پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم کی بعثت کے ابتدائی زمانه میں عربی رسم الخط بے نقطه هونے کے علاوه اس کے حروف اور کلمات نشانه اور علائم سے بھی خالی تهے اور قدرتی بات هے که قرآن مجید بھی اس زمانه میں معمول کے مطابق بدون اعراب تها- لیکن چونکه صدر اسلام کے ابتدائی ایام میں مسلمان ، حافظ قرآن اور عرب زبان تھے ، اور قرآن مجید ان کی مادری زبان میں تھا، اس لئے اسے صحیح ڈهنگ پڑهتے تهے اور اس لحاظ سے کوئی مشکل نهیں تھی – بعد والے مسلمان قرآن مجید کے بارے میں خاص اور کافی احترام اور دلچسپی رکهتے تهے ، اس لئے وه ان افراد سے قرآن مجید کو سیکهتے تهے جو پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم کے زمانه نزدیک سے درک کر چکےتھے-
لیکن پهلی صدی هجری کے آخر پر غیر عرب اور اجنبی افراد مسلمان هوئے اور اسلامی معاشره میں ان کی تعداد میں اضافه هو نے لگا، توقرآن مجید کے خط میں علامتوں اور نشانیوں کی ضرورت کا شدت کے ساتھـ احساس کیاگیا تاکه قرآن مجید کو پڑهتے وقت غلطیاں سر زد هونے نه پائیں – اس لئے امام علی علیه السلام کے شاگرد " ابی الاسود دئلی " کے توسط سے قرآن مجید میں اعراب اور نقطه گزاری کی گئی-
نتیجه کے طورپر چونکه عرب لوگ ، فطرتاً یا عربی زبان ان کی مادری زبان هونے کے ناطے صرف ونحو کے قواعد سے آشنا تهے اور ان کے لئے علائم واعراب کی ضرورت نهیں تهی، لیکن غیرعربوں کے مسلمان هو نے اور ان کے لئے علائم واعراب کی ضرورت کے پیش نظر ، اس امر کا سبب بنا که قرآن مجید میں اعراب گزاری کی جائے تاکه وه متوقع مشکلات سے دو چار نه هو جائیں –اس بناپر قرآن مجید کے الفاظ میں اس لحاظ سے کسی قسم کی تحریف کا امکان نهیں هے-
پهلی صدی حجری کے پهلے نصف تک، قرآن مجید کی قرائت کی تنها راه سننے تک محدود تهی- بهت سے قاری اور حافظ قرآن، قرائت کو سینه به سینه اپنے سے پهلے والے قاریوں سے سیکهتے تهے اور ان قاریوں کی سند صدر اسلام کے مشهور قاریوں ، پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم اور حضرت علی علیه السلام تک پهنچتی تھی –اس طولانی مدت کے دوران بهت سے قاری تربیت پاگئے جو بعد والی نسلوں کے لئے قرآن مجید کی صحیح قرائت کے محافظ تھے-
دوسری صدی هجری کے دوسرے حصه کے اوائل میں، ایسے مسلمان اسلامی معاشره میں شامل هوئے، جو عربی زبان سے آگاه نهیں تهے - اس زمانه میں قرآن مجید کے لئے اعراب و علائم کی ضرورت کا شدت کے ساتھـ احساس کیا گیا – اسی زمانه میں حضرت علی علیه السلام کے ایک شاگرد " ابو الاسود دئلی" نے قرآن مجید میں اعراب گزاری کی ذمه داری قبول کی اور اس کو پوری احتیاط اور ضروری دقت کے ساتھـ انجام دیا- " ابو الاسود" قرآن مجید کی قرائت پر پورا تسلط رکهنے کے علاوه ( جو بر جسته قاریوں میں سے تهے ) عربی زبان اور اس کے قواعد پر بهی کافی مهارت رکهتے تهے اور یه وهی شخصیت تهیں ، جس نے حضرت علی علیه السلام کی هدایات پر علم ونحو کے قواعد و ضوابط تالیف کئے هیں[1] – اس کے علاوه اس کی اعراب گزاری قرآن مجید کے قاریوں اور حافظان قرآن سے پوشیده نهیں تهی اور اس طرح هر قسم کی غلطی کے امکان کا دروازه بند کردیا- اگر چه ابو الاسودکی اعراب گزاری نے عربی زبان نه جاننے والوں کے لئے فصیح عربی میں قرائت کو آسان بنا دیا، لیکن بهت سے ایسے قاری اور حافظ تهے جو اپنے پهلے والے قاریوں سے سن کر قرآن مجید کی قرائت سیکهتے تهے- چنانچه هم مشاهده کرتے هیں که تاریخ قرائت کے مشهور قاری قرائت کی ایک سند هیں – یعنی ان کی قرائت کا سلسله ، صدر اسلام کے مشهور قاریوں ، خود پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم یا حضرت علی علیه السلام تک پهنچتا هے ، جبکه خود حضرت علی علیه السلام نے قرائت کو آنحضرت صلی الله علیه وآله وسلم سے سیکهاتها –اگر چه بعض سندیں زیاده معتبر هیں ، جیسے حفص کی عاصم سے روایت جو شیعوں کی ایک قرائت هے-
