اسلامی حکومت میں لوگ حکومت کے اھم رکن کی حیثیت رکھتے ھیں اور مندرجھ ذیل مواقع پر اپنا رول ادا کرتے ھیں:
۱۔ حکومت اسلامی کے نظام کو منتخب کرنے میں۔
۲۔ بلاواسطھ اور بالواسطھ طورپر نظام کے کلیدی عھده داروں کو منتخب کرنے میں۔
۳۔ اسلامی حاکم کو صلاح مشوره دینے میں ۔
۴۔ پارلیمنٹ کے اپنے منتخبھ نمائندوں کے ذریعھ قانون سازی میں شرکت ۔
۵۔ حکام کے اعمال ، رفتار و گفتار پر نظر رکھنا۔
اسلام کی نظر میں اور قرآن مجید کی آیات کے مطابق " لوگ" حکومت کے بنیادی ارکان میں شمار ھوتے ھیں۔ قرآن مجید میں ارشاد ھوا ھے : " لقد ارسلنا رسلنا بالبینات و انزلنا معھم الکتاب و المیزان لیقوم الناس بالقسط ۔۔۔" ،[1] یعنی بیشک ھم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل کے ساتھه بھیجا ھے اور انکے ساتھه (آسمانی ) کتاب اور میزان ( حق کو باطل سے پھچاننا اور عادلانھ قوانین ) کو نازل کیا ھے تا کھ لوگ انصاف کے ساتھه قیام کریں ۔۔ " اس بنا پر ، چونکھ اسلام معاشره میں عدل و انصاف کے نفاذ کے لئے مختلف پروگرام رکھتا ھے ، ا س لئے ایک ایسے عدل و انصاف کے نفاذ کو قابل قدر جانتا ھے ، جو لوگوں کے ھاتھه میں ھو اورلوگ اسے قائم کریں نھ کھ حکومت اور حکام۔
حکومت اور لوگوں کے درماین رابطے کو مندجھ ذیل نکتوں میں سمیٹا جا سکتا ھے۔
۱۔ لوگوں کے ذریعھ اسلامی حکومت کے نظام کا انتخاب ۔
اسلامی حکومت میں ، لوگ آگاھی اور دلچسپی سے اسلامی نظام کو منتخب کرکے قوانین الھی کے نفاذ کا مطالبھ کرتے ھیں بنیادی طورپر انتخاب اور لوگوں کی حمایت کے بغیر اسلامی حکومت کا نفاذ ممکن نھیں ھے ، یھی وجھ ھے کھ حضرت امام علی علیھ السلام نے ، خدا کی جانب سے لوگوں کے لئے ولی اور رھبر معین ھونے کے باوجود ، لوگوں کی طرف سے آپ کی بیعت کرنے تک ، اس ذمھ داری کو انجام دینے کے لئے عملا کوئی اقدام نھیں کیا ، کیوں کھ آپ کے لئے ولایت اور رھبری کو نافذ کرنے کا موقع فراھم نھیں ھوا تھا۔
لیکن جب یھ موقع فراھم ھوا تو حضرت علی علیھ السلام نے ذمھ داری سنبھالنے میں پھلو تهی نھیں کی ، آپ اس سلسلھ میں فرماتے ھیں:" لو لا حضور الحاضر و قیام الحجۃ بوجود الناصر و ما اخذ اللھ علی العلماء ان لا یقاروا علی کظۃ ظالم و لا سغب مظلوم لالقیت حبلھا علی غاربھا و لسقیت اخرھا بکاس اولھا و لالفیتم دنیاکم حذه ازھد عندی من عفطۃ عنز۔۔۔ " [2] یعنی" اگر بیعت کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد حاضر نھ ھوتی اور دوستوں نے مجھه پر حجت تمام نھ کی ھوتی اور اگر خداوند متعال نے علماء سے عھد وپیمان نھ لیا ھوتا کھ ظالموں کے شکم سیری اور مظلوموں کی بھوک کے مقابل میں خاموش نھ رھیں ، تو میں خلافت کے اونٹ کی مھار اس کے کوھان پر رکھ کر ھنکا دیتا اور نھیں سنبھالتا اور تم اس وقت دیکھتے کھ تمھاری دنیا میرے نزدیک بکری کی ناک سے بھتی ھوئی رینٹھه سے بھی حقیر تر ھے۔ "[3]
