اصل میں قرضه حاصل کرنے کے لئے حاکم شرع سے اجازت لینے کى ضرورت نهیں هے، حتى اگر حکومتى بینک سے بھى هو اور وضعى حکم کے مطابق صیحح هے اگر چه سود کے ساتھـ بھى هو، لیکن سود والا قرضه هونے کى صورت میں اس کو حاصل کرنا تکلیفى لحاظ سے حرام هے، خواه قرضه مسلمان سے لیا جائے یا غیر مسلمان سے اور خواه یه اسلامى حکومت سے لیا جائے یا غیر اسلامى حکومت سے، مگر یه که قرضه لینے والا اس قدر مضطر هو جو حرام کے مرتکب هونے کو جائز بنائے اور حرام قرضه حاکم شرع کى اجازت سے لینے پر بھى حلال نهیں هوسکتا هے، بلکه اس کى اجازت اس سلسله میں کوئى وقعت نهیں رکھتى هے، لیکن شخص، حرا کے مرتکب هونے سے بچنے کے لئے اضافى رقم کو ادا کرنے کى نیت نهیں کر سکتا هے، باوجود یکه جانتا هو که اس سے یه رقم وصول کى جائے گى، بے سود قرضه لینے کا جائز هونا ضرورت اور ضطراب سے مخصوص نهیں هے ـ[1]
یعنى جب آپ یه قرضه لینے کے لئے مضطر هوں تو آپ کے لئے جائز هے اور قرضه لینے کے وقت نیت کرنى چاهئے که اضافى رقم ادا نهیں کروں گا ـ
اس نکته کى طرف توجه کرنا ضرورى هے که ، ریسٹورنٹ میں گاهکوں کو مباح اور حلال اجناس دینے چاهئے نه یه که حرام اجناس ، جیسے ، سور کا گوشت، شراب وغیره کو بیچنا وغیره ـ البته اس کا قرضه کے جائز یا نا جائز هونے سے کوئى ربط نهیں هے ـ