" شیعھ " کے لغوی معنی " پیرو" اور "مددگار" کے ھیں۔ نیز " دین اور مزهب کے ایک ھونے" کو بھی کھتے ھیں۔ مسلمانوں کی اصطلاح میں اس لفظ نے حضرت علی علیھ السلام کے پیروکاروں سے تعلق پیدا کیا ھے اورحضرت علی علیھ السلام کے پیرؤں میں متعدد معانی میں استعمال ھوتا ھے، جیسے دوستدار ، اور محب حضرت علی یا جو حضرت علی کو عثمان سے بھتر جانتا ھو یا جو حضرت علی کو خلفاء ثلاثھ اور باقی اصحاب سے بھتر جانتا ھو ، نیز جو حضرت علی کی بلا فصل جانشینی پر اعتقاد رکھتا ھو۔ لیکن اس لفظ کےلئے سب سے بھترین تعریف یھ ھے کھ " شیعھ وه ھے جو حضرت علی علیھ السلام کی جانشیی کو دلیل اور نص کے ذریعے ثابت جانتا ھو اور حضرت علی کو رسول اکرم صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم کی جانشینی کے لئے سب سےبھترین شخص جانتا ھو۔
" شیعھ " کا لفظ ایک عام مفھوم رکھتا ھے جو گزشتھ تعریف کے مطابق سب شیعھ فرقوں جیسے زیدیھ ، کیسانیھ ، اسماعیلیھ وغیره کو شامل ھوتاھے۔
اور اھل بیت کے پیروکاروں کو خاص الفاظ جیسے جعفری ، طالبی ، خاصھ ، علوی ، فاطمی ، امامی وغیره سے تعبیر کرتے ھیں۔
شیعوں کے فرقوں کی تعداد کے بارے میں چند قول موجود ھیں:
بغدادی نے اپنی کتاب میں، شیعوں کے اصلی فرقوں کو تین جانا ھے: زیدیھ ، کیسانیھ، امامیھ، لیکن شھرستانی نے اسماعیلیھ کو بھی شیعوں کےاصلی فرقوں میں قرار دیا ھے۔ خواجھ نصیر الدّین طوسی (رح) نےکتاب" قواعد العقاید "میں بغدادی کے نقطھ نظر کی حمایت کی ھے اور شیعوں کے اصلی فرقوں کو زیدیھ، کیسانیھ، اور امامیھ جانا ھے۔ جو علماء شیعھ اور ملل و نحل کے مؤرخوں کے درمیان مشھور ھے وه یھ ھے کھ شیعوں کے اصلی فرقے تین ھیں لیکن ان کی شاخوں اور فروعات میں اختلاف نظر موجود ھے۔
لغت کی کتب میں "شیعھ" کے معنی " پیرو " اور "حامی " کے ھیں۔ نیز یھ لفظ "دین اور مذھب کے یکسان" ھونے کے معنی میں بھی استعمال ھوا ھے۔ [1]
لفظ شیعھ مسلمانوں کی اصطلاح میں، حضرت علی علیھ السلام سے خاص تعلق رکھنےکو کھتے ھیں اور امام کے پیرؤں کے درمیان مختلف معانی میں استعمال ھوا ھے جو کھ مندرجھ ذیل ھیں:
۱۔ شیعھ حضرت علی کے محب اور انھیں دوست رکھنے والے کو کھتے ھیں۔
۲۔ شیعھ وه ھے جو حضرت علی علیھ السلام کو عثمان سے بر تر جانے اور شیعھ علی کے مقابلے میں شیعھ عثمان ھے۔
۳۔ شیعھ وه ھے جو حضرت علی علیھ السلام کو خلفاء ثلاثھ اور پیغمبر کے باقی اصحاب سے برتر جانے۔
۴۔ شیعھ وه ھے جو حضرت علی علیھ السلام کی بلا فصل جانشینی پر اعتقاد رکھے۔
۴۔ شیعھ وه ھے جو حضرت علی علیھ السلام کی بلا فصل جانشینی پر اعتقاد رکھے۔
البتھ ان تعریفوں میں سےکوئی بھی جامع اور مانع نھیں ھے تاریخ کے ادوار میں شیعوں کے مختلف فرقوں کو مد نظر رکھه کر ، شیعھ کی بھترین تعریف یوں ھے:
" شیعھ وه ھےجو حضرت علی علیھ السلام کی جانشینی کو دلیل کے ذریعے ثابت جانے اور حضرت علی علیھ السلام کو حضرت رسول اکرم صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم کی جانشینی کے لئے سب سے شایستھ فرد جانے" اس تعریف میںلفظ " دلیل" پر تاکید ھوئی ھے، جو شیعوں کو دوسرے گروھوں سے الگ کرتا ھے کیوں کھ دوسرے گروه آنحضرت صلی اللھ علیھ آلھ وسلم کی جانشینی کو انتخابی جانتےھیں لیکن شیعھ اس کو دلیل ، نص اور رسول اکم صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم کے بیان پر موقوف جانتے ھیں۔
شیعھ کی پیدائش کی تاریخ:
بعض محققین نے کھا ھے کھ" تشیع" حضرت رسول اکرم کی رحلت کے بعد پیدا ھوا ھے ان محققین کے کئی نظریات ھیں۔
۱۔ بعض نے کھا کھ تشیع سقیفھ کے دن پیدا ھوا ھے اس دن جب بعض بڑے اصحاب نے کھا: کھ حضرت علی علیھ السلام، امامت اور خلافت کے لئے سب سے بھتر ھیں۔
۲۔ دوسری جماعت کھتی ھے کھ شیعھ عثمان کی خلافت کے آخری دور سے متعلق ھیں اور اس زمانے میں عبدا للھ بن سبا کی آراء تشیع کے پیدا ھونے کا سبب بنی ھیں۔
۳۔ بعض دوسرے کھتے ھیں، کھ شیعھ فتنۃ الدار ( تیسرےخلیفے کے قتل ) میں پیدا ھوا ھے۔
۴۔ محققین کی ایک اور جماعت کھتی ھے کھ " تشیع" حَکَمَیت کے واقعھ اور حضرت علی علیھ السلام کی شھادت کے درمیان پیدا ھوا ھے۔
۵۔ پانچویں جماعت بھی تشیع کو حضرت امام حسین علیھ السلام اور کربلا کے قیام سے متعلق جانتی ھے۔
ان مختلف اقوال کے مقابلے میں بعض محققین کا نقطھ نظر یھ ھے کھ تشیع حضرت رسول اکرم صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم کےزمانے سے ھی موجود تھا اور آنحضور صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم نے کئی بار اس لفظ کو حضرت علی کے پیروکارؤں کے درمیان استعمال کیا ھے۔ شیعھ علماء میںمرحوم کاشف الغطاء ، شیخ محمد حسین مظفر ، محمد حسین زین عاملی اور اھل سنت کے علماء کے درمیان محمد کرد علی کھتےھیں : "صحابھ کی ایک تعداد حضرت رسول اکرم صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم کے زمانے میں شیعھ علی کے نام سے مشھور تھے۔[2]
حقیقت یھ کھ حضرت رسول اکرم صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم کے زمانے سے ھی خود رسول اکرم ، کے ذریعے شیعھ کی بنیاد پڑی ھے اور آنحضرت کی رحلت کے بعد شیعوں کی صفیں معین ھوئی ھیں اور جنھوں نے حضرت علی علیھ السلام کو رسول اکرم صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم کا جانشین جانا وه شیعیان علی (ع) کے نام سے مشھور ھوئے۔
شیعھ کا لفظ ایک عمومی مفھوم رکھتا ھے جو گزشتھ تعریف کے مطابق سب شیعھ گروھوں جیسے زیدیھ ، کیسانیھ، اسماعیلیھ، وغیره کو شامل ھے۔ لیکن اس بیچ بعض ایسے الفاط بھی موجود ھیں جو اس عام مفھوم سے مختلف ھیں اور بعض افراد اھل بیت علیھم السلام کے پیرؤں کو ان ناموں اور الفاظ سے پکارتے ھیں جن کے بارے میں مختصر وضاحت کرنا ضروری ھے۔
