سائٹ کے کوڈ
fa19653
کوڈ پرائیویسی سٹیٹمنٹ
72106
سوال کا خلاصہ
کیا یہ تاریخی واقعہ صحیح ہے کہ عثمان کے قتل کے سلسلہ میں امام علی (ع) نے ان کے دفاع اور حمایت کے لئے امام حسن اور امام حسین (ع) کو عثمان کے گھر بھیجدیا؟
سوال
عثمان کے قتل کے واقعہ میں، امام علی(ع) نے امام حسن اور امام حسین (ع) کو عثمان کے گھر بھیجدیا اور انھیں حکم دیا کہ عثمان کا دفاع کریں کہ اس سلسلہ میں امام حسن(ع) کی پیشانی پر خون کے دھبے لگ جاتے ہیں اور محمد بن ابوبکر کہتے ہیں کہ ہمیں پیچھے سے حملہ کرنا چاہئے، کیونکہ ممکن اس صحنہ کو دیکھ کر بنی ہاشم میدان میں اتر آئیں۔ کیا یہ واقعہ صحیح ہے؟ کیا یہ صحیح ہے کہ ایک جلیل القدر شخص اس قسم کے اہم موضوع کے سلسلہ میں امام (ع) کے حکم کی نافرمانی کریں؟
ایک مختصر
امام علی(ع) کی طرف سےعثمان کی حمایت اورامام حسن اور امام حسین کو عثمان کے گھر بھیجنے کا واقعہ بعض تاریخی منابع میں نقل کیا گیا ہے۔ لیکن اس موضوع کے بارے میں مورخین اور تجزیہ نگاروں اور محدثین نے نقدو نظر اور تحقیق کے پیش نظر اس واقعہ کے ظاہری پہلو کو دیکھے بغیر اس کی تفسیر و تجزیہ کیا ہے۔
علامہ امینی (رہ) کتاب " الغدیر" میں صراحت کے ساتھ کہتے ہیں کہ حضرت علی(ع) کی طرف سے عثمان کی حمایت اور اپنے بیٹوں کو ان کے گھر بھیجنے کی روایت جھوٹی اور جعلی ہے۔
بالفرض، اگر ہم حضرت علی (ع) کی طرف سے عثمان کے دفاع کو قبول کریں، تو حضرت علی (ع) کے صحیح اقدام اور آپ (ع) کے حقیقت پسندانہ موقف کے سلسلہ میں کہنا چاہئے کہ: عثمان کے دفاعی محاذ پر امام حسن اور امام حسین (ع) کا حاضر ہونا صرف اس لئے تھا کہ کوئی امام اور ان کے بیٹوں پر یہ الزام نہ لگا سکے کہ وہ عثمان کے خلاف انقلاب میں شریک تھے اور آپ (ع) پر عثمان کے قتل میں شریک ہونے کا الزام نہ لگاسکیں۔ اور بقول سید مرتضی(رہ) وہ عثمان کے قتل میں رکاوٹ بن جائیں اور عثمان اور ان کے خاندان تک پانی اور کھانا پہنچانے میں کوئی رکاوٹ نہ ڈال سکے۔
امام علی(ع) کا عثمان کے حق میں دفاع اس معنی میں نہیں ہے کہ حضرت (ع) ان کی حکومت کو قانونی اور شرعی جانتے تھے اور اسی لئے عثمان کا دفاع کیا ہے اور ان کے قتل ہونے میں رکاوٹ بنے ہیں، بلکہ بقول شہید مطہری، علی (ع) عثمان کی کارکردگی کے مخالف تھے لیکن اس مخالفت کے باوجود اس چیز کے بھی مخالف تھے کہ خلیفہ کشی کا باب نہ کھل جائے، وہ نہیں چاہتے تھے کہ خلیفہ قتل ہو جائیں اور مسلمانوں میں فتنہ برپا ہوجائے۔
علامہ امینی (رہ) کتاب " الغدیر" میں صراحت کے ساتھ کہتے ہیں کہ حضرت علی(ع) کی طرف سے عثمان کی حمایت اور اپنے بیٹوں کو ان کے گھر بھیجنے کی روایت جھوٹی اور جعلی ہے۔
بالفرض، اگر ہم حضرت علی (ع) کی طرف سے عثمان کے دفاع کو قبول کریں، تو حضرت علی (ع) کے صحیح اقدام اور آپ (ع) کے حقیقت پسندانہ موقف کے سلسلہ میں کہنا چاہئے کہ: عثمان کے دفاعی محاذ پر امام حسن اور امام حسین (ع) کا حاضر ہونا صرف اس لئے تھا کہ کوئی امام اور ان کے بیٹوں پر یہ الزام نہ لگا سکے کہ وہ عثمان کے خلاف انقلاب میں شریک تھے اور آپ (ع) پر عثمان کے قتل میں شریک ہونے کا الزام نہ لگاسکیں۔ اور بقول سید مرتضی(رہ) وہ عثمان کے قتل میں رکاوٹ بن جائیں اور عثمان اور ان کے خاندان تک پانی اور کھانا پہنچانے میں کوئی رکاوٹ نہ ڈال سکے۔