امیر المؤمنین حضرت علی علیھ السلام کے ان جملات سے معلوم ھوتا ھے کھ اگرچھ عدل و انصاف کو نافذ کرنا اور ظالموں سے مظلوموں کا حق چھیں لینا ایک فریضھ ھے جسے خداوند متعال نے امام کے ذمھ رکھا ھے ، لیکن چونکھ اس فریضھ کو انجام دینا لوگوں کی بیعت اور حمایت کے بغیر ممکن نھیں ھے ، اس لئے جب تک لوگ اسلامی حکومت کو تشکیل دینے کے لئے میدان عمل میں نھ اترآئیں ، امام معصوم کی اس سلسلھ میں کوئی ذمھ داری نھیں ھے کھ لوگوں کو زور زبردستی سے اپنی تابعداری اور اطاعت کرنے پر مجبور کرے ، بلکھ امام تو لوگوں کو آگاه کرکے انھیں شرکت کرنے کا موقع فراھم کرتا ھے۔
حضرت امام خمینی (رح) لوگوں کی بیعت کے رول کے بارے میں فرماتے ھیں:
"مسلمانوں کے امور کی سرپرستی اور حکومت کی تشکیل کا دارومدار مسلمانوں کی رائے پر ھے ، اس کا ملک کے آئین میں بھی ذکر کیا گیا ھے اور صدر اسلام میں اسے " ولی مسلمین" کی بیعت کھا جاتا تھا۔[4]
اسلامی نظام میں حاکم ، خداوند متعال کےا حکام و اوامر کو نافذ کرنے والا ھوتا ھے اور بیعت لینے کے معنی و مفھوم صرف یھی ھیں۔
۲۔ لوگوں کے ذریعھ نظام کے عھده داروں کا انتخاب
اسلامی حکومت میں نظام کے عھده دارون ( رھبر ، صدر جمھوریھ ، پارلیمنٹ کے ممبران وغیره ) کو لوگ منتخب کرتے ھیں ان میں سے بعض بلاواسطھ اور بعض بالواسطھ منتخب ھوتے ھیں۔
صدر جمھوریھ ، مجلس خبرگان ، ( ماھرین کی پارلیمنٹ) کے نمائندوں، مجلس شورائے اسلامی ( پالیمنٹ) کے نمایندوں اور شھروں اور دیھاتوں کی بلدیھ کے نمایندوں کو لوگ براه راست ووٹنگ (چناؤ) کے ذریعھ منتخب کرتے ھیں۔ رھبر کے انتخاب میں بالواسطھ طور پر ( ایک واسطھ سے ) مجلس خبرگان کے نمائندے اپنا انتخابی رول ادا کرتے ھیں۔
لوگوں کے توسط سے نظام کے عھده داروں کا انتخاب اسلامی حکومت کی ضروریات میں سے ایک ھے ۔ اسلامی انقلاب کے عظیم الشان بانی حضرت امام خمینی (رح) نے اس سلسلھ میں فرمایا ھے :" لوگوں کو ھی اپنے کارکن اور قابل اعتبار افراد کو منتخب کرنا چاھئے تاکھ نظام کی ذمھ داری کو ان کے ھاتھه سونپ دیں [5]
انھوں نے ایک دوسری جگھ پر فرمایا ھے : " ھم کھتے ھیں کھ جو ملک کا نظم و انتظام چلانا چاھتا ھے ، جس کے ھاتھه ھم اپنی تقدیر سونپنا چاھتے ھیں ، وه ایسا شخش ھونا چاھئے جسے لوگ منتخب کریں اور جو لوگوں کی رائے سے آگے آئے " ۔[6]
۳۔ اسلامی حاکم کا لوگوں سے صلاح مشوره