۱۔ رافضی : رفض "رد کرنے" اور "ترک کرنے" کے معنی میں ھے اور کسی کام کے چھوڑنے کو کھتے ھیں۔ شیعوں کے مخالفوں نے عام طور پر اس لفظ کو شیعوں کی مذمت اور توھین کرنے کے لئے استعمال کیا ھے، بعض کا خیال ھے کھ رافضی ان شیعوں کو کھتے ھیں، کھ جو زید شھید کے پھلے دو خلیفوں کے تئیں نرم گوشھ رکھنے کے لئے قیام کے دوران ، اُن سے الگ ھوگئے۔ ان دو معانی میں جس معنی کو بھی قبول کریں رافضی لفظ اپنے عام مفھوم میں لفط " شیعھ " کے ھم معنی نھیں ھے کیوں کھ یھ کلمھ بعض زیدیھ گروه کو شامل نھیں ھوتا ۔
۲۔جعفری: چون کھ حضرت امام جعفر صادق علیھ السلام نے اپنی کوششوں سے ، حضرات معصومین علیھم السلام کی رھبری پر اعتقاد رکھنے والے شیعوں کو فقھ اور کلام میں ایک خاص پھچان عطا کی ھے ، اور شیعوں نے ان بزرگوار کی تعلیمات سے فیض حاصل کیا ھے لھذا وه "جعفری" نام سے مشھور ھوئے ھیں۔ آج کے دور میں " جعفری" شیعھ اثنا عشری کے ھم معنی ھے حتی کھ اسماعیلیوں کو بھی شامل ھے کیو کھ کھ وه بھی حضرت امام جعفر صادق علیھ السلام کی امامت کے معتقد ھیں۔
۳۔ امامی : ھر ایک امام کے دور میں جو شیعھ حضرت فاطمۃ الزھرا سلام اللھ علیھا کے فرزندوں میں ائمھ معصومین کی امامت پر اعتقاد رکھتے تھے اور اس سلسلے کو بارھویں امام تک پھچادیتے ھیں، انھیں "امامی" کھا جاتا ھے لفظ امامی تاریخ کے ھر دور میں مختلف معنی رکھتا تھا۔ جیسے حضرت علی کے زمانے میں شیعھ کا ھم معنی تھا لیکن آج کے دور میں اس کے معنی اثنی عشریھ کے برابر ھے۔
۴۔ خاصھ: یھ لفظ اس سے پھلے فقھی متون میں لفظ عامھ (مسلمانوں کی اکثریت ) کے مقابلے میں استعمال ھوتا تھا اور اس کے معنی "شیعھ" کے تھے۔ اس لفظ کے خاص معنی فقھی متون میں، امامیھ اثنا عشری کے ھیں، کھ جو فقھ کو معصوم اماموں سے لیتے ھیں۔
۵۔ علوی : شاید یھ لفظ کسی زمانے میں شیعھ کی کلامی بحث ( حضرت علی کی برتری) میں استعمال ھوتا تھا۔ لیکن اس کے بعد یھ لفظ اپنے نسبتی معنی یعنی حضرت علی علیھ السلام سے تعلق رکھنے کے معنی میں استعمال ھوا ھے۔
۶۔ فاطمی : یھ لفظ بھی اپنے نسبتی معنی میں استعمال ھوتا ھے اور حضرت امام حسن اور امام حسین علیھما السلام کی اولاد کی محمد بن حنفیھ کی اولاد پر برتری بیان کرنے کے لئے استعمال ھوتا ھے کیونکھ کیسانیھ اپنے آپ کو محمد بن حنفیھ سےمنسوب کرتےھیں ۔ کیونکھ محمد بن حنفیھ حضرت فاطمھ زھراء کی اولاد میں سے نھیں تھے اگر چھ حضرت علی کے فرزندوں میں سے تھے۔
۷۔ طالبی : اس لفظ کا مطلب نسبتی ھے لیکن گزشتھ دو الفاظ ( فاطمی ، علوی ) سے اس کا دائره وسیع تر ھے۔ طالبی حضرت ابو طالب کے فرزندوں کو کھتے ھیں، جو ان کے سب فرزندوں ، حضرت علی علیھ السلم کے علاوه کو بھی شامل ھے اس لفظ کی گهرائی کا اندازه ابو الفرج اصفھانی کی کتاب " مقاتل الطالبین " کے مطالعھ سے ھوتا ھے۔ جس میں سب طالبیوں کی تحریکوں ، من جملھ جعفر بن ابی طالب کے فرزندوں کی تحریکوں کا ذکر کیا گیا ھے۔
یھ وه الفاط تھے جو تاریخ کے مختلف ادوار میں شیعوں کے بارے میں استعمال ھوتے تھے۔
