پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کی چاهت کو عملی جامه پهنانے میں رکاوٹ ڈالنے (وفات سے پهلے وصیت لکهنے کے لئے قلم ودوات کو لانے کی درخواست) کا واقعه تاریخ اسلام کے مشهور واقعات میں شمار هوتا هے جو مختلف ناموں جیسے: "یوم الخمیس" یا: قلم ودوات" کے واقعه کے نام سے مشهور هے-اس حادثه میں حضرت علی علیه السلام کی خاموشی، اصل حادثه کے رونما هونے سے انکار کے معنی میں نهیں هے ، بلکه دیکهنا چاهئے که اس کی علت کیاتهی اور کیا یه خاموشی حضرت علی علیه السلام کی شجاعت کے ساتھـ منافات رکهتی تهی یا نه؟
تاریخ کی کتابوں وغیره میں درج هوئے اس حادثه "قلم ودوات" پر نظر ڈالنے سے مندرجه ذیل حقائق واضح هوتے هیں :
١- ایک شخص نے پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم پر هذیان گوئی کا اتهام لگایا، جبکه پیغمبر اکرم کے بارے میں قرآن مجیدکا ارشاد هے: " وه اپنی نفسانی خواهشات کے مطابق اور اپنی طرف سے بات نهیں کرتے بلکه صرف هماری وحی کوآپ تک پهنچاتے هیں-" وصیت کا امربهی رسالت کے اهم ترین امور سے مربوط هے-
٢- رسول خدا صلی الله علیه وآله وسلم کے بالین پرآپ(ص) کی بیماری کی حالت میں لڑائی جهگڑا شروع کرنا ایک اچها اورمناسب کام نهیں تها، حضرت علی(ع) کی طرف سے هر قسم کا اظهار نظر اس جگهڑے میں اشتعال انگیز ی اور رسول خدا صلی الله علیه وآله وسلم کی زیاده رنجش کا سبب بن جاتا-
٣- بعض لوگوں نے اس شخص کی مخالفت کی جس نے رسول خدا (ص) کی کتابت ووصیت میں رکاوٹ ڈالی تهی ،لیکن لڑائی جگهڑا کافی پهیل گیا اور اس شخص اور اس کے ساتهیوں هلٹر مچائی اور اس مخالفت کو قبول نهیں کیاگیا اور پیغمبر(ص) نے سبوں کو اپنے بالین سے دور هونے کاحکم دیا- برادران اهل سنت کے مصادر میں موجود بعض روایتوں کے مطابق ، یه شخص عمر بن خطاب تهے[i]-
٤- حضرت علی علیه السلام کی ولایت اور اس کی حقا نیت اس قدر واضح تهی آپ (ع) کے آنحضرت صلی الله علیه وآله وسلم کے وصی هو نے میں کسی کو شک وشبهه نهیں تها اور آنحضرت صلی الله علیه وآله وسلم کے گهر میں حضرت علی علیه السلام کی خاموشی صرف مذکوره چند مصلحتوں کے بناپر تهی، لیکن سقیفه کے واقعه کے بعد انهوں نے اپنے حق سے محروم کئے جانے پر کئی بار اعتراض کیا، اس کے باوجود اسلام ومسلمین کی مصلحتوں کی رعایت کے پیش نظر سالهاسال تک خاموشی اختیار کر نے کے ضمن میں وقت کی حکومتوں کے ساتھـ ایک امانتدار مشاور کی حیثیت سے تعاون کیا-
پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کی رحلت سے پهلے آنحضرت صلی الله علیه وآله وسلم کی خواهش ، یعنی ایک وصیت لکهنے کے لئے قلم ودوات کو لانے کی درخواست میں رکاوٹ ڈالنے اور اس کی ممانعت کرنے کا واقعه ، تاریخ اسلام کے مشهور واقعات میں سے ایک هے اور اسے مختلف ناموں سے یاد کیاگیاهے، جیسے : " یوم الخمیس" کا واقعه یا" قلم ودوات" کا واقعه –یه واقعه برادران اهل سنت کی احادیث کی کتابوں میں متواتر صورت میں درج هے- اور اس قضیه میںحضرت علی علیه السلام کی خاموشی اس کے واقع نه هونے کی کوئی دلیل نهیں هے بلکه دیکهنا چاهئے که اس کی وجه کیا تهی اور کیا یه خاموشی حضرت علی علیه السلام کی شجاعت کے ساتھـ منافات رکهتی هے یا اسلام کی مصلحتوں کی حفاظت کے لئے تهی ، وهی مصلحتیں جن کے لئے آپ(ع) نے اپنے حق سے دستبرداری کی ، اور یه خاموشی حضرت (ع) کی بے مثال شجاعت سے کوئی منافات نهیں رکهتی هے-
