شیطان کے وسوسے، دنیا سے تعلق، پروردگارکو بھول جانے کے اسباب میں سے ھیں۔ اور اس کے مقابلے میں نماز، قرآن، آیات الھی میں غور و فکر، اور دلیل و عقل کا استعمال خداکی یاد کو دلوں میں زنده کرسکتا ھے ۔
خدا کے ذکر کے بابرکت اثرات ھیں من جملھ:
۱۔ خدا کی اطاعت سے مقید ھونا۔
۲۔ خضوع اور انکساری ۔
۳۔ عبادت سے عشق۔
۴۔ سکون اور اطمینان۔
۵۔ بندے کی جانب خدا کی توجھ۔
۶۔ بندے کی نسبت خداکی محبت۔
قرآن مجید کی آیات سے یھ بات واضح ھوتی ھے کھ کفار، مفسدوں ، مشرکوں ، اور ملحدوںنے مبدا اور معاد یعنی خداوند متعال کو فراموش کردیا ھے۔
قرآن مجید کا ارشا ھے " اور خبردار ان لوگوں کی طرح نھ ھوجاناجنھوں نے خدا کو بھلا دیا تو خدا نے خود ان کے نفس کو ھی بھلادیا اور وه سب واقعی فاسق اور بدکار ھیں " [1]
اس طرح دوسری آیت میں کفار کی زبانی کھتا ھے۔ "اور وه لوگ کھتے ھیں کھ یھ صرف زندگانیٔ دنیا ھے اسی میں مرتے ھیں اور جی لیتے ھیں اور زمانھ ھی ھم کو ھلاک کردیتا ھے اور انھیں اس بات کا کوئی علم نھیں ھے کھ یھ سب ان کے خیالات ھیں اور بس"[2]
دوسری آیت میں ارشاد ھے" لھذا تم لوگ اس بات کا مزه چکّھو کھ تم نے آج کے دن کی ملاقات کو بھلا دیا تھا تو ھم نے بھی تم کو نظر انداز کردیا ھے اب اپنے گزشتھ اعمال کے بدلے دائمی عذاب کا مزه چکّھو"۔ [3]
دوسری آیت میں کفار سے خطاب ھوتا ھے اور ان سے کھا گیا ھے کھ ھم تمھیں آج اسی طرح نظر انداز کردیں گے جس طرح تم نے آج کے دن کی ملاقات کو بھلادیا تھا اور تم سب کا انجام جھنم ھے اور تمھارا کوئی مددگار نھیں ھے"۔[4]
جو نکات ان آیات سے استفاده ھوتے ھیں :
۱۔ کلمھ "نسیان" سے یھ استفاده ھوتا ھے، کھ معرفت خدا انسان کی فطرت سے متعلق ھے اور کفار اور مشرکوں مفسدوں نے اپنی فطرت کو آلوده کرنے کی وجھ سے اسے فراموش کیا ھے۔ خداوند " نسیان" کو مؤمنوں یا اھل کتاب کے بارے میں استعمال نھیں کرتا بلکھ ھر اس سے، جو مبدا اور معاد (آغاز و انتھا) پر عقیده نھیں رکھتا ھے نسیان کی نسبت دیتا ھے اور فرماتا ھے " تم نے آغاز اور انتھاء کو بھلا دیا ھے"
۲۔ خداوند متعال کو فراموش کرنا : "خود فراموشی کا باعث بنتا ھے۔ اس کی دلیل بھی واضح ھے کیونکھ ایک جانب پروردگار کی فراموشی سبب بنتی ھے کھ انسان مادی لذات اور حیوانی شھوات میں ڈوب جائے اور اپنے مقصد حیات کو بھول کر قیامت کا ذخیره کرنے سے غافل رھے۔
دوسری جانب خدا کو فراموش کرنا اس کی صفات کو فراموش کرنے کے ساتھه ھے ، کھ وجود مطلق، بے انتھاء علم اور بے نیازی اسی کے لئے مخصوس ھے اورجو کچھه اس کے سوا ھے وه اسی سے وابسته اور اس کی ذات پاک کا نیاز مند ھے اور یھی امر سبب بنتا ھے کھ انسان اپنے آپ کو مستقل ، بے نیاز شمار کرے اور اس طرح اپنی انسانی ھویت اور حقیقت کو فراموش کرے۔[5]
