407 ہجری قمری
[4] اس بارے میں مزید جاننے کے لیے آپ سایٹ میں مطلب نمبر 1275 ( لین دین میں سود کے حرام ہونے کی دلیل ) کی طرف رجوع کر سکتے ہیں۔