امام علی(ع) کا عثمان کے حق میں دفاع اس معنی میں نہیں ہے کہ حضرت (ع) ان کی حکومت کو قانونی اور شرعی جانتے تھے اور اسی لئے عثمان کا دفاع کیا ہے اور ان کے قتل ہونے میں رکاوٹ بنے ہیں، بلکہ بقول شہید مطہری، علی (ع) عثمان کی کارکردگی کے مخالف تھے لیکن اس مخالفت کے باوجود اس چیز کے بھی مخالف تھے کہ خلیفہ کشی کا باب نہ کھل جائے، وہ نہیں چاہتے تھے کہ خلیفہ قتل ہو جائیں اور مسلمانوں میں فتنہ برپا ہوجائے۔
تفصیلی جوابات
مام علی(ع) کی طرف سےعثمان کی حمایت اورامام حسن اور امام حسین کو عثمان کے گھر بھیجنے کا واقعہ بعض تاریخی منابع میں نقل کیا گیا ہے۔ لیکن اس موضوع کے بارے میں مورخین اور تجزیہ نگاروں اور محدثین نے نقدو نظر اور تحقیق کے پیش نظر اس واقعہ کے ظاہری پہلو کو دیکھے بغیر اس کی تفسیر و تجزیہ کیا ہے۔[1] کہ اس کا ایک خلاصہ ذیل میں بیان کیا جاتا ہے:
الف۔ اس روایت کا جعلی ہونا
1۔ علامہ امینی(رہ) اپنی کتاب "الغدیر" میں اس واقعہ کو بیان کرنے کے بعد صراحت کے ساتھ کہتے ہیں کہ امام علی (ع) کی طرف سے عثمان کی حمایت اور اپنے بیٹوں کو ان کے گھر بھیجنے کی روایت، جھوٹی اور جعلی روایتوں میں سے ہے۔ اور اس قسم کی روایتیں، دوسری متواتر اور مستحکم روایتوں سے تناقض رکھتی ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ امام علی (ع) اور بعض اصحاب رسول (ص) عثمان کی کار کردگی کی تنقید کرتے تھے۔ آپ (ع) نے نہ صرف اپنے بیٹوں کو عثمان کی پاسداری اور دفاع کے لئے نہیں بھیجا ہے، بلکہ ہمیشہ ان کے مخالفوں کے صف میں ہوا کرتے تھے اور ان کے غلط رویہ کی اصلاح اور ان کی حکومت کے طرز عمل کو قرآن و سنت پر لانے کے سلسلے میں اپنے اقدامات سے کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کیا ہے۔[2]
2۔ امام علی (ع) اور آپ (ع) کے فرزندوں کے بارے میں عثمان کے نامناسب برتاؤ، کے پیش نظر اس قسم کا اقدام بعید لگتا ہے۔ اس کے علاوہ امام اور ان کے بیٹے مہاجرین و انصار اوررسول خدا (ص) کے شائستہ صحابیوں سے دوری اختیار نہیں کرسکتے تھے اور ان کی مخالفت نہیں کرسکتے تھے۔[3]
3۔ سید مرتضی کے قول سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی اس سلسلہ میں شک و شبہہ رکھتے تھے کہ امام علی (ع) نے اپنے بیٹوں امام حسن اور امام حسین(ع) کو عثمان کے دفاع کے لئے بھیجا ہے۔ وہ کہتے ہیں:" اگر حضرت(ع) نے ان دونوں کو بھیجا ہوگا، تو وہ اس لئے تھا کہ عثمان کے قتل عمد میں رکاوٹ بنیں اور عثمان اور ان کے خاندان کو کھانا پانی بند کرنے میں رکاوٹ بنیں نہ یہ کہ انقلابیوں کے توسط سے ان کو اقتدار سے ہٹانے میں رکاوٹ بنیں۔"[4]
4۔ یہ جو کہا گیا ہے کہ: طلحہ اور زبیر نے بھی اپنے بیٹوں کو عثمان کے دفاع کے لئے بھیجا [5] اس کے جھوٹ ہونے میں کسی قسم کا شک و شبہہ نہیں ہے، کیونکہ طلحہ، زبیر اورعائشہ اور دوسرے افراد عثمان کے جانی دشمن تھے۔[6]
5۔ یہ جو کہا گیا ہے کہ عثمان کا دفاع کرتے ہوئے امام حسن (ع) زخمی ہوئے، اس روایت کے محتوی میں بھی شک و شبہہ پایا جاتا ہے، کیونکہ اگر چہ ممکن ہےکہ امام علی (ع) نے اپنے دونوں بیٹوں یا تنہا امام حسن (ع) کو عثمان کے دفاع کے لئے بھیجا ہو اور وہ دونوں عثمان کے پاس آکر اپنے باپ کی طرف سے دی گئی ماموریت سے انھیں آگاہ کرچکے ہوں، لیکن بظاہر عثمان نے ان دونوں کو مسترد کیا اور ان کی طرف سے دفاع کو قبول نہیں کیا ہے[7] جس طرح بعض تاریخی منابع میں آیا ہے:
