کسی شخص کو کھانے کے بعد پتا چلا که غذا حرام تھی تو اگر حرمت کا گمان نهیں تھا اور اس پر حلیت کی نشانیاں تھیں مثال کے طور پر مسلمان کے هاتھ سے لیا تھا تو گناه نهیں هے ، لیکن اگر غذا مشکوک تھی ، مثلاً کافر کے هاتھ سے لیا تھا یهاں انسان کا فریضه هےکه تحقیق اور پوچھ تاچھ کرے اور بغیر تحقیق کھانا جائز نهیں هے ، لیکن اگر حلیت یا حرمت کی کوئی پهچان نهیں تھی ، اس صورت میں اگر گوشت هے تو اس کی اصل ، حرمت و عدم تزکیه هے جس کی حلیت و تزکیه کے سلسله میں یقین پیدا کرنا ضروری هے ، باقی دوسری کھانے پینے کی چیزوں کے سلسله میں هر چند اس طرح کی کوئی اصل موجود نهیں هے ، لیکن اگر انسان حکم سے متعلق (مثلاً خون سے آلوده غذا کی حرمت) جاهل مقصر تھا یعنی معلوم کر سکتا تھا لیکن اس نے سستی کی تو گناه کا مرتکب هوگا ۔ لیکن اگر جاهل قاصر تھا ( جس کے لئے تحقیق کرنا ممکن نهیں ) تو گناه کا مرتکب نهیں هوا هے ، البته موضوع سے متعلق (مثلاً نهیں معلوم یه چیز خون سے آلوده هے یا نهیں ) اس صورت میں اگر جاهل مقصر بھی تھا تو بھی حرام کا مرتکب نهیں هوا هے ۔
البته اهل بیتؑ سے منقول روایات کے مطابق اس طرح کے اعمال ه چند اشتباه اور غلطی سے سر زد هوں لیکن انسان کی زندگی پر منفی اثرات ڈالتے هیں اور انسان کی توفیق سلب کر لیتے هیں ، لهذا انسان کو دقت کرنی چاهئے که اس کی غذا حلال هو اوراس طرح رضائے الٰهی کی راه میں قدم بڑھائے ۔
اگر کسی کو معلوم هے که یه گوشت یا غذا حرام هے یعنی غذا کو بھی پهچانتا هے (موضوع) اور حکم سے بھی واقف هے که حرام هے پھر بھی اسے کھارهاهے تو اس نے معصیت اور گناه انجام دیا هے اور اس کا یه عمل احکام الٰهی سے سر پیچی کرنا اور نافرمانی کرنا شمار هوگا اور وه مخصوص سزا کا مستحق هوگا فطری بات هے که یه گناه انسان کی زندگی میں برے اثرات ڈالے گا ۔
اس سلسله میں امام صادقؑ ارشاد فرماتے هیں : گناه کا اثر یه هے که انسان کو عبادت سے محروم کردیتا هے کبھی کبھی انسان دن میں گناه کا مرتکب هوتا هے جس کے نتیجه میں سحر خیزی اور نماز شب سے محروم هوجاتا هے [1] مگر یه که توبه کرنے اور اپنے ماضی کی اصلاح کر لے [2] ۔
لیکن اگر نادانسته طور پر یه غذا کھائی هے تو دو حال سے خارج نهیں هے :
1. موضوع سے بے خبر تھا ، لیکن حکم سے واقف تھا ، مثلاً جانتا تھا که سور کا گوشت کھانا حرام هے مگر یه نهیں جانتا تھا که یه غذا سور کے گوشت سے تیار هوئی هے اور کھانے کے بعد متوجه هوا هے یهاں تین صورت حال هے :
الف: حرمت کا گمان نهیں تھا اور مشکوک بھی نهیں تھا بلکه اس پر حلیت کی نشانی موجود تھی مثال کے طور پر مسلمان کے هاتھ سے لیا تھا ، اس صورت میں اگر بعد میں معلوم هوا هے تو کسی گناه کا مرتکب نهیں هوا هے ۔
ب: غذا مشکوک تھی اور اس پرحرمت کی نشانی موجود تھی مثلاً غیر مسلم کے هاتھ سے لیا تھا ایسے میں اس کا فریضه تحقیق و جستجو کرنا هے ، پس اگر تحقیق کے بغیر اسے کھا لیا اور بعد میں معلوم هوا که ی کھانا حرام بھی تھا تو وه گناه کا مرتکب هوا هے ۔
