دین اسلام دین خاتم ھے، اور اس کے احکام اور قوانین ثابت اورجاوداں ھیں۔ یھ دین جس طرح اپنی ابتدا سے ھی لوگوں کے تمام مسائل کو حل کرتا تھا اور ان کا جواب ده تھا۔ اسی طرح ان کے تمام مسائل کو ھمیشھ حل کرتا رھے گا۔ دوسری جانب حالات اور نئے شرائط بھی پیدا ھوتے ھیں جو پھلے شرائط سے مختلف ھیں۔
دین اسلام نے حالات ، شرائط اور نئے موضوعات کو احکام پر منطبق کرنے کے لئے مستحکم قوانین اور دستور پیش کئے ھیں اور اس ذمھ داری کو ماھرین اور علماء کی ایک جماعت کو سونپ دی ھے جو دینی مسائل کے سلسلے میں آگاه ھیں اور زمان اور مکان اور نئے مسائل کی گھری پھچان کے ساتھه ساتھه تمام پھلوؤں میں سماج اور دنیا کی ضروریات کے مطابق کلی عناصر اور احکام کا استنباط کرکے دین اسلام اور اس کے آئین کے فلسفھ کو بیان کرتے هیں۔
علماء اور فقھاء، زمان اور مکان کی ضرورت کے مطابق ایسے مباحث کو پیش کرتے ھیں جو مختلف موضوعات کے احکام اور اسلام کے نئے اور ثابت اصول اور قوانین کو حاصل کرنے کا سبب بنتے ھیں۔امام خمینی ، استاد شھید مطھری ، آیۃ اللھ باقر الصدر وغیره جیسے علماء نے اس طرح ان مباحث کو پیش کیا ھے، کھ اگر پوری تاریخ میں یھ گرانمایھ فقھاء ، اپنی جان ، طاقت اور اپنی پوری حیات کو نچھاور کرکے ان مباحث کو پیش نھ کرتے تو آج کل حقیقی اسلام کا نام و نشان نھ ھوتا۔
اس کے علاوه ھر دین میں ھمیشھ سب سے آگاه ، عالم اور اس دین پر سب سے زیاده عقیده رکھنے والے افراد، اُس دین کی سیاست طے کرنے اور اس کو عملی جامھ پھنانے کی ذمھ داری رکھتے ھیں۔ اور اسلام کے حیات بخش دین کو عملی جامھ پھنانے کے لئے، اس کے نظام، مکتب، اور فلسفھ سے آگاھی حاصل کرنا ضروری ھے۔ اسلام کے فلسفھ تک پھنچنے کے لئے کلامی روش ، اور اسلامی نظام حاصل کرنے کے لئے فقھی اور تجزیاتی روش کو اپنایا جاتا ھے۔ جسے آگاه فقھاء اور جامع الشرائط مجتھدین بیان کرتے ھیں۔ اور انھوں نے بیان بھی کیا ھے۔ البتھ طریقھ کار اور اسلوب کو نئے خطوط پر استوار کرنے کی ضرورت ھے جس میں مروجھ علوم کا کافی دخل ھے، اور یقیناً مروجھ علوم میں ترقی بھی، طریقھ کار کو بھتر بنانے اور انھیں مؤثر بنانے میں معاون ھے۔ البتھ یھ کام صرف فقھاء کا نھیں ھے بلکھ فقھاء اور انسانی علوم کے عالموں کا مشترک کام ھے۔
اسلام میں جب بھی فقھاء کو اسلامی احکام کے ماھرین اور مدیر کے طورپر بیان کیا جاتا ھے تو اس سے مراد آگاه اور جامع الشرائط مجتھدین ھیں اور ناآگاه فقیھ نھ صرف اسلام میں کوئی مقام نھیں رکھتا ھے بلکھ اس کو سرے سے فقیھ ھی نھیں مانا جاسکتا ھے۔
یھ ایک عقلی اور کلی قاعده ھے، کھ سب مذھبوں میں ، ھمیشھ سب سے آگاه، عالم اور عقیدتمند افراد اس مذھب کی سیاست اور اس کے نظریات کا اجراء کرنے کے ذمھ دار ھوتے ھیں۔
