اھل بیت)ع( کی بہت سی احادیث میں یہ دو الفاط ایک دوسرے کے ھمراہ استعمال ہوئے ہیں، اگر چہ ان دو لفظوں کے معنی مترادف ہیں، لیکن لغت کے علماء نے ان دو لفظوں میں جو فرق بیان کیا ہے وہ یہ ہے کہ "وقار" بدنی آرام کے بارے میں استعمال ہوتا ہے اور "سکینہ"، قلبی اور دلی آرام کو کہتے ہیں۔
عربی لغت میں "وقار" اور "سکینہ" کے معنی آرام اور سکون کے ہیں۔ لیکن لفظ "وقار" کو بدنی اور ظاھری آرام کے بارے میں استعمال کیا جاتا ہے جب کہ "سکینہ" باطنی اور قلبی آرام کے بارے میں استعمال ہوتا ہے۔
"وقار" کے معنی اور عربی لغت میں اس کا استعمال
لسان العرب کے مولف " وقر" کے معنی میں کہتے ہیں : " الوقر" ثقَل فی الاذن ( بالفتح ) "و قیل ھو ان یذھب السمع کلہ ، الثقل اخف من ذلک" ، وقر کان میں موجود کسی بھاری چیز کو کہتے ہیں اور کہا گیا ہے کہ سماعت کے ختم ہونے کو کہتے ہیں، لیکن "ثقل" کا استعمال اس جگہ پر ہوتا ہے جہاں تھوڑی سی سماعت ابھی باقی ہو اور اگر "کسرہ" کے ساتھ آجائے تو ایک بھاری چیز کو کندھوں یا سر پر اٹھانے کو کہتے ہیں ، "جاء یحمل وقرہ" یعنی اپنے کندھے یا سر پر ایک بوجھ اٹھا کر آیا [1] پس لفظ "وقار"اس لحاظ سے آرام کا معنی دیتا ہے کہ گویا جو بوجھ اور بھاری چیز اس کے اوپر ہے وہ اس کے آرام رہنے کا سبب بنی ہے۔ لسان العرب میں ایک اور معنی یوں ہے : "الوقار، الحلم و الرزانۃ" وقار بردباری اور متانت کے معنی میں ہے [2] اور یہ معنی بھی بھاری بوجھ کا اثر ہے جیسا کہ بیان ہوا۔
"سکینہ" کے معنی اور عربی لغت میں اس کا استعمال۔
کتاب التحقیق فی کلممات القران الکریم میں یوں بیان ہوا ہے:
سکینہ کے معنی استقرار اور ثبوت کے ہیں جو حرکت کے مقابل میں ہے اور یہ لفظ مادی اور روحی استقرار پر اطلاق ہوتا ہے اور باطنی استقرار کو طمانینہ کہتے ہے جس کے معنی اضطراب اور تشویش کا دور ہونا ہے [3]، کتاب التحقیق کے مولف رقمطراز ہیں : "سکینہ" "فعیلہ" کے وزن پر " سکون" سے لیا گیا ہے اور اس سے مراد ہر وہ چیز ہے جس میں "ثبات" اور "استقرار" پایا جاتا ہو۔ قرآن مجید میں "سکینہ" سے مراد خداوند متعال کی طرف سے ایک ایسا پیغام کا نزول ہے جو آرام اور سکون کا سبب بنے اور جو نفس سے ہر طرح کے اضطراب اور پریشانی کو دور کرے۔[4]
قرآن اور احادیث میں وقار اور سکینہ کے استعمال کے مواقع اور ان کے معنی
قرآن مجید میں لفظ "وقار" ایک مرتبہ اور اس کے مشتقات ۸ مرتبہ استعمال ہوئے ہیں [5] اور "سکینہ" کا مادہ اور اس کے مشتقات ۶۵ مرتبہ استعمال ہوئے ہیں، جس میں سے بعض کا ہماری بحث سے کوئ تعلق نہیں ہے لیکن ، "سکینہ"[6] ، "سکینۃ"[7] "السکینۃ"[8] انسان کی باطنی آرام کے معنی میں آئے ہیں۔ لیکن علم لغت کے علماء نے جو معنی سکینہ اور وقار کے بتائے ہیں وہ ان قرائن سے ماخوذ ہیں جو ان آیات شریفہ میں موجود ہیں مثال کے طور پر سورہ فتح کی آیت نمبر ۴ میں ارشاد ہے :" هُوَ الَّذِى أَنزَلَ السَّكِينَةَ فىِ قُلُوبِ الْمُؤْمِنِينَ لِيزَدَادُواْ إِيمَانًا مَّعَ إِيمَانهِم ۔" وہی خدا ہے جس نے مومنین کے دلوں میں سکون نازل کیا ہے تاکہ ان کے ایمان میں مزید اضافہ ہوجائے، کہ اس آیت میں "قلوب " کے قرینہ کی وجہ سے " سکینہ" سے مراد دل کا آرام ہے اور سورہ نوح کی آیت ۱۳ میں ارشاد ہے: "مَّا لَكمُْ لَا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقَارًا" "آخر تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم خدا کی عظمت کا خیال نہیں کرتے ہو"۔ مفسروں نے "وقار" کو بھاری اور عظمت کے معنی میں استعمال کیا ہے۔
بہت سی احادیث میں کلمہ "وقار" اور "سکینہ" مترادف معنی طورپر استعمال ہوئے ہیں اور بعض روایات میں سکینہ ایک خاص معنی یعنی ایمان مطمع نظر ہے۔
ان روایات سے اطلاع حاصل کرنے کے لیے جامع الاحادیث سافٹ ویر میں"السکیںہ" اور "الوقار" کو ترکیبی صورت میں جانچ لیں۔
[1] ابن منظور، محمد بن مكرم، لسان العرب ج 5 ص 289، دار صادر، لبنان، 1414 ھ ش۔
[2] ایضا
[3] مصطفوى، حسن، التحقيق في كلمات القرآن الكريم، ج 5، ص 163، بنگاه ترجمه و نشر كتاب، تهران، 1360 ش.
[4] ایضا ص ۱۶۵
الأنعام : 25، الإسراء: 46، الکهف: 57، لقمان:7، فصلت:5 و 44، الفتح: 9، الذاریات: 2، نوح :13.
[5] البقرة:248.
[6] التوبة : 26 و 40، الفتح:26.
[7] فتح، 4 و 18.
[8] کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی ج 2 ص 15، ح 1، دار الکتب الإسلامیة، تهران، 1365 ھ ش۔