علی(ع) نے اپنے بیٹے کو اپنے پاس بلاکر ان سے فرمایا: بیٹا! عثمان کے پاس جاؤ اور اسے کہدو کہ: میرے باپ کہتے ہیں کہ: کیا آپ چاہتے ہو کہ میں آپ کی مدد کروں؟ امام حسن (ع) نے اپنے باپ کا پیغام عثمان کو پہنچا دیا۔۔ عثمان نے جواب میں کہا: نہیں، میں ان کی مدد نہیں چاہتا ہوں، کیونکہ میں نے رسول خدا (ص) کو دیکھا ہے۔ ۔ ۔ امام حسن (ع) نے خاموشی اختیار کی اور واپس آکر عثمان کے جواب کو اپنے باپ کے پاس بیان کیا۔ ۔ ۔"[8]
ب: اس روایت کو قبول کرنے کی صورت میں اس کی تفسیر:
اگر امام علی (ع) کی طرف سے عثمان کے دفاع کو بالفرض قبول کریں، تو اس صورت میں حضرت علی (ع) کے صحیح عمل اور آپ (ع) کے حقیقت پسندانہ موقف کے سلسلہ میں بحث و تحقیق کی ضرورت ہے۔ لہذا ہم اس سیاسی تفسیر کے ایک خلاصہ کو ذیل میں بیان کرتے ہیں:
عثمان کے دفاعی محاذ پر امام حسن (ع) کا حضور، صرف اس لئے تھا کہ کوئی شخص امام علی (ع) اور آپ (ع) کے بیٹوں پر یہ الزام نہ لگا سکے کہ عثمان کے خلاف بغاوت میں ان کا ہاتھ تھا اور انھیں عثمان کے قتل میں شریک جانیں۔[9] یعنی سید مرتضی(رہ) کے مانند بزرگوں کی سیاسی تفسیر اور تجزیہ۔
وضاحت یہ کہ اگر چہ امام (ع) ،عثمان کی خلافت کی تائید نہیں کرتے تھے، اور ظلم و تعدی پر مبنی حکمراں طبقہ کی تمام کارکردگی سےمکمل طور پر باخبر تھے، بہرحال اس سلسلہ میں انفعالی روش کو چارہ کار نہیں جانتے تھے اور واقعہ کا علاج اس طریقہ سے مصلحت نہیں جانتے تھے۔ حضرت علی (ع) نے عثمان کے بارے میں فرمایا ہے:" اگر میں نے اس کے قتل کا حکم دیا ہوتا تو قاتل شمار ہوتا اوراگرانھیں روکتا تو اس کے حامیوں میں شمار ہوتا، لیکن جس نے اس کی مدد کی وہ یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ وہ ان لوگوں سے بہتر ہے جنھوں نے اس کی مدد کرنے سے اجتناب کیا ہے ۔ اور جنھوں نے اس کی مدد نہیں کی وہ نہیں کہہ سکتے ہیں کہ اس کی یاری کرنے والے ہم سے بہتر ہیں، میں عثمان کے قضیہ کو آپ کے لئے خلاصہ کے طور پر بیان کروں گا: اس نے مطلق العنانیت سے کام لیا، کتنی بُری مطلق العنانیت سے! اور آپ نارض ہوئے اور حد سے گزرے اور خداوند متعال نے اس سلسلہ میں ایک حکم دیا ہے جو مطلق العنانوں اور افراطبوں پر لاگو ہوتا ہے۔ ( ہر ایک اپنے برے اعمال کے رد عمل سے گرفتار ہوتا ہے۔)"[10]
امام علی (ع) نے اسی قسم کا موقف اختیار کیا تھا، کیونکہ ان حالات اور شرائط میں انقلابیوں کی عثمان کو قتل کرنے کی روش اسلام کی مصلحت میں نہیں ہوسکتی تھی۔ بلکہ اس کے برعکس اسلام کے پیکر پر ایک ناقابل تلافی اور کاری ضرب لگ سکتی تھی، کیونکہ اس قسم کا اقدام موقع پر ستون کو فرصت فراہم کرسکتا تھا جو مناسب موقع کی تلاش میں تھے اور معاشرہ پر حاکم سیاست نے لوگوں کے مفاہیم ، تفکرات، نظریات اور عقائد پر جو اثرات ڈالے تھے، اور ان کی زندگی پر مسلط جہل وضعف سے ناجائز فائدہ اٹھا کر اپنے ناپاک عزائم تک پہچنے کی کوشش کرتے، اور عثمان کی خونخواہی کا نعرہ بلند کرکے، امیرالمومنین علی بن ابیطالب کی ذات میں عینیت و تجسم شدہ اسلام کے خلاف صف آرا ہونے کے لئے،اسے دستاویز قرار دیتے اور حضرت(ع) کے مقابلے میں انتہائی بے شرمی کے ساتھ کھڑے ہوتے اور آپ (ع) کے باوفا صحابیوں کے بارے میں لوگوں میں شک و شبہات پیدا کرتے۔ یہی مسئلہ جنگ جمل، صفین اور نہروان واقع ہونے کا سرچشمہ تھا، جیسا کہ تاریخ نے ثبت کیا ہے۔