حکمراں کے لئے ضروی ھے کھ صلاح مشوره کے ذریعھ لوگوں کے نظریات سے آگاه ھوجائے اور معاشره کا نظم و انتظام چلانے کی بھتر صورت میں اس سے استفاده کرے البتھ بھر حال فیصلھ کرنا اس کے اختیار میں ھے کھ وه اپنی رائے پر عمل کرے یا دوسروں کی رائے پر، بلکھ جھاں پر کسی مسئلھ کا حکم خداوند متعال اور معصومین علیھم السلام کی طرف سے بیان کیا گیا ھو، حاکم پر فرض ھے کھ اسی کے مطابق عمل کرے ، خواه وه لوگوں کی رائے کے خلاف ھی کیوں نھ ھو، اور لوگوں کو اس کے خلاف اعتراض کرنے کا کوئی حق نھیں ھے ۔ کیونکھ انھوں نے خود قبول کیا ھے کھ ان کی حکومت الھی احکا کی بنیادوں پر اور اسلامی قوانین کے مطابق ھو۔ حضرت امام علی علیھ السلام اس سلسلھ میں فرماتے ھیں:
" یھ جو آپ لوگوں نے کھا ھے کھ میں آپ کے ساتھه صلاح مشوره کروں، خدا کی قسم مجھے حکومت و ولایت کی کوئی خواھش نھیں تھی ، لیکن لوگوں نے مجھے اس کی دعوت دی ھے اور یھ بوجھه میرے کاندھوں پر ڈالدیا ھے ، مجھے اس بات کا ڈر تھا کھ اگر آپ لوگوں کی درخواست کو مسترد کردوں تو امت اختلاف سے دوچار ھوجائے گی۔ پس جب ذمھ داری مجھه پر ڈٓال دی گئی تو میں نے خدا کی کتاب اور رسول اللھ صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم کی سنت اور سیرت پر نظر ڈآلی، پھر قرآن مجید اور سنت رسول اللھ صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم کی راھنمائی کی بنیاد پر عمل کرکے ان کی پیروی کی اور مجھے آپ کی اور دوسروں کی رائے کی ضرورت ھی نھیں پڑی ، البتھ جھاں پر میں کسی مسئلھ کے سلسلھ میں خد اکی کتاب اور سنت رسول اللھ صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم میں کوئی حکم نھیں پاتا ھوں صلاح مشوره کی ضرورت کے پیش نظر آپ لوگوں سے صلاح مشوره کرتا ھوں"۔ [7]
امیر المؤمنیں علی علیھ السلام اس باعظمت علمی مقام کے باوجود فرماتے تھے : " سلونی قبل انتفقدونی " یعنی ، جو کچھه پوچھنا ھو پوچھه لو ، اس سے پھلے کھ تمھارے درمیان سے اٹھ جاؤں " [8] اور بعض مسائل میںلوگوں سے صلاح مشوره بھی کرتے تھے تو قدرتی بات ھے کھ غیر معصوم قائدین نئے پیدا ھونے والے مسائل میں آگاه اور صاحب نظر افراد سے صلاح شوره کرنے کےلئے زیاده ھی محتاج ھیں۔
حکومت کے عھده داروں کے لئے صلاح مشوره کی ضرورت کا مسئلھ اور مشوره دھندگان کی اکثریت کے نظریھ کی پیروی کرنا ، اس قت ( اسلامی جمھوریھ ایران میں ) ملک کے آئین میں بیان کیا گیا ھے اور انتظامیھ و عدلیھ کے اھم اور بڑے فیصلے پارلیمنٹ کے نمائندوں کی رائے کے مطابق انجام پاتے ھیں اور اس طرح عملا اکثریت کی رائے کو قبول کیا گیا ھے۔
اس کے علاوه رھبری کی سطح پر بھی " مجمع تشخیص مصلحت نظام" نامی کونسل اور مختلف مشوره دھندگان ، قیادت کی سطح پر عظیم اور اھم فیصلے کرنے میں رھبر انقلاب اسلامی کےساتھه صلاح و مشوره کرتے ھیں۔
اس بنا پر ، اسلامی حکومت میں لوگ اپنے نمایندوں کے ذریعھ ، قانون سازی ( ملک کے لئے قوانین بنانے میں ) اور ملک کے مسائل کے بارے میں فیصلے کرنے میں شرکت کرتے ھیں۔
