قرآن مجید کے مطابق عورت کی منزلت بهت بلند هےـ قرآن مجید، خلقت کے لحاظ سے مرد اور عورت کو ایک هی جنس سے اور انسانی گوهر کی بنیاد پر یکسان جانتا هے ـ
قرآن مجید نے بعض عورتوں کے نام بیان کئے هیں جن پر خداوند متعال کا خاص لطف و کرم شامل حال رها هے اور فرشتے ان سے گفتگو کرتے تھے اور لوگوں کے لئے راه خدا میں ایمان و استقامت کے نمونوں اور مثال کے طور پر معرفی کی گئی هیں اور اس سلسله میں حضرت مریم(ع) اور فرعون کی بیوی سے مربوط آیات کی طرف اشاره کیا جاسکتا هے ـ
یه جو بعض خصوصیات اور توانایئوں میں عورت کی به نسبت مرد برجسته تر هے اور عورت بھی بعض صفات میں مرد سے قوی تر هے، یه ان میں سے کسی کے قوی یا ضعیف هونے کی دلیل نهیں هے اور اصلا اس جهت سے مرد اور عورت کے درمیان موازنه اور مقائسه کرنا صیحح نهیں هے ـ کیونکه جس طرح مرد کا باپ (مسئول نفقه) هونا، اقتضا کرتا هے که عورت کی به نسبت زیاده جسمانی طاقت کا حل هو، اسی طرح عورت کا ماں (بچه کے رشد و تربیت کی مسئول) هونا، اقتضا کرتا هے که مرد کی به نسبت عورت زیاده جذبات اور عطوفت کی مالک هو، اور یه وهی عدل هے جس کے معنی هر چیز کا اپنی جگه پر قرار پانا هے ـ
لطیف اور ضعیف هونا، نسبتی اور قابل تشکیک امور میں سے هیں، یعنی ایک چیز کسی چیز کی به نسبت کھردری اور قوی شمار هوسکتی هے لیکن وهی چیز دوسری چیز کی به نسبت لطیف اور ضعیف هوسکتی هےـ نمونه کے طور پر قرآن مجید کی منطق میں انسان ایک ضعیف و کمزور مخلوق شمار کیا گیا هے: "خداوند متعال آپ کے بوجھـ کو هلکا کرناچاهتا هے، کیونکه انسان ناتوان پیدا کیا گیا هے"ـ لیکن واضح هے که یهی انسان، اپنی اطراف میں پائے جانے والی بهت سے مخلوقات کی به نسبت قوی شمار هوتا هے ـ
بهر حال، مرد اور عورت انسان کی دو صنفیں هیں، جن میں ایک دوسرے کی به نسبت تفاوتیں اور فضیلتیں پائی جاتی هیں ـ یه دونوں جسمانی لحاظ سے اور فیزبالوجی کے حالات کے مطابق آپس میں متفاوت هیں، اس لئے خاص فرائض انجام دینے کے لئے پیدا کئے گئے هیں ـ یه تفاوت ــــ نه امتیاز ــــ عین حکمت اور انسانی نسل کا سلسله جاری رکھنے کے لئے هے، اور یه اس معنی میں نهیں هے که عورتوں کے لئے کمال کا راسته مسدود یا محدود هے، عورتوں کی ایک بنیادی خصوصیت انفعالی ذهنیت اور عواطف و جذبات کے سلسله میں جلدی اثر قبول کرنا هے، اس لئے شادی، ناراحتی، رونے اور هنسنے جیسے جذباتی مسائل میں مردوں کی به نسبت جلدی منفعل هوتی هیں ـ
لهذا خداوند متعال نے عورتوں کی فطرت اور فرائض کے پیش نظر ان میں لطافت و ظرافت قراردی هے تاکه وه اپنی ذمه داریوں کو نبھا سکیں اس لئے عورت مرد کی به نسبت لطیف و ضعیف تر مخلوق هے ـ
اس سوال کے جواب کےسلسله میں چند نکات کی طرف توجه دلانا ضروری هے:
1ـ قرآن مجید کے مطابق عورت کی منزلت بهت بلند هے ـ قرآن مجید خلقت کے لحاظ سے مرد اور عورت کو ایک هی جنس سے اور انسانی گوهر کی بنیاد پر یکسان جانتا هے ـ
ارشاد الٰهی هے: "انسانو! اس پروردگار سے ڈر و جس نے تم سب کو ایک نفس سے پیدا کیا هے اور اس کا جوڑ ابھی اسی جنس سے پیدا کیا هے اور پھر دونوں سے بکثرت مرد و زن دنیا میں پھیلا دئے هیں "ـ[1]
قرآن مجید کی تعبیرات میں، فضیلت، انسانی قدروں، معنوی مقام اور صفات عالیه کی توانایئوں کو حاصل کرنے کے لحاظ سے مرد اور عورت میں کوئی فرق نهیں هے ـ اس سلسله میں قرآن مجید میں متعرد آیتیئں موجود هیں، ان میں سے بعض آیات میں یه مضمون ملتا هے : "جوشخص بھی نیک عمل کرے گا وه مرد هو یا عورت، بشرطیکه صاحب ایمان هو هم اسے پاکیزه حیات عطا کریں گے اور انھیں ان اعمال سے بهتر جزا دیں گے جو وه زندگی میں انجام دے رهے تھے"ـ[2]
