نماز کا ایک ظاهر هوتا هے اور ایک باطن هوتا هے۔ جس طرح اس کی ظاهری صورت کے ﻜﭽﮭ شرائط هوتے هیں اسی طرح اس کی باطنی سیرت کے بھی چند شرائط هیں۔
لهٰذا جس طرح نماز کے ظاهری شرائط مثلا لباس کی طهارت، روبقبله هونا، باوضو هونا وغیره نماز کے ظاهر کے صحیح هونے کا باعث هوتے هیں اسی طرح اس کے باطنی شرائط مثلا الله کی طرف توجه، خشوع و خضوع اور ٹھهراؤ وغیره کو انجام دینا نماز کے باطن کے صحیح هونے کا باعث هوتا هے، اور در حقیقت یهی نماز کے قبول هونے کا سبب بنتا هے۔
دوسری عبادتوں کے درمیان نماز کا مقام بهت هی بلند و برتر هے۔ یهاں تک که روایتوں میں اسے مؤمن کی معراج، یا دین کا ستون کها گیا هے اور یه تعبیریں اس الهی فریضه کی اهمیت پر دلالت کرتی هیں۔
دوسری طرف کسی چیز کے وجود میں آنے کے لئے ضروری هے که اس کے اسباب موجود هوں اور اس راه کی رکاوٹیں بھی برطرف هوں۔ اور نماز بھی اس قاعده سے مستثنی نهیں هے۔ نماز کے ظاهری اور باطنی آداب و شرائط کا لحاظ رﻜﮭ کر اس کے اسباب کو فراهم اور اس کی راه کی رکاوٹوں کو برطرف کیا جاسکتا هے۔
نماز کے باطنی شرائط کی گفتگو کافی وسیع هے لیکن اجمالی طور پر بعض کی طرف اشاره کیا جارها هے:
۱۔ عبادت کے مقصد اور الله کی طرف توجّه:
یعنی نماز گزارالله کی نسبتاً صحیح معرفت رکھتا هو اور یه نظر میں رکھے که کس کے سامنے کھڑا هوا هے۔ الله محض کمال هے اور جامع کمالات بلکه عین کمال هے اور الله کے کمالات میں ایک حکمت بھی هے۔ اسی لئے الله کے تمام افعال ایک مقصد کے تحت هیں ۔ الله کے افعال میں کائنات کی خلقت اور کائنات کے اندر اشرف المخلوقات انسان کی خلقت هے اور کائنات کی خلقت کا مقصد کمال تک پهنچنا هے ۔ یه حقیقت صراط مستقیم کے بغیر حاصل نهیں هوسکتی اور صراط مستقیم الله کی بندگی هی کا دوسرا نام هے ‹وَ اَنِ اعبُدُونی ھذا صِراطٌ مُستَقیم›[1] یعنی تمام الهی دستور اور قانون کی اطاعت کرنا جس میں سب سے اهم اور واضح ، عبادت کی صورت میں ظاهر هوتے هیں۔
اگر کوئی عبادت کا فلسفه هی نه جانتا هو تو ظاهر هے که اس سے استفاده بھی نهیں کرسکتا۔ اور عبادت کا فلسفه صرف دینی نگاه کی روشنی میں حاصل کیا جاسکتا هے۔
۲۔ ان چیزوں سے پرهیز جو عبادت کے منافی هیں:
مکمل طور پر اعمال کی تاثیر عملا انسان کے خلوص اور اس کی قلبی توجه سے وابسته هے اسی وجه سے انسانوں میں عبادت کی تاثیر بالکل الگ الگ هے۔
ان امور سے پرهیز کرنا انتهائی اهم هے جو عبادت کے منافی هیں اور عبادت کی تاثیر کو ختم کردیتے هیں۔ بالکل ان دو بیماروں کی طرح جو ڈاکٹر کے نسخه پر عمل کرتے هیں اور دونوں هی وقت پر دوا استعمال کرتے هیں لیکن ایک نقصان ده چیزوں سے پرهیز کرتا هے اور دوسرا پرهیز نهیں کرتا بلکه لاپروائی برتتا هے ایسی صورت میں ڈاکٹر کا نسخه دوسرے شخص کے لئے یا تو بے اثر هوگا یا کم اثر هوگا۔
همیں چاهئے که ظلمت پیدا کرنے والے اعمال (یعنی گناهوں) سے پرهیز کریں تاکه عبادت همارے اندر اثرانداز هو اور شگفتگی و شادابی کا باعث بنے۔ اسی لئے روایات میں آیا هے که جهاں تک ممکن هو گناهوں سے دور رهیں کیوں که گناهوں کے ساﭡﮭ ظلمت بھی انسان کے اندر داخل هوجاتی هے ‹اذا اذنب الرجل دخل فی قلبه نقطۃ سوداء›[2]۔
امام صاددق علیه السلام نے فرمایا هے که: ‹کان ابی (علیه السلام) یقول: ما من شیء أفسد للقلب من خطیئۃ، انّ القلب لیواقع الخطیئۃ فما تزال به حتّی تغلب علیه فیصیّر أعلاه أسفله›[3]۔