۴۔ قانون سازی میں مشارکت
اسلامی حکومت میں لوگ ، پارلینمٹ ( جو ملک کی قانون سازیھ ھے ) کے لئے اپنے نمایندے چن کر ملک کے لئے قوانین بنانے میں شرکت کرتے ھیں، اس کے علاوه ملک کا آئین ریفرنڈم کے ذریعھ لوگوں کی رائے سے پاس ھوکر عملی صورت پاتا ھے۔
حکومت کے عھده داروں پر لوگوں کی نگرانی
لوگ اپنی چشم بینا اور سننے والے کانوں کے ذریعھ حکام کے تمام رفتار ، کردار و اعمال کو سامنے رکھتے ھیں اور قدیم زمانھ سے حکام کی نگرانی کے وسیلھ سے حاکمیت میں اپنا رول ادا کرتے ھیں اور حکومت کی کارکردگی پر تعمیری تنقید کے ذریعھ انحرافات کی گرفت کرتے ھیں۔
اسلامی حکومت میں لوگ بھی ، قوانین الھی کو صحیح طورپر نافذ کرنے اور اسلامی آداب کی رعایت کرنے ، (جیسے : عدل و انصاف کی رعایت ) امتیازی اور غیر عادلانھ سلوک کو دور کرنے ، نظم و انتظام میں لوگوں سے ھمدردی کرنے ، تکبر اور خود نمائی سے پرھیز کرنے ، خدا اور لوگوں کے سامنے جواب ده ھونے ، دوسروں کی اصلاح کرنے سے پھلے اپنی اصلاح کرنے ، سچ بولنے ، اور صحیح کردار ادا کرنے اور قرآن مجید اور سنت رسول اللھ صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم کے دستور و آئین پر حکام کے عمل کرنے کی نگرانی کرتے ھیں۔
یھ نگرانیاں مختلف صوتوں میں انجام پاتی ھیں جو حسب ذیل ھیں:
الف) امر بالمعروف و نھی عن المنکر
دینی تعلیمات نے لوگوں، خاص کر حکام کو اس عظیم فریضھ کی طرف ترغیب دی ھے۔
امام علی علیھ السلام فرماتے ھیں : " تمام نیک اعمال اور راه خدا میں جھاد ، امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کے موازنھ میں ایک بیکراں سمندر کے مقابل ایک قطره کے مانند ھے اور بیشک امر بالمعروف و نھی عن المنکر نھ موت کو نزدیک لاتے ھیں اور نھ روزی میں کمی واقع کرتے ھیں اور ان سب سے برتر حاکم ظالم کے سامنے حق بات کھنا ھے" [9]
ظالم حاکم کے سامنے عدل و انصاف کی بات کھنے کی فضیلت کا سبب یھ ھے کھ لوگ اصولا اپنے قائدین کے تابعدار ھوتے ھیں اور ان کا عمل وسیع ھونے کی وجھ سے معاشره میں گمراھی پھیلنے کا سبب بن جاتا ھے ، اس لئے ظالم حکام کو ھدایت دینےاور انھیں نصیحت کرنے کی کافی قدر و منزلت ھے۔
حضرت امام باقر علیھ السلام فرماتے ھیں؛ " جو شخص ظالم بادشاه کے پاس جاکر اسے تقوائے الھی کا امر کرکے نصیحت کرے اور اسے بے تقوا رھنے کے نتائج سے ڈرائے ، تو اسے جن و انسان کے اجر اور ان کے اعمال کے برابر بدلھ ملے گا [10]۔
اسلام کے نظریھ کے مطابق حکام کو امر بالمعروف اور نھی عں المنکر کرنا اس قدر اھمیت رکھتا ھے کھ اس کو ترک کرنا عذاب الھی کا سبب بن جاتا ے ، امام علی علیھ السلام فرماتے ھیں؛ " خداوند متعال کبھی عام لوگوں کو ، اشراف کے مخفی گناھوں کے سبب عذاب میں مبتلا نھیں کرتا ھے ، لیکن اگر اشراف علانیھ گناه کے مرتکب ھوجائیں اور عام لوگ اعتراض نھ کرین ، تو دونوں گروه ( خاص و عام) پروردگار عالم کی طرف سے سزا کے مستحق ھیں۔ [11]