امیرالمؤمنین مکمل طور پر اس مطلب کو سمجھتے تھے اور اس سے آگاہ تھے، یہاں تک کہ جب یمن کے باشندے خلافت کے سلسلہ میں مبارکباد پیش کرنے کے لئے حضرت (ع) کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ (ع) نے ان سے فرمایا:" آپ یمن کے ریش سفید اور بزرگ ہیں، کاش کہ میں یہ جانتا کہ اگر ایک دن ایمان کے بارے میں ایک مسئلہ پیش آئے اور کوئی حادثہ پیش آئے، تو اس وقت آپ میں جنگ کرنے کی کس قدر طاقت ہوگی اور کس حد تک صبر و شکیبائی کا مظاہرہ کرسکتے ہو اور دشمن کے مقابلے میں کس قدر استقامت کرسکتے ہو!"[11] یعنی حضرت (ع) اسی وقت سے طمع خواروں گمراہوں کے ساتھ کئی جنگوں کے واقع ہونے کی توقع رکھتے تھے۔ان مسائل سے اس وقت مسلمان دوچار تھے اور ان کے مستقبل کے لئے بہت سے مصائب و مشکلات کا سبب بنے اور آج تک اسلامی معاشرہ ان ہی مصائب کے اثرات سے دوچار اور رنجیدہ ہے۔
امام علی (ع) ہر گز نہیں چاہتے تھے کہ عثمان اس نا مطلوب صورت میں قتل ہوجائیں، اور اگر آپ (ع) نے اپنے بیٹوں کو ان کے دفاع کے لئے بھیجا اور فرمایا کہ: خدا کی قسم میں نے اس قدر اس کا دفاع کیا کہ مجھے خوف ہوا کہ کہیں گناہگار نہ بن جاؤں"۔[12] بہرحال ، امام علی (ع) نہیں چاہتے تھے کہ ان کی طرف سے عثمان کا دفاع، عثمان اور ان کی خطاؤں کے بارے میں غلط فہمی پیدا ہونے کا سبب بنے، اس لئے، عثمان کے غلط کاموں کو بھی بیان فرماتے تھے۔[13]
قابل بیان ہے کہ محمد بن ابو بکر عثمان کی حکومت کے شدید مخالفین میں سے تھے اور وہ ان لوگوں میں سے تھے، جنھوں نے لوگوں کو عثمان کے خلاف اکسایا۔ بعض تاریخی منابع کی بناپر وہ عثمان کے قاتل نہیں ہیں، بلکہ ان لوگوں میں سے ہیں کہ عثمان کے گھر میں داخل ہوئے اور عثمان کو دھمکی دیدی کہ کیوں دین خدا میں انحراف پیدا کیا اور رسول خدا (ص) کی سنت کو نیست و نابود کرکے رکھ دیا؟ اس کے بعد محمد بن ابوبکر باہر آئے اور چند اہل مصر نے انھیں قتل کر ڈالا۔[14]
ج: نتیجہ:
1۔ امام علی علیہ السلام کے مجموعہ کلام اور رفتار سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ(ع) عثمان کی روش کے سخت مخالف تھے۔ اس کے باوجود عثمان کو خلیفہ کے مقام پر قتل ہونا معاشرہ کے لئے مصلحت نہیں سمجھتے تھے۔ عثمان کےقتل کے بعد امام علی (ع) اس کے منفی نتائج کے بارے میں فکر مند تھے۔
2۔ حضرت علی (ع) چاہتے تھے کہ عثمان اس راستہ پر نہ چلیں جس پر وہ گامزن تھے، بلکہ اس راستہ کو چھوڑ کر صحیح اور سنت پیغمبر (ص) کی راہ کو اختیار کریں، اگر ایسا نہ کریں تو ان کی جگہ پر وہ خلیفہ بن جائے جو خلافت کی شائستگی رکھتا ہو، اور عثمان کے جرائم کی تحقیقات کرے اور اس کے بعد ضروری حکم صادر کرے۔ اس لئے امام علی (ع) نے عثمان کے قتل کا حکم صادر نہیں کیا۔ امام علی (ع) کی تمام کوششیں یہ تھیں کہ کسی قسم کی خون ریزی کے بغیر، مخالفین کے مطالبات پورے کئے جائیں۔ یا عثمان اپنی گزشتہ روش کو چھوڑ دے اور یا خلافت سے کنارہ کشی کرے اور یہ کام اس عہدہ کے شائستہ فرد کو سونپے۔
3۔ امام علی (ع) کی طرف سے عثمان کا دفاع اس معنی میں نہیں ہے کہ حضرت(ع) ان کی حکومت کی تاید فرماتے تھے اور اسی لئے عثمان کا دفاع کرتے تھے اور ان کے قتل ہونے کو روکنے کی کوشش کرتے تھے، بلکہ بقول شہید مطہری" علی (ع) عثمان کی روش کے مخالف تھے، اور اس کے باوجود خلیفہ کشی کا باب کھلنے کے بھی مخالف تھے، وہ ہرگز نہیں چاہتے تھے کہ خلیفہ کو قتل کرنے کے بعد مسلمانوں میں فتنہ کی آگ بھڑک اٹھے۔"[15]