بهتر هے که مطلب کو واضح کر نے کے لئے پهلے " قلم ودوات" یا " یوم الخمیس" (جمعرات کادن) کے نام سے مشهور اصل واقعه کو بیان کریں:
سلسله محدثین اهل سنت کے نامور اور شخصیت صحیح بخاری کے مصنف ، امام بخاری ،ابن عباس سے یوں روایت نقل کرتے هیں :
" رسول الله(ص) کی وفات کے قریب ، کچھـ لوگ ، من جمله عمر بن خطاب پیغمبر(ص) کے گهر میں حاضر تهے، آنحضرت (ص) نے فر مایا: قلم وکاغذ لائیے تاکه میں ایک ایسی چیز لکھـ دوں که اس کے بعد هرگز گمراه نه هوجاٶگے،عمر بن خطاب نے کها : درد نے پیغمبر(ص) پر غلبه کیا هے، همارے پاس خدا کی کتاب هے جو همارے لئے کافی هے!! " اهل بیت(ع) اور رسول الله (ص) کے گهر کے اندر موجود افراد نے اس بات سے اختلاف کیا ، کچھـ افراد نے عمر کی تائید کی اور کچھـ افراد نے اس کی مخالفت کی – چونکه اختلاف اور جهگڑا بڑھـ گیا ، اس لئے پیغمبر(ص) نے فر مایا : میرے بالین سے دور هوجاٶ ، شائسته نهیں هے که میرے سامنے لڑائی جهگڑا کیا جائے[1]-"
امام بخاری ، ابن عباس سے ایک اور جگه پر نقل کرتے هیں که ابن عباس نے کها : " تمام مشکلات اور بد بختیاں اس زمانه سے شروع هوئیں ، جب پیغمبر(ص) ، آپ (ص) کے گهر میں برپا هوئی اس لڑائی جهگڑے کی وجه سے اپنی آخری وصیت نه کرسکے[2] –"
یه واقعه ، جمعرات کے دن، یعنی پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کی رحلت سے چار دن پهلے ، رونما هوا- یه جاننا دلچسپی سے خالی نهیں هے که پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم نے حضرت علی علیه السلام کی ولایت کے خلاف هر قسم کی مخالفت کو ختم کر نے کے لئے کچھـ لوگوں ، من جمله ابو بکر، عمر، عثمان ، ابو عبیده جراح، طلحه ،زبیر، عبدالرحمن بن عوف اور سعد بن وقاص [3]کو اسامه کی سپاه کے ساتھـ مملکت اسلام کے دورترین سرحد (روم کی سرحد) پر روانه کیا تھا- اسکے باوجود که پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کی وفات کے قریب حکومت کے مرکز کو فوجی افراد سے خالی کرنے کا کام بظاهر خلاف مصلحت تها اور ممکن تها که تازه اسلام لائے افراد، همسائے اور اطراف کے قبائل بغاوت کرتے، لیکن جس تنها امر نے پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآلهوسلم کے لئے اس فیصله کو منطقی بنایا تها، وه امام علی علیه السلام کی جانشینی کے مخالفین کو مدینه سے دور کرنا تها- اس فوج کی تشکیل پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کی وفات سے چند روز قبل آنحضرت صلی الله علیه وآله وسلم کے حکم سے انجام پائی اورآپ(ص) نے فرمایا : "اسامه کی سپاه سے نافرمانی کرنے اور اس کی همراهی نه کر نے والے کو خداوند متعال لعنت کرے[4]-" اس کے مقابل میں حضرت علی علیه السلام کی جانشینی کے حامیوں ،جیسے عمار، مقداد ، اور سلمان کو اس سپاه میں شرکت کر نے سے مستثنی اورمعاف قرار دیا گیا تها اور اس سپاه میں حضرت علی علیه السلام کا کهیں نام تک نهیں تها[5]-