قائدین کی نصیحت
امام علی علیھ السلام ( امام کی حیثیت سے ) اپنے اور ( امت کی حیثیت سے ) لوگوں کے متقابل حقوق بیان کرتے ھوئے فرماتے ھیں: "اے لوگو ! میرا تم پر اور تمھارا مجھه پر ایک حق واجب ھے ۔۔۔ البتھ میرا حق تم لوگوں پر یھ ھے کھ میرے ساتھه کی گئی بیعت پر وفادار رھو اور کھل کر اور مخفی طو پر میری نصیحت ( خیر خواھی ) کرنا ۔۔۔ "[12]
یھان پر نصیحت کے معنی اماموں اور پیشواؤں کے حق میںخیر خواھی ھے یعنی لوگوں کو خیر خواھی کے طورپر اپنے معاشره کے امور اور اپنے حکام کے طریقھ کار کی نگرانی کرنی چاھئے اور اس سلسلھ میں حق کی راه میں ھر قسم کے تعاون ، حمایت ، مدد اور ان کی بھر پور اطاعت وپیروی کرنے میں کوتاھی نھیں کرنی چاھئے ۔
اسلامی جمھوریھ ایران کے آئین کے مطابق حکام پر لوگوں کی نگرانی۔
الف ) بلا واسطھ نگرانی
آئین کی دفعھ نمبر ۸ کی پھلی فصل میں آیا ھے کھ : " اسلامی جمھوریھ ایران میں ، نیکی اور امر بالمعروف و نھی عن المنکر کی دعوت کرنا ایک عمومی اور متقابل فریضھ ھے ۔ لوگوں کو ایک دوسرے کی نسبت ، حکومت کو لوگوں کی نسبت اور ولوگوں کو حکومت کی نسبت۔۔۔۔۔ "[13]
ب) بالواسطھ نگرانی
معاشروں کے پھیلاؤ اور حکومت کے عھده داروں کی گوناگوں سرگرمیوں کے پیش نظر تمام لوگوں کی طرف سے حکومت کے تمام عھده داروں اور ذمھ داروں کی نگرانی کا امکان کم ھوگیا ھے اور اس طرح لوگوں کی طرف سے بالواسطھ نگرانی کے مواقع فراھم ھوگئے ھیں۔
لوگ بعض افراد کو اپنے نمایندوں کے عنوان سے حکومت کی ذمھ داری نبھانے کےلئے منتخب کرتے ھیں اور اپنے منتخبھ نمایندوں کو ذمھ داری سونپنے کے علاوه ، ان پر اپنی نگرانی کی ذمھ داری بھی ڈالتے ھیں جبکھ اس اختیاری نظارت ( نگرانی ) کو اپنے لئے بھی سلب نھیں کرتے ھیں۔
اسلام جمھوریھ ایران کے آئین کی متعدد دفعات میں حکومت کے مختلف عھدوں کے لئے نمائندے منتخب کرنے کے بارے میں اشاره ھوا ھے ، من جملھ :
۱۔ مجلس شورائے اسلامی ( پارلیمنٹ) کے نمایندوں کا انتخاب ، پارلیمنٹ کے منتخبھ ممبر ، قانون سازی اور عام قوانین کی تشریح و تفسیر کی اھم ذمھ داری کے علاوه مختلف طریقوں سے اپنے نظارتی ذمھ داری بھی نبھاتے ھیں ، جن میں سے اھم یھ ھیں: ملک کے تمام امور کی تحقیق اور جانچ پڑتال کرنا ، ھدایات دینا ، سوال کرنا ، وزیر ، صدر جمھوریھ اور کابینھ کے وزراء سے وضاحت طلبی اور ملک کے مختلف اداروں کے ذریعھ لوگوں کی شکایتوں پر غور کرنا ۔ [14]
۲۔ صدر جمھوریھ کا انتخاب ، جس کی ذمھ داری انتظامیھ کی صدارت ھے ، آئین کا نفاذ۔ ملک کے انتظامی امور اور تمام وزیروں کی کارکردگی کی نگرانی کرناھے[15]