الف۔ اس روایت کا جعلی ہونا
1۔ علامہ امینی(رہ) اپنی کتاب "الغدیر" میں اس واقعہ کو بیان کرنے کے بعد صراحت کے ساتھ کہتے ہیں کہ امام علی (ع) کی طرف سے عثمان کی حمایت اور اپنے بیٹوں کو ان کے گھر بھیجنے کی روایت، جھوٹی اور جعلی روایتوں میں سے ہے۔ اور اس قسم کی روایتیں، دوسری متواتر اور مستحکم روایتوں سے تناقض رکھتی ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ امام علی (ع) اور بعض اصحاب رسول (ص) عثمان کی کار کردگی کی تنقید کرتے تھے۔ آپ (ع) نے نہ صرف اپنے بیٹوں کو عثمان کی پاسداری اور دفاع کے لئے نہیں بھیجا ہے، بلکہ ہمیشہ ان کے مخالفوں کے صف میں ہوا کرتے تھے اور ان کے غلط رویہ کی اصلاح اور ان کی حکومت کے طرز عمل کو قرآن و سنت پر لانے کے سلسلے میں اپنے اقدامات سے کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کیا ہے۔[2]
2۔ امام علی (ع) اور آپ (ع) کے فرزندوں کے بارے میں عثمان کے نامناسب برتاؤ، کے پیش نظر اس قسم کا اقدام بعید لگتا ہے۔ اس کے علاوہ امام اور ان کے بیٹے مہاجرین و انصار اوررسول خدا (ص) کے شائستہ صحابیوں سے دوری اختیار نہیں کرسکتے تھے اور ان کی مخالفت نہیں کرسکتے تھے۔[3]
3۔ سید مرتضی کے قول سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی اس سلسلہ میں شک و شبہہ رکھتے تھے کہ امام علی (ع) نے اپنے بیٹوں امام حسن اور امام حسین(ع) کو عثمان کے دفاع کے لئے بھیجا ہے۔ وہ کہتے ہیں:" اگر حضرت(ع) نے ان دونوں کو بھیجا ہوگا، تو وہ اس لئے تھا کہ عثمان کے قتل عمد میں رکاوٹ بنیں اور عثمان اور ان کے خاندان کو کھانا پانی بند کرنے میں رکاوٹ بنیں نہ یہ کہ انقلابیوں کے توسط سے ان کو اقتدار سے ہٹانے میں رکاوٹ بنیں۔"[4]
4۔ یہ جو کہا گیا ہے کہ: طلحہ اور زبیر نے بھی اپنے بیٹوں کو عثمان کے دفاع کے لئے بھیجا [5] اس کے جھوٹ ہونے میں کسی قسم کا شک و شبہہ نہیں ہے، کیونکہ طلحہ، زبیر اورعائشہ اور دوسرے افراد عثمان کے جانی دشمن تھے۔[6]
5۔ یہ جو کہا گیا ہے کہ عثمان کا دفاع کرتے ہوئے امام حسن (ع) زخمی ہوئے، اس روایت کے محتوی میں بھی شک و شبہہ پایا جاتا ہے، کیونکہ اگر چہ ممکن ہےکہ امام علی (ع) نے اپنے دونوں بیٹوں یا تنہا امام حسن (ع) کو عثمان کے دفاع کے لئے بھیجا ہو اور وہ دونوں عثمان کے پاس آکر اپنے باپ کی طرف سے دی گئی ماموریت سے انھیں آگاہ کرچکے ہوں، لیکن بظاہر عثمان نے ان دونوں کو مسترد کیا اور ان کی طرف سے دفاع کو قبول نہیں کیا ہے[7] جس طرح بعض تاریخی منابع میں آیا ہے:
علی(ع) نے اپنے بیٹے کو اپنے پاس بلاکر ان سے فرمایا: بیٹا! عثمان کے پاس جاؤ اور اسے کہدو کہ: میرے باپ کہتے ہیں کہ: کیا آپ چاہتے ہو کہ میں آپ کی مدد کروں؟ امام حسن (ع) نے اپنے باپ کا پیغام عثمان کو پہنچا دیا۔۔ عثمان نے جواب میں کہا: نہیں، میں ان کی مدد نہیں چاہتا ہوں، کیونکہ میں نے رسول خدا (ص) کو دیکھا ہے۔ ۔ ۔ امام حسن (ع) نے خاموشی اختیار کی اور واپس آکر عثمان کے جواب کو اپنے باپ کے پاس بیان کیا۔ ۔ ۔"[8]
ب: اس روایت کو قبول کرنے کی صورت میں اس کی تفسیر:
اگر امام علی (ع) کی طرف سے عثمان کے دفاع کو بالفرض قبول کریں، تو اس صورت میں حضرت علی (ع) کے صحیح عمل اور آپ (ع) کے حقیقت پسندانہ موقف کے سلسلہ میں بحث و تحقیق کی ضرورت ہے۔ لہذا ہم اس سیاسی تفسیر کے ایک خلاصہ کو ذیل میں بیان کرتے ہیں:
عثمان کے دفاعی محاذ پر امام حسن (ع) کا حضور، صرف اس لئے تھا کہ کوئی شخص امام علی (ع) اور آپ (ع) کے بیٹوں پر یہ الزام نہ لگا سکے کہ عثمان کے خلاف بغاوت میں ان کا ہاتھ تھا اور انھیں عثمان کے قتل میں شریک جانیں۔[9] یعنی سید مرتضی(رہ) کے مانند بزرگوں کی سیاسی تفسیر اور تجزیہ۔
وضاحت یہ کہ اگر چہ امام (ع) ،عثمان کی خلافت کی تائید نہیں کرتے تھے، اور ظلم و تعدی پر مبنی حکمراں طبقہ کی تمام کارکردگی سےمکمل طور پر باخبر تھے، بہرحال اس سلسلہ میں انفعالی روش کو چارہ کار نہیں جانتے تھے اور واقعہ کا علاج اس طریقہ سے مصلحت نہیں جانتے تھے۔ حضرت علی (ع) نے عثمان کے بارے میں فرمایا ہے:" اگر میں نے اس کے قتل کا حکم دیا ہوتا تو قاتل شمار ہوتا اوراگرانھیں روکتا تو اس کے حامیوں میں شمار ہوتا، لیکن جس نے اس کی مدد کی وہ یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ وہ ان لوگوں سے بہتر ہے جنھوں نے اس کی مدد کرنے سے اجتناب کیا ہے ۔ اور جنھوں نے اس کی مدد نہیں کی وہ نہیں کہہ سکتے ہیں کہ اس کی یاری کرنے والے ہم سے بہتر ہیں، میں عثمان کے قضیہ کو آپ کے لئے خلاصہ کے طور پر بیان کروں گا: اس نے مطلق العنانیت سے کام لیا، کتنی بُری مطلق العنانیت سے! اور آپ نارض ہوئے اور حد سے گزرے اور خداوند متعال نے اس سلسلہ میں ایک حکم دیا ہے جو مطلق العنانوں اور افراطبوں پر لاگو ہوتا ہے۔ ( ہر ایک اپنے برے اعمال کے رد عمل سے گرفتار ہوتا ہے۔)"[10]
امام علی (ع) نے اسی قسم کا موقف اختیار کیا تھا، کیونکہ ان حالات اور شرائط میں انقلابیوں کی عثمان کو قتل کرنے کی روش اسلام کی مصلحت میں نہیں ہوسکتی تھی۔ بلکہ اس کے برعکس اسلام کے پیکر پر ایک ناقابل تلافی اور کاری ضرب لگ سکتی تھی، کیونکہ اس قسم کا اقدام موقع پر ستون کو فرصت فراہم کرسکتا تھا جو مناسب موقع کی تلاش میں تھے اور معاشرہ پر حاکم سیاست نے لوگوں کے مفاہیم ، تفکرات، نظریات اور عقائد پر جو اثرات ڈالے تھے، اور ان کی زندگی پر مسلط جہل وضعف سے ناجائز فائدہ اٹھا کر اپنے ناپاک عزائم تک پہچنے کی کوشش کرتے، اور عثمان کی خونخواہی کا نعرہ بلند کرکے، امیرالمومنین علی بن ابیطالب کی ذات میں عینیت و تجسم شدہ اسلام کے خلاف صف آرا ہونے کے لئے،اسے دستاویز قرار دیتے اور حضرت(ع) کے مقابلے میں انتہائی بے شرمی کے ساتھ کھڑے ہوتے اور آپ (ع) کے باوفا صحابیوں کے بارے میں لوگوں میں شک و شبہات پیدا کرتے۔ یہی مسئلہ جنگ جمل، صفین اور نہروان واقع ہونے کا سرچشمہ تھا، جیسا کہ تاریخ نے ثبت کیا ہے۔
امیرالمؤمنین مکمل طور پر اس مطلب کو سمجھتے تھے اور اس سے آگاہ تھے، یہاں تک کہ جب یمن کے باشندے خلافت کے سلسلہ میں مبارکباد پیش کرنے کے لئے حضرت (ع) کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ (ع) نے ان سے فرمایا:" آپ یمن کے ریش سفید اور بزرگ ہیں، کاش کہ میں یہ جانتا کہ اگر ایک دن ایمان کے بارے میں ایک مسئلہ پیش آئے اور کوئی حادثہ پیش آئے، تو اس وقت آپ میں جنگ کرنے کی کس قدر طاقت ہوگی اور کس حد تک صبر و شکیبائی کا مظاہرہ کرسکتے ہو اور دشمن کے مقابلے میں کس قدر استقامت کرسکتے ہو!"[11] یعنی حضرت (ع) اسی وقت سے طمع خواروں گمراہوں کے ساتھ کئی جنگوں کے واقع ہونے کی توقع رکھتے تھے۔ان مسائل سے اس وقت مسلمان دوچار تھے اور ان کے مستقبل کے لئے بہت سے مصائب و مشکلات کا سبب بنے اور آج تک اسلامی معاشرہ ان ہی مصائب کے اثرات سے دوچار اور رنجیدہ ہے۔
