ابی بن کعب، پیغمبراسلام{ص} کے مشہور ترین صحابی تھے.وہ تمام مسلمانوں، من جملہ شیعہ و سنی کی نظروں میں قابل احترام ہیں. شیعوں کی کتابوں میں ان کی محدود روایتیں ہیں اور علم رجال کی شخصیتوں نے انہیں اصحاب رسول خدا{ص} اور کاتبین وحی میں شمار کیا ہے.ان سے نقل کی گئی روایتوں کے پیش نظر، اہل بیت{ع} خاص کر امیرالمومنین حضرت علی{ع} کے ساتھ ان کی عقیدت معلوم ہوتی ہے.
ابی بن کعب، پیغمبراسلام{ص} کے مشہور ترین صحابی تھے اور قاریان قرآن مجید میں سے تھے اور قرآن مجید کی قرات کے ماہر تھے[1]۔ وہ تمام مسلمانوں، من جملہ شیعہ و سنی کی نظروں میں قابل احترام ہیں[2]۔ شیعوں کی کتابوں میں ان کی محدود روایتیں ہیں اور علم رجال کی شخصیتوں نے انہیں اصحاب رسول خدا{ص} اور کاتبین وحی میں شمار کیا ہے[3]۔ ان سے نقل کی گئی روایتوں کے پیش نظر، اہل بیت{ع} خاص کر امیرالمومنین حضرت علی{ع} کے ساتھ ان کی عقیدت معلوم ہوتی ہے۔
شیعوں کی کتابوں میں موجود ان کی نقل کی گئی روایتوں میں ، پیغمبراکرم{ص} کی جانشینی کے حوادث کے بارے میں ان کے بیانات ہیں کہ انہوں نے ، غدیر خم کے واقعہ اور خلافت کے موضوع کے بارے میں رسول خدا{ص} کی روایتوں کو جرات اور ہمت کے ساتھ مثالی صورت میں لوگوں کے لیے بیان کیا ہے اور خلافت کےغاصبوں پر اعتراض کیا ہے۔
طبرسی نے اپنی کتاب "احتجاج" میں ابی ابن کعب کے بیانات کو مفصل طور پر نقل کیا ہے، ہم خلاصہ کے پیش نظر اس کے چند اقتباسات کو ذیل میں نقل کرنے پر اکتفا کرتے ہیں:
" ابوبکر کے خطبہ کے بعد،رمضان المبارک کی پہلی تاریخ، جمعہ کے دن، ابی بن کعب اٹھے اور یوں تقریر کی: اے گروہ مہاجرین؛ آپ نے خداوندمتعال کی خوشنودی کو مدنظر رکھا ہے اور قرآن مجید میں خداوندمتعال نے آپ کی ستائش کی ہے، اور اے گروہ انصار؛ جو شہر ایمان میں ساکن ہو اور اسی لیے خداوندمتعال نے قرآن مجید میں آپ کی تعریف کی ہے، کیا آپ بھول گیے یا تجاہل عارفانہ کر رہے ہیں، کیا آپ نے عہد شکنی کی ہے یا اپنے دین کو بدل دیا ہے یا پستی اختیار کی ہے یا عاجز ہوئے ہیں؟؛ کیا آپ بھول گیے ہیں کہ {غدیر کےدن} رسول خدا{ص} ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور علی{ع} کو سب کے سامنے کھڑے کر کے فرمایا؛ " جس جس کا میں مولا ہوں، اس کے علی بھی مولا ہیں اور جس کا میں نبی ہوں علی اس کے ولی ہیں"؟؛ کیا آپ بھول گیے ہیں کہ رسول خدا{ص} نے فرمایا : " اے علی؛ میرے نزدیک آپ کا مقام موسی{ٰ} کے پاس ہارون{ع} کے مقام کے مانند ہے، صرف یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔ میرے بعد میری امت پر آپ کی اطاعت، میری زندگی میں میری اطاعت کے مانند واجب ہے؟"