میرے والد [امام باقرعلیه السلام] فرماتے تھے: ‹دل کے لئے گناه سے زیاده کوئی چیز نقصان ده نهیں هے، بے شک دل گناه سے آلوده هوجاتا هے اور اسی حالت میں رهتا هے یهاں تک که گناه دل پر غالب هوجاتا هے اور پھر اسے الٹا کردیتا هے›۔
یعنی دل اپنی فطرت کے لحاظ سے الله کی طرف متوجه هوتا هے لیکن گناه کے اثرات اس کے چهرے کو الله کی طرف سے پلٹا دیتے هیں اور اسے شیطانی بنا دیتے هیں۔
امام صادق علیه السلام فرماتے هیں: ‹انّ الرّجل یذنب الذّنب فیحرم صلاۃ اللیل و انّ العمل السیّئ أسرع فی صاحبه من السّکّین فی اللّحم›[4]۔
گناه انسان کو نماز شب سے محروم کردیتا هے اور الله سے مناجات کی لذت کو سلب کرلیتا هے اور گنهگار میں گناه کی تاثیر گوشت میں تیز دھار چاقو کی تیزی سے بھی زیاده هوتی هے۔
۳۔ تهذیب نفس کی کوشش:
تهذیب نفس کا مقصد یه هے که ان پردوں کو هٹایا جائے جو انسان اور اس کی فطرت کے درمیان آگئے هیں اور خدا کا عکس دکھانے والے فطرت کے آئینه کو تجلّی سے روکتے هیں۔ یه پردے گناهوں، غفلتوں، مادیات میں غرق هونے، اور الله و قیامت کو بھولنے کے پردے هیں۔ شریعت میں وارد هونے والے تمام احکام کا ایک هی مقصد هے اور وه هے ان حجابات کو هٹانا یا هلکا کرنا اور فطرت و حقیقت کے گوهر کی تابانی کو سامنے لانا جو که گناه و غفلت کے خس و خاشاک میں دب کر ره گیا هے۔ ‹قد أفلح من زکّٰها و قد خاب من دسّاها›۔[5]
۴۔ مثبت کام انجام دینا:
ایک طرف تو بدن کے اندر سارے اختیارات روح کے پاس هیں اور تمام اعضاء و جوارح اس کے زیر فرمان هیں لیکن دوسری طرف بدن نورانیت کے ساﭡﮭ ساﭡﮭ ظلمتوں کا مسکن بھی هے اور انسان کے هر طرح کے اعمال سے متاثر بھی هوتا هے۔
روح پر مثبت اور منفی کاموں کا فوری اثر کسی سے پوشیده نهیں هے اور مثبت اعمال میں عبادت بھی آتی هے یعنی اگر انسان کی نورانیت کا درجه دس هو اور وه مثلا نماز شب پڑھے نیز لوگوں کی مشکلات حل کرنے کی کوشش کرے تو اس کے یه مثبت اعمال اس کی روح کی معنویت میں اضافه کا باعث بنیں گے اور یهی اس کی روح اور باطن کے مضبوط هونے کا سبب هوگا اور یه عظیم نورانیت اس کے لیئے عبادت مثلا نماز کے نشاط و سرور کے اسباب فراهم کرے گی، البته منفی اعمال میں اس صورت حال کی برعکس تاثیر بھی هوتی هے۔ ‹قل کل یعمل علی شاکلته›[6]۔
۵۔ الله سے دوستی:
دنیا سے دوستی اور مادی و ظاهری لذت سے حد درجه لگاؤ کی جڑ انسان کے گناه اور خطائیں هیں ‹حب الدنیا رأس کلّ خطیئۃ›۔ اس لئے جو چاهتا هے که اپنے دل کو گناهوں سے پاک کرے تو اسے چاهئے که ان کی جڑوں کو اکھاڑ پھینکے، کوشش کرے که دنیا کی محبت اس کے دل میں کم اور ظاهری لذتوں کی خواهش اس کے اندر متوازن هوجائے۔ اگر وه یه کام کرلے اور الله کی مدد سے اس بڑے کام میں کامیاب هوجائے تو اپنے آپ کو گناهوں سے پاک کرکے اس کی جگه الله اور اولیاء الله کی محبت قرار دے سکتا هے۔
نتیجه: اگر هم چاهتے هیں که نماز میں حضور قلب اور خضوع و خشوع پیدا هو تو همیں چاهئے که نماز کے باطنی آداب کی رعایت کریں، نورانی اعمال سے راسته هموار کرکے باطنی نور کو قوی بنائیں اور اپنے وجود کو اخلاقی بیماریوں سے پاک کریں تاکه عبادت کی لذت کو درک کرسکیں، کیونکه مریض مرض کے سبب اچھے کھانوں کی لذت کو احساس کرنے سے محروم اور لذیذ غذاؤں سے بے رغبت هوجاتا هے۔ البته ظاهر هے که ایسی غذائیں کھانا انسان کی شفایابی میں اثرانداز هوتی هیں۔ لهٰذا جیسا که درمیان بحث میں اس کی طرف اشاره هوا هے هماری نظر میں یه دونوں آپس میں ایک دوسرے پر اثرانداز هوتے هیں۔
مصادر:
۱۔ آداب الصلاۃ، امام خمینی (ره)۔
۲۔ راه ھای خروج از صفات رذیله، سید رحیم، توکل۔
۳۔ سرّ الصلاۃ، امام خمینی (ره)۔