امام علی (ع) ہر گز نہیں چاہتے تھے کہ عثمان اس نا مطلوب صورت میں قتل ہوجائیں، اور اگر آپ (ع) نے اپنے بیٹوں کو ان کے دفاع کے لئے بھیجا اور فرمایا کہ: خدا کی قسم میں نے اس قدر اس کا دفاع کیا کہ مجھے خوف ہوا کہ کہیں گناہگار نہ بن جاؤں"۔[12] بہرحال ، امام علی (ع) نہیں چاہتے تھے کہ ان کی طرف سے عثمان کا دفاع، عثمان اور ان کی خطاؤں کے بارے میں غلط فہمی پیدا ہونے کا سبب بنے، اس لئے، عثمان کے غلط کاموں کو بھی بیان فرماتے تھے۔[13]
قابل بیان ہے کہ محمد بن ابو بکر عثمان کی حکومت کے شدید مخالفین میں سے تھے اور وہ ان لوگوں میں سے تھے، جنھوں نے لوگوں کو عثمان کے خلاف اکسایا۔ بعض تاریخی منابع کی بناپر وہ عثمان کے قاتل نہیں ہیں، بلکہ ان لوگوں میں سے ہیں کہ عثمان کے گھر میں داخل ہوئے اور عثمان کو دھمکی دیدی کہ کیوں دین خدا میں انحراف پیدا کیا اور رسول خدا (ص) کی سنت کو نیست و نابود کرکے رکھ دیا؟ اس کے بعد محمد بن ابوبکر باہر آئے اور چند اہل مصر نے انھیں قتل کر ڈالا۔[14]
ج: نتیجہ:
1۔ امام علی علیہ السلام کے مجموعہ کلام اور رفتار سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ(ع) عثمان کی روش کے سخت مخالف تھے۔ اس کے باوجود عثمان کو خلیفہ کے مقام پر قتل ہونا معاشرہ کے لئے مصلحت نہیں سمجھتے تھے۔ عثمان کےقتل کے بعد امام علی (ع) اس کے منفی نتائج کے بارے میں فکر مند تھے۔
2۔ حضرت علی (ع) چاہتے تھے کہ عثمان اس راستہ پر نہ چلیں جس پر وہ گامزن تھے، بلکہ اس راستہ کو چھوڑ کر صحیح اور سنت پیغمبر (ص) کی راہ کو اختیار کریں، اگر ایسا نہ کریں تو ان کی جگہ پر وہ خلیفہ بن جائے جو خلافت کی شائستگی رکھتا ہو، اور عثمان کے جرائم کی تحقیقات کرے اور اس کے بعد ضروری حکم صادر کرے۔ اس لئے امام علی (ع) نے عثمان کے قتل کا حکم صادر نہیں کیا۔ امام علی (ع) کی تمام کوششیں یہ تھیں کہ کسی قسم کی خون ریزی کے بغیر، مخالفین کے مطالبات پورے کئے جائیں۔ یا عثمان اپنی گزشتہ روش کو چھوڑ دے اور یا خلافت سے کنارہ کشی کرے اور یہ کام اس عہدہ کے شائستہ فرد کو سونپے۔
3۔ امام علی (ع) کی طرف سے عثمان کا دفاع اس معنی میں نہیں ہے کہ حضرت(ع) ان کی حکومت کی تاید فرماتے تھے اور اسی لئے عثمان کا دفاع کرتے تھے اور ان کے قتل ہونے کو روکنے کی کوشش کرتے تھے، بلکہ بقول شہید مطہری" علی (ع) عثمان کی روش کے مخالف تھے، اور اس کے باوجود خلیفہ کشی کا باب کھلنے کے بھی مخالف تھے، وہ ہرگز نہیں چاہتے تھے کہ خلیفہ کو قتل کرنے کے بعد مسلمانوں میں فتنہ کی آگ بھڑک اٹھے۔"[15]
[1] ۔ملاحظہ ھو:ابن قتیبة دینوری، أبو محمد عبد الله بن مسلم، الإمامة و السیاسة المعروف بتاریخ الخلفاء، تحقیق: شیری، علی، ج 1، ص 52 – 62، دارالأضواء، بیروت، طبع اول، 1410ق؛ ابن اثیر، عز الدین أبو الحسن على بن ابى الكرم، الكامل فی التاریخ، ج 3، ص 167 – 175، دار صادر، دار بیروت، بیروت، 1385ق؛ ابن الطقطقى، محمد بن على بن طباطبا، الفخرى فى الآداب السلطانیة و الدول الاسلامیة، تحقیق: عبد القادر محمد مایو، ص 102 – 104، دار القلم العربى، بیروت، طبع اول، 1418ق.