ان تمام مقدمات کے باوجود ، پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کے بارے میں رحلت کی ایک افواه پهیلنے کے نتیجه میں اسامه کی سپاه سے بعض بهاگ کر مدینه لوٹ آئے اور پیغمبر صلی الله علیه وآله وسلم کے گهر میں جمع هوگئے اور جمعرات کا یه واقعه رونما هو-
تاریخ نے ان افراد کا نام لیا هے، جنهوں نے عمر کا اعتراض کیا ، ان میں جابر بن عبدالله انصاری بهی تهے[6]-
اس واقعه کے بارے میں ابن عباس کی روایت کا ایک بار پهر مطالعه کر نے سے واضح هوتا هے که پیغمبراکرم صلی الله علیه وآله وسلم کے ان حالات کے پیش نظر اس وقت لڑائی جهگڑا کهڑا کر نا هر گز مناسب نهیں تها اور پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کے توسط سے وصیت نه لکهے جانے کا سبب بهی یهی لڑائی جهگڑا تها-
اگر عمر بن خطاب اس قسم کا اعتراض نه کرتے اور رسول خدا صلی الله علیه وآله وسلم کے سامنے یه دنگا فساد رونما نه هوتا تو اس صورت میں آنحضرت صلی الله علیه وآله وسلم ضروراپنی وصیت لکهتے-
اب حضرت علی علیه السلام کے اس جهگڑے میں مداخلت نه کر نے کی وجه معلوم هوتی هے، پیغمبر اسلام کی تعلیمات کی روح وحدت و تالیف قلوب تها[7]، حضرت علی(ع) کے لئے سزاوار نهیں تها که اس جگهڑے کو هوا دیتے، اس کے علاوه جنهوں نے پیغمبر صلی الله علیه وآله وسلم کی فر مائشات کو قبول نهیں کیا تها اور آپ(ص) پر بیماری کی شدت سے هذیان کهنے کی تهمت لگائی تهی ، ان سے کیا ضمانت تهی که علی علیه السلام کی بات کو قبول کرتے؟ اس کے علاوه بعض بزرگ صحابیوں ، جیسے جابر بن عبدالله انصاری نے خلیفه دوم کی اس پالیسی کی مخالفت کی لیکن گروه مخالف کے دباٶ کے سامنے مغلوب هوگئے- اس لئے ان حالات میں هر قسم کا منفی یا مثبت اظهار نظر جو پیغمبر اکرم کے حضور میں لڑائی اور جهگڑے کو هوا دیتا، قصعاً غلط تها –البته حضرت علی علیه السلام کی جانشینی اور وصی
هو نے کا امر کوئی مخفی اور نا گفته امر نهیں تها، کیونکه پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم نے بارها یوں اس کی تاکید فر مائی تهی ، که سب لوگ اس سے آگاه تهے اور ان پر شرعی حجت تمام هوچکی تهی " تاریخ الخلفاء" میں سیوطی نے ان احادیث کو جمع کیا هے – اس میں یه جمله " من کنت مولاه فعلی مولاه" کو ترمذی ، ابی سریحه یا زید بن ارقم سے نقل کیا هے ، اور جمله " اللّهم وآل من والاه وعادمن عاداه " کو احمد بن حنبل اور طبرانی سے اور انهوں نے ابن عمر ، مالک بن الحوریث ، جریر، سعد بن ابی وقاص، ابی سعید خدری، انس، ابن عباس وغیره سے نقل کیا هے-
اسی طرح "انت منّی بمنزلۃ هارون من موسی الاّ انّه لانبیّ بعدی" کے جمله کو احمد بن حنبل اور طبرانی سے مختلف طریقوں سے نقل کیا هے[8]-
