یہ روایت بعض احادیث کی کتابوں میں آئی ہے۔ لیکن اس میں نہیں کہا گیا ہے کہ امام علی{ع} نے یہ بات کی ہو کہ: "اے پیغمبر{ص} ؛ کیا آپ کے لیے تورات اور انجیل سے پڑھوں۔ ۔۔ ؟ بلکہ انہوں نے سلام کے بعد رسول خدا{ص} کے لیے سورہ مومنون کی چند آیتوں کی تلاوت فرمائی۔ سورہ مومنون کی چند آیتوں کی تلاوت کرنے میں رسول اللہ کی رسالت سے کسی قسم کی منافات نہیں ہے، اور اس سے رسالت سے پہلے رسول اللہ کی قرآن مجید کے محتوی سے عدم آگاہی ثابت نہیں ہوتی ہے کیونکہ قرآن مجید ایک ایسی حقیقت کا حامل ہے جو اس کے پہلے مرتبہ پر عالم نور میں پیغمبراکرم{ص} پر نازل ہوا تھا۔ اسی طرح بعض روایتوں میں، قرآن مجید کے "الحقائق الانبیاء" والے مرتبہ کے بارے میں اشارہ ہوا ہے، جو اس کے ظاہری الفاظ کے ماورا تھا اور یہ ایک ایسی چیز نہیں ہے، جو صرف ظہور اسلام کے بعد والے زمانہ سے مخصوص ہو، بلکہ قرآن مجید ، تمام انبیاء کے کلام کی حقیقت ہے اور انبیاء{ع} میں سے ہر ایک نبی اسی حقیقت کے ایک مرتبہ سے متصل تھا۔
اسی لیے ، امام علی{ع} نے تولد کے بعد آغوش پیغمبر{ص} میں قرآن مجید کی بعض آیات کی تلاوت کی ہے جن میں مومنین کی نجات کے کلی معنی ہیں اور یہ ایک ایسی بات تھی، جو پیغمبراکرم{ص} کے لیے کوئی نئی چیز نہیں تھی۔
جس طرح حضرت عیسیٰ{ع} نے تولد کے بعد فرمایا: " میں اللہ کا بندہ ہوں اور اس نے مجھے کتاب دی ہے اور مجھے نبی بنایا ہے۔" جبکہ اس وقت حضرت عیسیٰ{ع} کے ہاتھ میں کوئی کتاب نہیں تھِی، پس اس دنیا میں قدم رکھنے سے پہلے عالم نور میں حضرت عیسیٰ{ع} کے نور پر کتاب الہٰی نازل ہوئی تھی۔
اس سوال کا جواب دینے سے پہلے چند نکات پر توجہ کرنا ضروری ہے:
ایک ۔ یہ روایت احادیث کی کتابوں میں آئی ہے۔ لیکن اس میں نہیں کہا گیا ہے کہ حضرت علی{ع} نے اس قسم کا کلام کیا ہوگا کہ : اے پیغمبر{ص}؛ کیا آپ{ص} چاہتے ہیں کہ آپ{ص} کے لیے تورات و انجیل سے کچھ پڑھوں؟ بلکہ آپ{ع} نے رسول خدا{ص} پر سلام بھیجنے کے بعد سورہ مومنون کی چند آیات کی تلاوت فرمائی[1]۔
دو ۔ اس روایت کی سند کی تحقیق کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ روایت کی سند کے سلسلہ میں موجود بعض راویوں کی توثیق نہیں کی گئی ہے یا ان کے مدح و ذم میں اختلاف پایا جاتا ہے، لیکن روایت کے متن اور محتویٰ کو دوسرے مبانی کے مطابق قبول کیا جا سکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ:
۱۔ امام معصوم{ع} انسان کامل کا مکمل مصداق ہوتا ہے اور قرآن و قرآن ناطق کو تجسم بخشنے والا ہوتا ہے، اور مسلمانوں کے ہاتھوں میں موجود خطی اور مطبوعہ قرآن مجید ، قرآن صامت ہے[2]۔
۲۔نزول قرآن، جو دوسری آسمانی کتابوں کو مکمل کرنے والا ہے، چند مراتب پر مشتمل تھا کہ اس کا پہلا مرتبہ عالم نور میں پیغمبراکرم{ص} اور ائمہ اطہار{ع} کے انوار پر نازل ہوا تھا۔ جیسا کہ یہ آیہ شریفہ: " اور آپ کو یہ قرآن خدائے علیم و حکیم کی طرف سے عطا کیا جا رہا ہے۔[3]" اسی معنی کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ پیغمبراکرم{ص} نے قرآن مجید کی حقیقت کو ملک کے واسطہ کے بغیر عالم نور میں حاصل کیا ہے اور اس کے بعد ائمہ اطہار{ع} کے انوار پر نازل ہوا ہے[4]۔