[2] ۔ملاحظہ ھو: علامه امینی، عبدالحسین، الغدیر فی الكتاب و السنة و الأدب، ج 9، ص 331 – 338، مركز الغدیر للدراسات الاسلامیة، قم، طبع اول، 1416ق.
[3] ۔ عاملى، جعفر مرتضى، تحلیلى از زندگانى سیاسى امام حسن مجتبى علیه السلام، ترجمه: سپهری، محمد، ص 202، دفتر تبلیغات اسلامى، قم، طبع سوم، 1376ش.
[4] ۔ ابن أبی الحدید، عبد الحمید بن هبه الله، شرح نهج البلاغة، محقق و مصحح: ابراهیم، محمد ابوالفضل، ج 3، ص 8، و ج 2، ص 328 – 333، مكتبة آیة الله المرعشی النجفی، قم، طبع اول، 1404ق.
[5] ۔ الكامل فی التاریخ، ج 3، ص 172.
[6] ۔ تحلیلى از زندگانى سیاسى امام حسن مجتبى علیه السلام، ص 203.
[7] ۔ ملاحظہ ھو: ایضاً، ص 215 – 221.
[8] ۔«ثم دعا علی بابنه الحسن، فقال: انطلق یا ابنی إلى عثمان فقل له: یقول لك أبی: أ فتحب أن أنصرك! فأقبل الحسن إلى عثمان برسالة أبیه، فقال عثمان: لا ما أرید ذلك، لأنی قد رأیت رسول الله صلّى الله علیه و سلّم فی منامی فقال: یا عثمان! إن قاتلتهم نصرت علیهم، و إن لم تقاتلهم فإنك مفطر عندی، و إنی قد أحببت الإفطار عند رسول الله صلّى الله علیه و سلّم، فسكت الحسن و انصرف إلى أبیه فأخبره بذلك»؛ ابن اعثم كوفى، کتاب الفتوح، ج 2، ص 423، دار الأضواء، بیروت، چاپ اول، 1411ق.
[9] ۔ تحلیلى از زندگانى سیاسى امام حسن مجتبى علیه السلام، ص 202.
[10] ۔«لَوْ أَمَرْتُ بِهِ لَكُنْتُ قَاتِلًا أَوْ نَهَیتُ عَنْهُ لَكُنْتُ نَاصِراً غَیرَ أَنَّ مَنْ نَصَرَهُ لَا یسْتَطِیعُ أَنْ یقُولَ خَذَلَهُ مَنْ أَنَا خَیرٌ مِنْهُ وَ مَنْ خَذَلَهُ لَا یسْتَطِیعُ أَنْ یقُولَ نَصَرَهُ مَنْ هُوَ خَیرٌ مِنِّی وَ أَنَا جَامِعٌ لَكُمْ أَمْرَهُ اسْتَأْثَرَ فَأَسَاءَ الْأَثَرَةَ وَ جَزِعْتُمْ فَأَسَأْتُمُ الْجَزَعَ وَ لِلَّهِ حُكْمٌ وَاقِعٌ فِی الْمُسْتَأْثِرِ وَ الْجَازِعِ»؛ سید رضی، نهج البلاغه، مصحح: عطاردی، عزیزالله، ص 39، بنیاد نهج البلاغه، بی جا، طبع اول، 1372ش.
[11] ۔«إنكم صنادید الیمن و ساداتها فلیت شعری إن دهمنا أمر من الأمور كیف صبركم على ضرب الطلا و طعن الكلأ؟»؛ کتاب الفتوح، ج 2، ص 440 و 441.
[12]۔ «وَ اللَّهِ لَقَدْ دَفَعْتُ عَنْهُ حَتَّى خَشِیتُ أَنْ أَكُونَ آثِماً»؛ نهج البلاغه، ص 303.
[13] تحلیلى از زندگانى سیاسى امام حسن مجتبى علیه السلام، ص 204 – 214، با تلخیص و ویرایش.
[14] ۔ ملاحظہ ھو:ابن كثير دمشقى، البداية و النهاية، ج 7، ص 184 و 185، دار الفكر، بیروت، بی تا؛ مسعودی، أبو الحسن على بن الحسين بن على، مروج الذهب و معادن الجوهر، تحقيق: اسعد داغر، ج 2، ص 345، دار الهجرة، قم، طبع دوم، 1409ق.
[15] ۔ طهری، مرتضی، مجموعه آثار، ج 16، ص 595، انتشارات صدرا، تهران، طبع چهارم، 1380ش.