بعد والی اعراب گزاری میں ( ابو الاسود کی اعراب گزاری کی نسخه برداری اور اس کے تکامل کے سلسله میں ) همیشه قابل قبول قرائتوں سے تطبیق کی جاتی تھی اور یهی سلسله آج تک جاری هے اور قرآن مجید کی موجوده اعراب گذاری اپنے تکامل کے عروج پر پهنچی هے اور سکون، تشدید ، مد وغیره جیسی علامتیں اس میں اضافه هوئی هیں[2]-
قرآن مجید کی موجوده اور مشهور قرائت جو سینه به سینه لوگوں میں منتقل هوئی هے، متواتر هے اور اهل بیت علیهم السلام کی طرف سے تائید شده هے- امام صادق علیه السلام نے ایک روایت کے مطابق اپنے ایک صحابی کو حکم دیا هے که " اقرء کما یقرو الناس---" " جس طرح لوگ پڑهتے هیں ، تم بهی اسی طرح پڑهنا"-
عین روایت یوں هے : " سالم ابو سلمه کهتے هیں : میں سن رها تها که ایک شخص قرآن مجید کے بعض حروف کو لوگوں میں رائج طرز کے خلاف پڑھـ رها تھا اور اس نے آکر امام صادق علیه السلام کی خد مت میں اسی طرح – قرائت کی – امام علیه السلام نے فر مایا : " اس قرائت سے پرییز کر نا اور جس طرح لوگ قرائت کرتے هیں اسی طرح قرائت کرنا---[3]"
اس بناپر اسلام کی پوری تاریخ میں قرآن مجید کا متن ، سینه به سینه اور دست به دست ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل هو تا رها هے اور اس وجه سے صدر اسلام سے آج تک همیشه بهت سے قاری و حافظان قرآن مسلمانوں کےدر میان موجود هو تے تهے اور وه مقام و منزلت کے مالک هوتےتهے- اس طرح قرآن مجید بالکل رسول خدا صلی الله علیه وآله وسلم کے الفاظ و قرائت کی صورت میں پوری تاریخ کے دوران رائج تها اور قرآن مجید کی کتابت کے زمانه میں رسم الخط کے ابتدائی هو نے ، بے نقطه اور بے اعراب هو نے ، مختلف عرب قبائل کے لهجوں میں اختلاف اور بعض قاریوں کے ذاتی اجتهاد سے قرآن مجید کی رائج قرائت میں کوئی خلل نهیں پڑا هے اور صرف بعض شخصی اور نادر قرائتوں میں کچھـ غلطیاں وجود میں آئی هیں جن کی طرف اسلامی معاشره میں کوئی توجه نهیں کی گئی هے – روایت میں ذکر کی گئی لوگوں کی قرائت کا مراد " واقرء کما یقرء الناس " بهی وهی قرائت هے جو پوری تاریک میں مسلمانوں کے در میان رائج رهی هے- اسی طرح موجوده قرآن مجید کی عاصم کی قرائت سے مطابقت اسی لحاظ سے هے که عاصم کی قرائت عام لوگوں کی قرائت کے مطابق تھی[4]-
البته چوتهی صدی هجری کے اواخر تک کے خطاط اور خوشنویس قرآن مجید کو خط کوفی میں لکهتے تهے، لیکن خط نسخ نے پانچویں صدی هجری کے اوائل میں خط کوفی کی جگه لے لی ، اس صدی کے بعد ، عصر حاضر تک رائج تمام نقطے اور علائم قرآن مجید میں لکهنا معمول کا کام بن گیا[5]- اس لئے اس جهت سے قرآن مجید کے الفاظ میں کسی قسم کی تحریف کا امکان نهیں هے –
اس سلسله میں مزید معلو مات کے لئے ملا حظه هو، عنوان : " عدم تحریف قرآن" سوال نمبر 3843 (4112)-
[1] - دایرۃ المعارف بزرگ اسلامی ، ج٥، ص١٨٢- ١٩٠، " مدخل ابوالاسود "علوم قرآنی ، محمد هادی معرفت ، ص١٧٢- ١٧٣، مٶسسۃ التمهید-
[2] - ملاحظه هو : علوم قرآنی ،ص١٧٤ و١٧٥-
[3] - ملاحظه هو: روش شناسی تفسیر قرآن ، علی اکبر بابا ئی و دیگران ، ص ٧٢، پزوهشکده حوزه و دانشگاه وسمت ، ج اول ، قم ، ١٣٧٨ ش-
[4] - ملاحظه هو: ایضاً ص ٧٥- ٧٦/ علوم قرآنی، محمد هادی معرفت ، ص٢٤٦- ٢٤٧، مٶسسه فرهنگی انتشاراتی التمهید ، ج اول ،قم ١٣٧٨ش-
[5] - تاریخ قرآن کریم ، سید محمد باقر حجتی، ص٤٦٥و٤٨٤، دفتر نشر فرهنگ اسلامی ; علوم قرآنی ، آیت الله معرفت ،ص١٨٣، مٶسسه فرهنگی انتشاراتی التمهید-