۳۔ مجلس خبرگان رھبری ( رھبر کا انتخاب کرنے والی ماھرین کی پارلیمٹ) کے نمایندوں کا انتخاب : اس پارلیمنٹ کے نمایندوں کا کام ایک جمامع الشرائط شخص کو رھبر کے عنوان سے منتخب کرنا اور اس کی کارکردگی پر نظر رکھنا اور رھبر کی شرائط باقی رھنے کی تحقیق کرنا ھوتا ھے۔ [16]
۴۔ گاؤں ، قصبوں ، شھروں اور صوبوں کی سطح پر بلدیھ کے نمایندوں کا انتخاب : بلدیھ کے یھ نمایندے آئین میں ذکر کی گئی ذمھ داری کو نبھاتے ھیں ، اس کے علاوه وه اپنے حلقھ انتخاب میں مختلف پروگراموں کے دوران قوانین کے نفاذ کی نگرانی کرتے ھیں۔[17]
ج ۔ لوگوں کی طرف سے حکومت کے کارگزاروں اور عھده داروں پر دوسرے نظارتی ذرائع:
۱۔ سیاسی و ثقافتی پارٹیاں اور گروه۔ [18]
۲۔ اخبار اور ذرائع ابلاغ۔ [19]
۳۔ اجتماعات اور مظاھرے۔ [20]
۶۔ حکومت کی حمایت اور تعاون میں لوگوں کا رول۔
اسلامی حکومت کو جس طرح اس کی تشکیل میں لوگوں کی طرف سے بیعت کی ضرورت ھوتی ھے اسی طرح اسے قائم رکھنے میں بھی لوگوں کی حمایت اور تعاون کی ضرورت ھے اور لوگوں کی حمایت اور اس حکومت کو تمام اندرونی اور بیرونی دشمنوں کے خطرات سے بچانے کا سبب بن سکتے ھیں۔
امام علی علیھ السلام اس رول کی طرف اشاره کرتے ھوئے مالک اشتر کے نام اپنے ایک خط میں حکم دیتے ھیں کھ انھیں ھر حال اور ھر چیز میں لوگوں کے محنت کش طبقھ پر بھروسا کرنا چاھئے اور دولتمند ، خود غرضوں ، ناجائزتوقع رکھنے والون پر بھروسا کرنے سے پرھیز کرنا چاھئے اور ھمیشھ پھلے گروه کے لوگوں کی خوشحالی کا خیال رکھنا چاھئے نھ کھ دوسرے گروه کا۔[21]
حضرت امام خمینی ( رح) بھی اس سلسلھ میں فرماتے ھیں:" ملت و قوم کو حکومتوں کا حامی ھونا چاھئے جس حکومت کا کوئی حامی نھ ھو وه زوال سے دوچار ھوتی ھے" [22] وه ایک دوسری جگھ پر فرماتے ھیں: " سر انجام ، ھمیں لوگوں کی ضرورت ھے ، یعنی اسلامی جمھوریھ کو آخر تک لوگوں کی ضرورت ھے ، یھ لوگ ھی ھیں جنھوں نے اسلامی جمھوریھ کو یھاں تک پھنچادیا ھے اور ان ھی لوگوں کو اس جمھوریھ کو آخری منزل تک پھنچانا ھے [23]
۷۔ اسلامی حکومت لوگوں کی خادم ھے:
اسلامی نظریھ کے مطابق حکومت وحکمران احکام الھی کو نافذ کرنے کا ایک وسیلھ ھے اس کے علاوه نظم و انتظام اور داخلی اور خارجی امن و امان برقرار کرنے ۔ لوگوں کے فلاحی کام انجام دینے ، ظلم و ستم کو ختم کرنے اور بے انصافی وغیره کو دور کرنے کا وسیلھ ھے۔
اسلام اور معصومیں علیھم السلام کے نظریھ کے مطابق اسلامی حکومت صرف اس صورت میں اسلامی حاکم کے لئے قدر و قیمت رکھتی ھے جب مظلوموں کے کھوئے ھوئے حقوق کو دوباره حاصل کرنے ، محروموں اور حاجتمندوں کی خدمت کرنے اور بالفاظ دیگر خدا کے کمزور بندوں کی مادی و معنوی ترقی و سربلندی کے لئے وسیلھ ھو۔