"تشیع" نے اپنی پر ثمر تاریخ میں بھت سے اتار چڑھاو دیکھے ھیں ایسے اتار جس نے اس مذھب کو ختم کرنے سے نزدیک کیا اور ایسے چڑھاو جس نے اس مذھب کو پوری اسلامی دنیا پر مسلط ھونے کے نزدیک کردیا تھا ۔ اس کے درمیان جن چیزوں نے اس مذھب کو خصوصیت بخشی ھے وه اس مذھب کا مختلف اسلامی معارف کے عناصر میں بے نیاز ھونا ، حکومت تشکیل دینے کا دعوی کرنا ، اور اس دعوی کو تاریخ کے مختلف ادوار میں ثابت کرنا ھے۔ اور جو پوری تاریخ میں اس مذھب کی مستقل پھچان ھے۔
چونکھ شیعھ مذھب طاقتور عقلی ، فقھی ، کلامی اور اخلاقی تکیھ گاه رکھتا ھے اور اس مذھب نے سب محدودیتوں، دباؤ اور دشمنوں کے زھرآلود پروپگنڈے کے باوجود دنیا کے کونے کونےمیں اپنے ییروکاروں کو پالیا ھے اور پوری دنیا میں اس کے پیروکاوں کی بڑھتی ھوئی تعداد موجود ھے۔ البتھ افسوس کے ساتھه کھنا پڑھتا ھے کھ تفرقھ او فرقوں میں بٹ جانے کی آفت ھر مذھب اور دین میں رھی ھے اور شیعھ مذھب بھی اس آفت سے دور نھیں رھا ھے۔ ھم امید کرتے ھیں کھ مسلمانون کے درمیان روزبروز آگاھی بڑھنے سے حضرت رسول اکرم صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم کے حقیقی پیروکار اور اھل بیت کے ماننے والے یعنی دنیا کے سب مسلمان اتحاد اور اتفاق کرکے دشمنوں کے اھداف پر پانی پھیر دیں گے۔
شیعوں کے اصلی فرقے
شیعوں کے اصلی فرقوں کے بارے میں چند قول موجود ھیں۔
بغدادی نے اپنی کتاب میں شیعوں کے اصلی فرقوں کو تین جانا ھے زیدیھ ، کیسانیھ ، امامیھ، وه غلاۃ کو بھی شیعوں کا ایک حصھ جانتا ھے لیکن بعد میں اُسے یاد آتا ھے کھ کیوں کھ وه اسلام سے خارج ھیں اس لئے وه اسلامی فرقوں میں نھیں سما سکتے [3]
شھرستانی نے اسماعیلیھ کو بھی شیعوں کے اصلی شعبوں میں بیان کیا ھے اور شیعوں کے اصلی فرقوں کو پانچ جانا ھے۔ [4]
خواجھ نصیر الدین طوسی نے "قواعد العقایدیھ" میں بغدادی کے نظریه کی حمایت کی ھے اور شیعوں کےاصلی فرقوں کو زیدیھ ، کیسانیھ ، امامیھ جانا ھے ۔ [5]
قاضی عضد الدین ایجی نے بھی شیعھ کے اصلی فرقوں کو تین شمار کیا ھے کیسانیھ ، امامیھ ، زیدیھ،
بعض نے شیعوں کے اصلی فرقوں کو چار جانا ھے امامیھ ، کیسانیھ ، زیدیھ ، اسماعیلیھ۔
جو کچھه علماء شیعھ اور علماء ملل و نحل کے درمیان مشھور ھے وه یھ ھے کھ شیعوں کے اصلی فرقے تین ھیں لیکن اس کی شاخوں کے بارے میں اختلاف ھے
مزید آگاھی کے لئے رجوع کریں :
الفرق بین الفرق،
ملل و نحل ،
قواعد العقایدیھ۔
اس طرح :
۱۔ انشعابات شیعھ ۔
۲۔ آشنایی با شیعھ۔
[1] القاموس المحیط ، ج ۳ ص ۶۱۔ ۶۲، تاج العرس ، ج ۵ ص ۴۰۵، لسان العرب ، ج ۷ ص ۲۵۸ ، النھایۃ ابن اثیر ، ج ۳ ص ۲۴۵۔
[2] تاریک تشیع در ایران رسول جعفریان، ص ۳۴۔ ۲۸۔
[3] الفرق بین الفرق، بغدادی۔ عبد القاھر، ص ۲۱۔ ۲۳۔
[4] ملل و نحل ، شھرستانی، ج ۱ ص ۱۴۷۔
[5] طوسی ، خواجھ نصیر ۔ قواعد العقاید، تحقیق ، ربانی ، علی ، ص ۱۱۰۔