ج : حرمت یا حلیت کی کوئی نشانی موجود نهیں تھی ایسی صورت میں چونکه موضوعات کی تحقیق اس پر واجب نهیں هے ، لهذا اگر کھانے کے بعد معلوم هوا که غذا حرام تھی ایسی صورت میں کسی حرام کا مرتکب نهیں هوا هے ، البته گوشت که سلسله میں چونکه اصل ، حرمت و عدم تزکیه هے لهذا اگر تحقیق کے بغیر اسے کھا لیا هے اور بعد میں معلوم هوا که حرام تھا تو گناه کا مرتکب هو اهے ۔
2. حکم سے بے خبر اور موضوع سے واقف تھا مثلاً نهیں جانتا تھا که سوّر کا گوشت کھانا حرام هے لیکن جانتا هے که موجوده غذا سوّر کے گوشت سے تیار هوئی هے ، اگر تحقیق کر کے حقیقت سے واقف هو سکتا تھا لیکن ایسا نهیں کیا تو اس کا یه عمل حرام هے اور وه گنهگار شمار هوگا ، لیکن اگر موجوده غذا کے سلسله میں تحقیق کرنا اس کے لئے ناممکن تھا اور مسئله کا حکم دریافت کرنے کا امکان نهیں تھا ، ایسے میں وه مقصّر نهیں هے اور گنهگار شمار نهیں هوگا ، اور اسے اس عمل پر سزا نهیں ملے گی اس لئے که "حدیث رفع " کے مطابق جو پیغمبر اکرم صل الله علیه وآله وسلم
سے منقول هے خود تکلیف اور اسی کے ساتھ عذاب بھی اس سے هٹالیا گیا هے [3] اور سوائے هاتھ ، منه اور برتن پاک کرنے کے اس پر کوئی اور فریضه عائد نهیں هوتا ۔
البته یه حرام غذا انسان کے جسم و روح پر اپنا وضعی و طبیعی اثر ضرور ڈالے گی ۔
علمائے اخلاق نے اس طرح کی غذا کے وضعی اثرات کی طرف اشاره کیا ، اور ان کا عقیده هے که اگر چه انسان کو اس عمل پر کوئی سزا نهیں ملے گی مگر اس سے توفیقات سلب هوجائیں گی اور اس کے ایسے برے معنوی اثرات هیں جن سے چشم پوشی نهیں کی جا سکتی ۔ اسی وجه سے متعدد روایات میں تاکید کی گئی هے که انسان اپنی غذا اور کھانے پینے کی چیزوں میں احتیاط کرے ۔
رسول خدا صل الله علیه وآله وسلم کے سامنے ایک برتن میں دودھ لایا گیا حضرت صل الله علیه وآله وسلم کو جب تک که اس دودھ کے حلال هونے کا اطمینان نهیں هوگیا آپ نے دودھ نوش نهیں فرمایا ؛ ارشاد فرمایا: مجھ سے پهلے کے انبیاءؑ کو حکم تھا که پاک و پاکیزه غذا کھائیں اور فقط اچھے کام انجام دیں [4] ۔
اهلبیت ؑ کی احادیث میں حتی بچوں کے سلسله میں بھی غذا کے وضعی اثرات سے خبردار کیا گیا هے [5] ۔
لهذا ضروری هے که انسان همیشه دقت سے کام لے تا که اس کی غذا حلال رهے ، اس لئے که یه غذا اور اس کے وضعی اثرات انسان کے معنوی انجام اور رضائے الٰهی کی راه میں اثر انداز هوکر مشکوک کرتے هیں اور جس طرح کسی شخص یا معاشرے کے اعمال و کردار دنیا کے حوادث میں موثر هیں اسی طرح دنیوی حوادث بھی انسان کے اعمال و کردار اور اخلاق پر اثر انداز هوتے هیں [6] ۔
[1] جوادی آملی ، عبد الله ، مراحل اخلاق در قرآن ، ص 153
[2] مائده ، 39
[3] بحار الانوار ، ج 5 ، رسول خدا صل الله علیه وآله وسلم نے فرمایا : میری امت سے غلطی ، فراموشی اور مجبوری کو اٹھالیا گیا هے
[4] الدر المنثور ، ج 6 ، ص 102 ؛ میزان الحکمۃ ، ج 3 ، ص 128 ، محمدی ری شهری ، محمد ۔
[5] بحار الانوار ، ج 100 ، ص 323 ؛ ج 101 ، ص 96 ، امام علی ؑ : اپنے بچوں کو دیوانه ، بدکار عورتوں کے دودھ سے دور رکھو ، اس لئے که دودھ کا اثر پڑتا هے ۔
[6] جوادی آملی ، عبد الله ، مبادی اخلاق در قرآن ، ص 108 ۔