چونکه "غدیر خم " کے عظیم واقعه کو ابهی صرف چند ماه سے زیاده عرصه نهیں گزرا تها، اور ممکن نهیں تها که اس مختصر مدت میں کوئی اس عظیم واقعه کو فراموش کرے ،اس لئے امام علی علیه السلام نے اس جهگڑے میں مداخلت کر نا ضروری نهیں سمجها اور اس کے علاوه آنحضرت صلی الله علیه واله وسلم کے گهر میں آپ(ص) کی بیماری کی حالت کی رعایت کر نے کے پیش نظر خاموشی اختیار کی ، لیکن اس کے بعد انهوں نے حق بات کهنے میں اجتناب نهیں کیا ، بلکه چنانچه احمد اپنی مسند میں (ج١،ص155) اور طبری نے اپنی تاریخ (ج2،ص466) میں اور دوسروں من جمله ابن کثیر اور ابن هشام نے نقل کیا هے که ابتداء میں بعض افراد نے خلافت کے بارے میں اس فیصله کے خلاف فاطمه زهراء (ع) کے گهر میں دهرنا لگایا، اور اس کے علاوه مسجد میں جاکر لوگوں سے قسم دیکر پوچها : کیا آپ لوگ غدیر خم کے واقعه کے شاهد نهیں تهے؟ بهت سے لوگوں (یا 30افراد) نے اس مطلب کی تائید کی اور شهادت دیدی[9]- یهاں تک که اتحاد اسلامی کو رخنه نه پهنچنے اور خونریزی نه هو نے کی حد تک حق کی راه میں کافی تلاش وکوشش کی گئی-
ممکن تها ان اعتراضات پر حضرت علی علیه السلام کا اصرار کرنا ، اندرونی اختلافات اور اسلام کے نونهال درخت کے نابود هو نے کا سبب بن جاتا ، کیونکه وه تازه پیغمبر صلی الله علیه وآله وسلم اور اپنے قائد سے محروم هوچکے تهے اور غدار دشمن اسلام کو جڑ سے اکهاڑ نے کے لئے گهات لگائے بیٹهے تهے- جیسا که تاریخ میں آیا هے که پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کی وفات کے بعد بهت سے عرب قبائل نے زکواۃ دینے سے روگردانی اور نا فر مانی کی اور مرتد هوئے[10]-
بیشک حضرت امام علی علیه السلام ، همیشه پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کی ناقابل برداشت زحمتوں کے ضائع هونے کے فکر مند تهے اور آپ (ع) نے خود اوراپنے خاندان کو اسلام کی مصلحتوں کے قربان کردیا تاکه اسلام باقی رهے اور بعد والی نسلوں تک پهنچ سکے –اسی لئے آپ(ع) نے سالها سال خاموشی اختیار کر نے کے ضمن میں رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم کے بعد والی حکو متوں کے ساتھـ ایک امین مشاور کی حیثیت سے تعاون کیا-
[1] - بخاری ، کتاب العلم ،باب کتابۃ العلم ،١/٢٢-٢٣: معالم المد رستین ،علامه عسکری ،ج١،ص١٤٠-
[2] - صحیح بخاری ،کتاب الاعتصام بالکتال والسنۃ ،باب کراهیۃ الخلاف وباب قول مریض: قوموا عنی از کتاب مرضی : معالم المدرستین ، علامه عسکری، ج١،ص١٤٠-
[3] - طبقات الکبری ، ج٢،ص١٨٩: پیامبر اعظم(ص) سیره وتاریخ ، جمعی از مٶلفان ،ص١٣١-
[4] - ملل ونحل ، شهرستانی ،ج١،ص١٤; به نقل از پیامبر اعظم(ص) ، جمعی از مٶلفان،ص١٣٢-
[5] - طبقات کبری ،ج٢،ص١٨٩: پیامبر اعظم(ص) سیره وتاریخ،ص١٣١-
[6] - هیثمی،مجمع الزوائد،ج٤،ص٣٩٠و ج٨،ص٦٠٩: پیامبر اعظم سیره وتاریخ،ص١٣٤-
[7] - قرآن مجید کی متعدد آیات ، مسلمانوں کو وحدت بر قرار کر نے اور لڑائی جهگڑا نه کر نے کی دعوت دیتی هیں : سوره انفال آیت نمبر ٤٦میں ارشاد الهی هوا هے : آپس میں جهگڑا نه کرو(اگر ایسا کیا) توشکست سے دوچار هوجاٶگے اور اپنی عزت کو کهو دوگے-
[8] - تاریخ الخلفاء ،سیوطی،ص١٥٧-
[9] - معالم المدرستین ،علامه عسکری،ج١،ص٤٨٩-
[10] - ایضاً ،ج١،ص١٦٥-