بعض لوگ دوباره گناه میں مبتلا نه هو نے کے لئے ٤٠ یا ٢١ روز تک اس گناه کو ترک کر نا کافی جانتے هیں ، کیا یه صحیح هے ؟ کیا اس سلسله میں کوئی حدیث یا آیت موجود هے؟
همیں اس سلسله میں نه کوئی آیت ملی اور نه کوئی روایت ملی هے ،البته روایتوں میں یه آیا هے که جو اپنے تمام کاموں میں چالیس روز تک اخلاص دکهائے –اور انهیں خدا کی رضا کے لئے انجام دے ، تو خداوند متعال اپنی حکمت کو اس کے دل میں مستحکم اور زبان پر جاری کرتا هے-
اس ضمن میں درج ذیل چند نکات کو مد نظر رکهنا چاهئے-
١-انسان جب تک اس دنیا میں هے، شیطان کی طرف سے صدمه اور نقصان اٹهانے سے محفوظ نهیں هے- پس کبهی اپنے آپ کو گناه سے محفوظ نهیں سمجها جاسکتا هے-
٢- خدا کی رحمت سےکبهی مایوس نهیں هونا چاهئے ، گناه جس قدربهی دهرایا جائے، پهر بهی توبه کا دروازه کهلا رهتا هے اور خدا کی رحمت کے بارے میں همیشه امیدوار رهنا چاهئے-
جواب واضح هونے کے لئے درج ذیل نکات بیان کرنا ضروری هے :
١- هم نے اس سوال کے بارے میں کوئی آیت یاروایت نهیں دیکهی هے، البته عدد چالیس کے آثا رکے بارے میں روایتوں میں بهت سے مطالب ذکر هوئے هیں – هم ان میں سے بعض کی طرف اشاره کرتے هیں ، جن کے بارے میں احتمال دیا جاسکتا هے که مذکوره سوال سے مربوط هوں :
الف : " جو بنده خدا پر ایمان یا ذکر خدا کو چالیس دن تک مخلصانه طور پر جاری رکهے تو خداوند متعال اسے دنیا کے بارے میں بے رغبت اور دنیا کے دردودوا کے بارے میں آگاه کرتا هے اور اپنی حکمت کو اس کے دل میں مستحکم اور زبان پر جاری کرتا هے[1]-"
ب : " جو شخص چالیس دن تک حلال غذا کهائے ، اس کادل نورانی هوتا هے[2]-"
ج :حضرت آدم علیه السلام ، بهشت سے نکال باهر کئےجانے کے بعد اور حضرت داٶد ترک اولی کر نے کی وجه سے چالیس دن رات تک توبه کی حالت میں تهے[3]-
اس کے علاوه عدد چالیس سے متعلق دوسرے مطالب بهی هیں جو انسان کو اور اخلاقی کمال بخشنے اور برے اعمال کے اثرات کو زائل کر نے کی طرف اشاره کرتے هیں-
٢- بیشک، جس طرح ایک کام کا دهرانا انسان کی جان وروح میں اس کام کا اثر رسوخ پیدا هونے کا سبب بن جاتا هے اور علم اخلاق کے علماء کے کهنے کے مطابق، ملکات اور مستحکم صفات کا سبب بن جاتا هے ، اسی طرح کسی کام کو طولانی مدت تک ترک کرنا بهی انسان کی روح و جان میں اس عمل کے نفسانی اثرات کو ختم کر نے کا باعث بن جاتا هے تاکه انسان اس گناه کی لذت کو اس طرح بهول جائے که آسانی کے ساتھـ اس گناه کی طرف پلٹنا ممکن نه هو-
٣- جب تک انسان اس دنیا میں هے شیطان کی طرف سے صدمه اور نقصان سے محفوظ نهیں هے[4]-
قرآن مجید کا اس سلسله میں ارشاد هے : " اور میں اپنے نفس کو بھی بری قرار نهیں دیتا که نفس بهرحال برائیوں کا حکم دینے والاهے مگر یه که میرا پروردگار رحم کرے که وه بڑا بخشنے والا مهر بان هے[5]-"
اسی وجه سے ائمه اطهار علیهم السلام بارگاه رب العزت میں عرض کرتے تھے : "پروردگارا !مجهے ایک لمحه کے لئے بھی اپنے حال پر نه چھوڑنا-"
اس لئے انسان کبهی اپنے آپ کو گناه سے محفوظ نهیں جان سکتا هے-
٤- خداوند متعال کی رحمت سے کبهی نا امید نهیں هونا چاهئے – لهذا،جس قدر بهی گناه دهرایا جائے ، پهر بهی توبه کا دروازه کهلا رهتا هے اور همیشه خدا کی رحمت سے نا امید نهیں هونا چاهئے-
[1] - عن ابی جعفر ع قال ما اخلص العبد الایمان بالله عز وجل اربعین یو ما او قال ما اجمل عبد ذکر الله عز وجل اربعین یوما الا زهده الله عز وجل فی الدنیا و بصره داءها و دواء ها فاثبت الحکمۃ فی قلبه وانطق بهالسانه (کافی ،ج٢،ص١٦)
[2] - کیمیای سعادت ،ج١،ص٣٦٧-
[3] - بحار، ج ٥،ص٤٣-
[4] - قاضی قضاعی، شهاب الاخبار،ح٧٠٩-
[5] - "وما ابری نفسی ان النفس لامارۃ بالسوء الا ما رحم ربی ان ربی غفور رحیم " سوره یوسف، ٥٣-