3. یھ آیات سب اس بات کی دلیلیں ھیں کھ خدا کو بھلا دینا نھ صرف ممکن ھے بلکھ افسوس ھے که سب انسان اس میں مبتلا ھوئے ھیں اور یھاں تک کھ بعض مسلمان خاص شرائط میں خداوند متعال کو بھلا دیتے ھیں۔ البتھ کبھی یھ فراموشی دائمی ھے کھ جو بھت ھی خطرناک او آخرت کے عذاب کا سبب بنتی ھے جیسا کھ خداوند متعال فرماتا ھے " خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر گویا مھر لگادی ھے کھ نھ کچھه سنتے ھیں اور نھ سمجھتے اور ان کی آنکھوں پر بھی پردے پڑگئے ھیں ان کے واسطے آخرت میں عذاب عظیم ھے"۔ [6]
اور بھلا دینا کبھی وقتی ھے اور واپس لوٹنے کی امید، اور ذکر الھی کا زنده ھونا اور نجات ممکن ھے ۔
قرآن مجید اس سلسلے میں فرماتا ھے کھ متقی لوگ جب شیطان کے وسوسے میں مبتلا ھوئے ھیں، وه خداکی یاد ( خدا اور اس کے اجروسزا ) کی یاد کرتے ھیں اور خداکی یاد کے سائے میں راه حق کو دیکھتے ھیں۔ اور دفعتا بیناھوتے ھیں " [7]
خدا کو بھول جانے کے اسباب :
۱۔ شیطان خدا کو فراموش کرنے کے لئے ایک مؤثر عامل ھے اس سلسلے میں قرآن مجید میں آیا ھے ۔ "ان پر شیطان غالب آگیا ھے اور اس نے انھیں ذکر خدا سے غافل کردیا ھے ۔ آگاه ھوجاؤ کھ یھ شیطان کا گروه ھے اور شیطان کا گروه بھر حال خسارے میں رھنے والا ھے"[8]
شیطان کی پوری کوشش یھ ھے کھ اُلفت خدا کا سرمایھ انسان سے لے لے اور جس نے اس سرمایھ کو کھودیا وه اپنے آپ کو فراموش کرتا ھے۔
۲۔ دنیا سے وابستگی، خدا کو بھول جانے میں سبب سے اھم سبب ھے، کیوں کھ دنیا اپنی جاذبیت اور چمک دمک سے لوگوں کے لگاؤ رکھنے کا سبب بنتی ھے۔ اسی لئے حضرت علی نے فرمایا ھے: " جو خدا کے پاس ھے اس تک پھنچنا دنیا سے کٹ نھ جانے کے علاوه ممکن نھیں " [9]
۳۔ گناه اور پروردگار کی نافرمانی اس بادل کے مانندھے جو بندے اور پرودگار کے درمیان لٹکتا ھے جو سبب بنتا ھے کھ انسان اپنے مبدا کو بھول کر اس سے غافل ھوجائے جیسا کھ امام رضا علیھ السلام سے منقول ھے : کھ حضرت نے ایک آدمی کے جواب میں ، جس نے پوچھا تھا کھ خدا کیوں پرده میں ھے ؟ فرمایا: کیوں کھ اشخاص زیاده گناه کرتے ھیں" [10]
اس کے مقابلے میں ھماری یھ ذمھ داری ھے کھ خداکی یاد کو ھمیشھ اپنے دل میں اور سماج کےدوسرے افراد میں زنده رکھیں جیسا کھ خداوند متعال فرماتا ھے : جو لوگ اٹھتے، بیٹھتے، لیٹتے خدا کو یاد کرتے ھیں اور آسمان و زمین کی تخلیق میں غور و فکر کرتے ھیں " [11]
خدا کی یاد کو زنده رکھنا ھر صورت میں ممکن ھے اور ضروری نھیں که کسی خاص حالت میں ھی ھو ، لیکن اس کے باوجود بھی دین میں خدا کی یاد زنده کرنے میں خاص اسباب اور طریقے بیان کئے گئے ھیں من جملھ:
۱۔ نما ز، قرآن میں ارشاد ھے : " اور میری یاد کے لئے نماز قائم کرو" [12]
۲۔ قرآن سے رابطھ رکھنا : جیسا کھ خداوند متعال فرماتا ھے : یھ تمام نشانیاں اور پر از حکمت تذکرے ھیں جس کو ھم آپ سے بیان کررھے ھیں" [13]
۳۔ زمین اور آسمان میں غور وفکر : قرآن فرماتا ھے اور آسمان اور زمین کی تخلیق میں غور و فکر کرتے ھیں کھ خدا یا تو نے یھ سب بیکار پیدا نھیں کیا ھے! تو اس سے بے نیاز ھے ! ھمیں عذاب جھنم سے محفوظ فرما"۔ [14]
۴۔ خدا کی صفات کی جانب توجھ : "اور اللھ کے لئے مشرق بھی ھے اورمغرب بھی لھذاتم جس جگھ بھی قبلھ کا رخ کرلو گے سمجھو وھیں خدا موجود ھے وه صاحب وسعت بھی ھے اور صاحب علم بھی ھے " [15]
اور چونکھ خدا ھر جگھ موجود ھے پس جس طرف تم اپنا منھه کرو گے وھان حاضر ھے نتیجھ یھ کھ اپنا خیال رکھو تا کھ اس کی حرمت کا پاس کرو۔
خدا کی یاد کے انسان کی زندگی میں مختلف اثرات و فوائد ھیں من جملھ :
۱۔ پروردگار متعال کی اطاعت اور اس کے دستور کی پیروی۔
۲۔ حق و حقیقت اور خدا کے ضعیف بندوں کو قبول کرنے کے لئے خضوع اور انکساری۔
۳۔ عبادت سے محبت ،
۴۔ اطمینان اور سکون ۔
۵۔ خدا کی توجھ اور محبت کو اپنی جانب کھینچنا۔
۶۔ امید ھے کھ سب ان برکات سے مستفیذ ھوں گے۔
[1] سوره حشر / ۱۹ " و لا تکونوا کالذین نسوا اللھ فانساھم انفسھم اولئک ھم الفاسقون " اور سوره توبھ / ۶۷ ، سوره یسن / ۷۸۔
[2] جاثیھ ، ۳۴ " و قالوا ما ھی الا حیاتنا الدنیا نموت و نحیا و ما یھلکنا الا الدھر و ما لھم بذلک من علم ان ھم الا یظنون "
[3] سوره سجده / ۱۴۔
[4] سوره جاثیھ / ۳۴۔
[5] تفسیر نمونھ ، ج ۲۳، ص ۵۴۱۔
[6] سوره بقره / ۷ ختم اللھ علی قلوبھم و علی سمعھم و علی ابصارھم غشاوۃ ولھم عذاب عظیم" ۔
[7] سوره اعراف / ۲۰۱ ، آل عمران / ۱۲۵۔ " الذین اتقوا اذا مسھم طایف من الشیطان تذکروا فاذا ھم مبصرون "
[8] مجادلھ ، ۱۹ " استحوذ علیھم الشیطان فانساھم ذکر اللھ اولئک حزب الشیطان ، الا ان حزب الشیطان ھم الخاسرون "
[9] ترجمھ نھج البلاغھ، خطبھ ۱۹۳، ص ۲۸۶، " و لا ینال ما عنده الا یترکھا"
[10] شیخ صدوق ، التوحید، یک جلدی، انتشارات جامعھ مدرسین ، قم ، ۱۳۹۸ ۔ ھ ق۔ ( ۱۳۵۷ شمسی ) ص ۲۵۲۔ عن الرضا ، قال الرجل فلم احتججب فقال ابو الحسن علیھ السلام ان الاحتجاب عن الخلق لکثرۃ ذنوبھم۔
[11] آل عمران ، / ۱۹۱۔ " الذین یذکرون اللھ قیاما و قعودا و علی جنوبھم "
[12] سوره طھ / ۱۴۔ " اقم الصلاۃ لذکری"
[13] سوره آل عمران / ۵۸۔ " ذلک یتلوه علیک من الایات و الذکر الحکیم"
[14] سوره آل عمران ۱۹۱۔ " و یتفکرون فی خلق السماوات و الارض ربا ما خلقت ھذا باطلا سبحانک فقنا، عذاب النار "
[15] سوره بقره ۱۱۵۔ " و للھ المشرق و المغرب فاینما تولوا فتم وجھ اللھ ان اللھ واسع علیم "