حتی کہ، بعض روایتوں میں نزول قرآن کے "الحقائق الانبیاء" نامی مرتبہ کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے، جو اس کے ظاہری الفاظ کے ماورا ایک امر تھا اور یہ ایک ایسی چیز نہیں ہے جو ظہور اسلام کے بعد سے مخصوص ہو، بلکہ قرآن مجید تمام انبیاء کے کلام کی حقیقت ہے اور انبیاء{ع} میں سے ہر نبی اس حقیقت کے ایک خاص مرتبہ سے متصل تھا[5]۔ اگرچہ اس کی عالی اور مکمل حقیقت پیغمبراکرم{ص} کے قلب مبارک پر نازل ہوئی ہے۔
مذکورہ نکات کے پیش نظر:
الف۔ یہ روایت، پیغمبراکرم{ص} کی رسالت کے منافی نہیں ہے اور اس سے رسالت سے پہلے پیغمبر{ص} کے قرآن مجید کے محتویٰ سے عدم آگاہی کا نتیجہ نہیں نکلتا ہے، کیونکہ قرآن مجید کے نزول کے کئی مراتب ہیں اور اس کا پہلا مرتبہ نبی اکرم{ص} کے نور مقدس پر نازل ہونا تھا اور آنحضرت{ص} کی ایک ایسی حقیقت ہے جو آپ{ص} کے اس مادی دنیا کے ظاہری بدن کے علاوہ ہے، جس طرح حضرت عیسی{ع} نے تولد کے بعد فرمایا: " میں اللہ کا بندہ ہوں اور اس نے مجھے کتاب دی ہے اور مجھے نبی بنایا ہے[6]۔" جبکہ اس وقت حضرت عیسی{ع} کے ہاتھ میں کوئی کتاب نہیں تھی، پس اس دنیا میں قدم رکھنے سے پہلے عالم نور میں حضرت عیسی{ع} کے نور پر کتاب الہٰی نازل ہوئی تھی۔
ب۔ عالم نور میں، قرآن مجید کی نورانی حقیقت امام علی{ع} کے باطن پر بھی نازل ہوئی تھی۔ اسی لیے امام علی{ع} نے تولد کے بعد آغوش پیغمبر{ص} میں قرآن مجید کی چند آیات کی تلاوت فرمائی اور یہ بات پیغمبر{ص} کے لیے کوئی نئی چیز نہیں تھی، کیونکہ پیغمبراکرم{ص} قرآن مجید کے عین علم اور تمام عالم اور قرآن مجید کے علم سے آگاہ تھے۔
اس سلسلہ میں مزید آگاہی کے لیے ملاحظہ ہو:
«امتیازات پیامبر(ص) بر امامان»، سؤال 1384 (سایٹ: 4213).
«مقام امامان شیعه نسبت به پیامبران»، سؤال 17189 (سایٹ: ur16897).
«وجه الله بودن امام علی (ع)»، سؤال 8680 (سایٹ: 9850).
[1]. شیخ طوسی، امالی، ص 708، انتشارات دار الثقافة، قم، 1414ق؛ مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، ج 35، ص 18، مؤسسة الوفاء، بیروت، 1404ھ.
[2]. ملاحطہ ہو: عناوین «فضیلت و برتری ائمه نسبت به قرآن»، سؤال 10232 (سایت: 10152)؛
«برتری پیامبر (ص) بر قرآن»، سؤال 13557 (سایٹ: ur13280).
[3]. «وَ إِنَّكَ لَتُلَقَّى الْقُرْآنَ مِنْ لَدُنْ حَكيمٍ عَليم»، نمل، 6.
[4]. ملاحطہ ہو: طيب، سيد عبد الحسين، اطیب البیان فی تفسیر القرآن، ج 9، ص 107و 354 و ج 10، ص 285 و 286، انتشارات اسلام، تهران، چاپ دوم، 1378ھ ش.
[5]ملاحطہ ہو: عناوین «مراتب و حقایق قرآن،سؤال 10688 (سایٹ: 12360)؛ «مراتب نزول قرآن و جایگاه الفاظ در وحی الاهی»، سؤال 12318 (سایٹ: ur12107)؛ «نزول قرآن»، سؤال 2277 (سایٹ: ur2420).
[6]. مریم، 30.