چونکھ اسلام، دین خاتم ھے اور اس کے قوانین معاشرے کی سب ھی اصناف میں یکسان طور پر جاری ھونے کے لئے هیں اس لئے یھ احکام اور قوانین ھر طرف ثابت مستحکم اور جاوداں ھیں، اور سماج کے سبھی افراد کے مسائل اور مشکلات کو ھر زمانے میں یکسان طور پر حل کرتے رھتے ھیں۔ یھ ایک حقیقت ھے که اس دین کو قیامت تک لوگوں کے سوالات کا جواب اور ان کے مسائل کو حل کرتے رھنا ھے۔ بالکل اسی طرح جس طرح صدر اسلام میں یھ دین لوگوں کے مسائل کو حل کرتا رھا ھے۔ کیونکھ " حلال محمد صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم قیامت کے دن تک حلال ھے اور حرام محمد قیامت کے دن تک حرام ھے" [1]
دوسری جانب، زمانه طبعی طور پرمتغیر اور تبدیلی کا متقاضی ھے، ھر دن حالات اور شرائط بدلتے رھتے ھیں اور ایسے حالات اور شرائط پیدا ھوتےھیں جو پھلے کے حالات اور شرائط سے بالکل مختلف ھوتے ھیں۔ اس بنیاد پر کس طرح ممکن ھے کھ ایک دین جیسی چیز، جو اپنی ذات میں مستحکم اور نا قابل تغییر ھے ، زمانه جیسی چیز سے ، جو اپنے اندر متغیر اور سیال ھے ، کے ساتھه موافق ھو۔
یهیں پر دین کے فقھاء کا کردار روشن ھوتا ھے۔ جو مسائل دین کے ماھرین کے طورپر ثابت عناصر ( یعنی دین) کو متغیر عناصر ( یعنی زمانه ) کے ساتھه ھم آھنگ کرتے ھیں۔
کلی عناصر کا استنباط کرنےکے لئے، کلامی روش کو اپناکر دین کے فلسفھ تک پھنچنا ممکن ھے، اسی طرح فقھی اور تجزیاتی روش[2] کو اپناکر اسلامی نظام اور مکتب فکر تک پھنچنا ممکن ھے۔ یھ صرف فقھاء کی هی ذمھ داری ھے جنھوں نے پوری تاریخ میں بطریق احسن اپنی اس ذمھ داری کو انجام دیا ھے۔
اسلامی معاشره ، ایک رھبر کا محتاج ھے، اور اسلام میں رھبری کے فرائض کو فقھاء کے ذمھ سونپا گیا ھے۔ کیونکھ حکومتی مسائل ایسے امور نھیں ھیں کھ دین کے دائرے سے باھر ھوں ، بلکھ دینِ خاتم کے کلی عناصر نے بھی اس سلسلے میں ایک مکمل ضابطھ حیات پیش کیا ھے، اور عقل رھبریت کے حوالے سے دین کے دخل سے نھ صرف منع نھیں کرتی بلکھ بعض اوقات حکمت کے مطابق اس امر پر تاکید بھی کرتی ھے۔
اگرھم دینی نقطھ نظر سے حکومت کو دیکھیں گے، اور اس کے اھم فریضے کو الھی اقدار اور اسلامی نصب العین اور شرعی احکام کی حفاظت جانیں گے تو عقل یھ حکم کرتی ھے کھ اس حکومت کے سربراه ایسے ھونے چاھئیں جو مکمل طور پر الھی احکام اور دینی فرائض سے آگاه ھوں اور اگر لوگوں کے درمیان معصوم امام ھوں تو عقل اُسی کو یھ منصب سونپتی ھے، اور جب وه پرده غیب میں ھیں تو عادل فقھاء معاشره کے امور کو سنبھالنے کے لائق ھیں۔
دوسرے الفاظ میں، عقل حکم کرتی ھے کھ ایک اعتقادی اور عمده نصب العین حکومت کا سربراه ایسا شخص قرار پائے، جو نصب العین سے آگاه ھو اور اسلامی شریعت میں معصوم کی غیبت کے زمانے میں ، ایسے شخص کے مصداق عادل فقھاء ھیں۔
[1] کتاب الکلافی، ج ۱ ص ۵۸ ، ح ۱۹، علی بن ابراھیم عن محمد بن عیسی بن عبید عن یونس عن حریز عن زرارۃ قال سالت ، ابا عبدا للھ علیھ السلام عن الحلال و الحرام ، فقال حلال محمد حلال ابدا الی یوم القیامۃ و حرامھ حرام ابدا الی یوم القیامۃ کا یکون غیره و لا یحی غیره و قال علی علیھ السلام ما احد ابتدع بدعۃ ال ترک بھ سنۃ۔
[2] مبانی کلامی اجتھاد ، ص ۳۸۳۔ ۔۔ ۴۰۵۔ مکتب و نظام اقتصادی اسلام ، استاد ھادوی ، س ۲۱۔ ۔۔ ۴۴۔