کیا آپ نے پیغمبراکرم{ص} کا یہ ارشاد فراموش کردیا ہے کہ فرمایا: " اگر میں تمہارے درمیان نہ رہوں اور علی جیسے فرد کو آپ کا خلیفہ بنادوں تو سمجھنا کہ میں نے اپنا جیسا شخص تمہارے لیے منتخب کیا ہے۔"؟
کیا آپ بھول گیے کہ پیغمبراکرم{ص}نے اپنی رحلت سے پہلے ہمیں فاطمہ{ع} کے گھر میں جمع کر کے فرمایا: " خداوندمتعال نے حضرت موسی{ع} پر وحی نازل کی کہ اپنے رشتہ داروں میں سے ایک بھائی کو منتخب کر کے اسے نبی قرار دیں اور اس کے خاندان کو اپنا فرزند قرار دیں تاکہ میں اسے ہر بلا سے محفوظ رکھوں اور ہر شک و شبہہ سے پاک کردوں۔ موسی نے اپنے بھائی ہارون کو منتخب کیا اور ان کی اولاد کو اپنے بعد بنی اسرائیل کا رہبر قرار دیا ۔ اب خداوندمتعال نے مجھ پر وحی نازل فرمائی ہے کہ {ہارون کے بارے میں موسیٰ کے مانند} تم بھی علی{ع} کو اپنے بھائی کے عنوان سے منتخب کر کے ان کی اولاد کو اپنی اولاد شمار کرنا { یعنی امت کے امام قرار دینا} میں نے ان کو بھی ہارون کی اولاد کے مانند پاک کیا ہے، جان لیجیے کہ اے پیغمبر؛ میں نے نبوت کو آپ پر ختم کردیا ہے، آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آءے گا"، وہ اولاد ان ہی کے ائمہ ھدیٰ کے فرزند ہیں۔ خدا کی قسم آپ لوگوں نے پیغمبر{ص} کی رحلت کے بعد عہد شکنی کی ہے، اور آپ{ص} کی عترت کے مسئلہ پر اختلاف سے دوچار ہوئے اور دوسرے اس مسئلہ میں اپنی رائے اور نظریہ کا سہارا لینے لگے ہیں[4]۔"
یہ سب مطالب، ابی بن کعب کے حامی ولایت ہونے کی نشانی ہیں کہ پیغمبراکرم{ص} کی فہمائش کے مطابق حضرت علی {ع} کے بارے میں پابند تھے اور دوسروں کو بھی اس سلسلہ مِیں یاددہانی اور تاکید کرتے تھے۔ ابی بن کعب نے، رسول اللہ{ص} کی رحلت کے چند سال بعد وفات پائی ہے۔ ان کی وفات کی تاریخ کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے، بعض لوگ ان کی وفات کو عثمان کا زمانہ جانتے ہیں لیکن ابن حجر اپنی کتاب "الاصابہ" میں بیان کی گئی ترجیح کے مطابق قائل ہیں کہ انہوں نے سنہ ۲۲ ہجری میں، عمر کی خلافت کے دوران وفات پائی ہے[5]۔
آخر پر ہم یاددہانی کراتے ہین کہ شیعوں کی کتابوں میں ابی ابن کعب کی کوئی خاص روایتیں نہیں ہیں ، لہٰذا ہمیں ان کی روایتوں کے بارے میں اہل بیت{ع} کا نظریہ معلوم نہ ہوسکا۔
[1].ابن عبد البر، الاستیعاب فی معرفه الاصحاب، ج1، ص 65، دار الجلیل، بیروت، 1412ھ.
[2].اس کے مانند کہ اہل سنت کی کتابوں میں بیان کیا گیا ہے کہ خلیفہ دوم نے انہیں "سید المسلمین" کا خطابسیا ہے، ملاحظہ ہو:ابن اثیر، اسد الغابة، ج1، ص 61، دار الفکر، بیروت، 1409ھ.
[3].علامه حلی، کتاب رجال، ص 22، دار الذخائر، قم، 1411ھ.
[4].طبرسی، فضل بن حسن، احتجاج، ترجمه مازندرانی، ج 1، ص 254 تا 260، انتشارات اسلامیه، تهران، 1381ھ ش.
[5].عسقلانی، ابن حجر، الاصابة، ج1، ص 181، دار الکتب العلمیه، بیروت، 1415ھ.