حضرت امام علی علیھ السلام مالک اشتر کے نام اپنے ایک خط میں فرماتے ھیں: " لوگوں کے ساتھه محبت اور رحمدلی سے پیش آنا سب کے ساتھه دوستی اور مھربانی کا برتاؤ کرنا ، ایسا نھ ھوکھ درنده حیوان کے مانند بن جاؤ اور لوگوں کو لقمھ بنانا غنیمت سمجھو۔ لوگ دو قسم کے ھوتے ھیں: ان میں سے ایک تمھارے دینی بھائی ھیں اور دوسرے خلقت کے لحاظ سے تمھارے مانند ھیں"۔ [24]
حضرت امام خمینی ( رح) بھی اپنے مولا امیر المؤمنین علی علیھ السلام کی پیروی کرتے ھوئے اسلامی حکومت کی یوں توصیف کرتے ھیں: " اسلامی حکومت میں ِ حکمراں کو لوگوں کا خادم ھونا چاھئے ، اگر وزیر اعظم بھی کبھی ظلم کرے تو لوگ اس کے خلاف عدالت میں شکایت کرتے ھیں اور عدالت میں اگر اس کا جرم ثابت ھوجائے تو اسے اپنے اعمال کی سزا دی جاتی ھے" ۔[25]
یھ ان حقوق کا ایک حصھ ھے جن کا حکومت کے مقابل لوگوں کے لئے اور لوگوں کے تئیں حکومت کے لئے اسلام قائل ھے۔
اس سلسلھ میں مزید معلومات حاصل کرنے کےلئے مندرجھ ذیل کتابوں کا مطالعھ کیا جاسکتا ھے:
۱۔ حقوق اساسی و نھادھای سیاسی ، تالیف : ابو الفضل ، قاضی ، شریعت پناھی۔
۲۔ " حقوق انسان" تالیف، علیخانی۔
۳۔ "نظارت و نھادھای نظارتی" تالیف: محسن ، ملک افضل اردکانی ۔
۴۔ " حقوق اساسی جمھوری اسلامی ایران" تالیف، سید محمد ھاشمی ،
۵۔ اسلامی جمھوریھ ایران کا آئین"
۶۔ جایگاه مردم در نظام اسلامی، ، مؤسسھ تنظیم و آثار امام خمینی (رح)
۷۔ مجلھ حکومت اسلامی ، سال دوم ، شماره ۴ ص ۱۳۴ کے بعد ، شائع کرده مجلس خبرگان، سیکریٹریٹ۔
[1] سوره حدید / ۲۵۔
[2] نھج البلاغھ۔ خ ۳، ترجمھ ، محمد دشتی۔
[3] ایضا
[4] امام خمینی (رح) کی نظر مین " اسلامی نظام مین لوگوں کا کردار" ص ۹، موسسھ تنظیم و نشر آثار امام ( رح)۔
[5] ایضا ، ص ۵۔
[6] امام خمینی (رح) کی نظر مین " اسلامی نظام مین لوگوں کا کردار" ص ۱۱، موسسھ تنظیم و نشر آثار امام ( رح)۔
[7] شیخ طوسی، ، امالی ، ص ۷۳۱، (نرم افزار نور ۲)
[8] نھج البلاغھ ، خ ۱۸۹،
[9] نھج البلاغھ ، حکمت ۳۷۴۔
[10] وسائل الشیعھ ، ج ۱۲، باب ۳، ابواب امر بھ معروف و نھی از منکر ، ح ۱۱۔
[11] ایضا
[12] نھج البلاغھ، خ ۳۴۔
[13] فصل اول ، اصل ھشتم۔
[14] دفعھ نمبر، ۶۲، ۷۶، ۸۸، ۷۹۔ ۹۰، اسلامی جمھوریھ ایران کا آئین اور دفعھ ۱۹۳، پارلیمنٹ کا داخلی لائحھ عمل۔
[15] آئین کی دفعھ نمبر ۱۳۴۔
[16] آئین کی دفعھ نمبر ۱۰۷
[17] آئین کی دفعھ نمبر ۱۰۰۔
[18]آئین کی دفعھ نمبر ۱۲۶۔
[19] آئین کی دفعھ نمبر ۱۲۴۔
[20] آئین کی دفعھ نمبر ۱۲۷۔
[21] نھج اللبلاغھ، خط ۵۳۔
[22] امام خمینی کی نظر میں " اسلامی نظام مین لوگوں کا کردار" ص ۱۶۲۔
[23] ایضا ص ۱۶۶۔
[24] نھج البلاغھ، خط نمبر، ۵۲۔
[25] امام خمینی کی نظر میں " اسلامی نظام مین لوگوں کا کردار" ص ۱۶۲۔