قرآن مجید میں مرد کا باپ کے عنوان سے اورعورت کا ماں کے عنوان سے مسلسل ایک ساتھـ نام لیا گیا هے اور فرزند پر واجب کیا گیا هے که ان کا احترام کرے اور ان کی بے احترامی نه کرے اور حتی اگر ماں باپ مشرک بھی هوں، اس کے باوجود که ان کے شرک کی نصیحتیں قبول نه کرے لیکن ان کے ساتھـ نیکی سے پیش آئے اور هر جگه پر باپ اور ماں دونوں کی یکساں متائش کی گئی هے ـ
مرد اور عورت میں بلند انسانی قدروں کے بارے میں اشاره کرتے هوئے ارشاد هوتا هے:" بیشک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں اور مومن مرد اور مومن عورتیں اور اطاعت گزار مرد اور اطاعت گزار عورتیں اور سچے مرد اور سچی عورتیں اور صابر مرد اور صابر عورتیں اور فروتنی کرنے والے مرد اور فروتنی کرنے والی عورتیں اور صدقه دینے والے مرد اور دقه دینے والی عورتیں اور اپنی عفت کی خفاظت کرنے والے مرد اور عورتیں اور خدا کا بکثرت ذکر کرنے والے مرد اور عورتیں، الله نے ان سب کےلئے مغفرت اور عظیم اجر مهیا کر رکھا هے "ـ[3]
قرآن مجید نے بعض عورتوں کے نام بیان کئے هیں، جن پر خداوند متعال کا خاص لطف و کرم عنایت هوا هے اور فرشتے ان سے گفتگو کرتے تھے اور لوگوں کے لئے راه خدا میں ایمان و استقامت کے نمونوں اور مثال کے طورپر معرفی کی گئی هیں اور اس سلسله میں حضرت مریم (ع) اور فرعون کی بیوی[4] سے مربوط آیات کی طرف اشاره کیا جاسکتا هے:
"تو خدانے اسے (مریم کو) بهترین انداز سے قبول کرلیا اور اس کی بهترین نشونما کا انتظام فرمایا اور زکریا نے اس کی کفالت کی که جب زکریا محراب عبادت میں داخل هوئے تو مریم کے پاس رزق دیکھتے اور پوچھتے که یه کهاں سے آیا؟ اور مریم جواب دیتیں که یه سب خدا کی طرف سے هے ـ وه جسے چاهتا رزق بے حساب عطا کردیتا هے"ـ[5] اس کے بعد ارشاد فرمایا : ". . . جب ملائکه نے مریم کو آواز دی که خدا نے تمھیں چن لیا هے اور پاکیزه بنایا هے اور عالمین کی عورتوں میں منتخب قرار دیا ے "ـ[6]
2ـ لطیف و ضعیف کے معنی نسبتی هیں:
قابل ذکر بات هے که لطیف و ضعیف هونا لازم و ملزوم نهیں هے، یعنی ایسا نهیں هے جهاں پر ان دو میں سے ایک هو تو دوسرا بھی اس کے ساتھـ هونا چاهئے، یعنی ممکن هے کوئی کھردری مخلوق هو لیکن ضعیف هو اور اس کے برعکس کیونکه یه دونوں قابل جمع بھی هیں یعنی کوئی مخلوق لطیف بھی هوسکتی هے اور ضعیف بھی ـ
یه دونوں نسبتی اور قابل تشکیک امور سے مربوط هیں، یعنی ایک چیز کسی دوسری چیز کی به نسبت کھردری اور قوی هوسکتی هے لیکن وهی چیز کسی تیسری چیز که به نسبت لطیف اور ضعیف هوسکتی هے ـ مثال کے طور پر قرآن مجید کی منطق میں انسان کو ایک ضعیف مخلوق شمار کیا گیا هے: "خدا چاهتا هے که تیرے بوجھـ کو هلکا کرے، کیونکه انسان کو ناتوان پیدا کیا گیا هے ـ"[7] لیکن یهی انسان بهت سی مخلوقات کی به نسبت قوی شمار هوتا هے ـ وه ایسے کام انجام دیتا هے که بهت سی قوی مخلوقات ان کاموں کو انجام ینے سے عاجز هیں، اس سلسله میں قرآن مجید میں مزید ارشاد هوتا هے که: "اور ایک شخص نے، جس کے پاس کتا ب کا ایک حصه علم تھا، اس نے کها که میں اتنی جلدی میں اس (تخت بلقیس) کو (یمن سے) آپ کے پاس (فلسطین میں) لے آوں گا که آپ کی پلک بھی نه جھپکنے پائے :"[8] [9]
پس فیصلوں میں معیاروں کو بیان کیا جانا چاهئے، یعنی اگر ایک معیار اور اصول کے مطابق مثال کے طور پر کسی مخلوق کے جسم کی توانائی ضعیف تر هے تو ممکن هے کسی دوسرے اصول اور معیار کے مطابق مثال کے طور پر علمی توانائی کے مطابق قوی تر شمار هو اور. . .
3ـ عورت اور مرد اگر چه ایک هی نوع سے تعلق رکھتے هیں اورانسان کے لئے، انسان کی حیثیت سے تکوین و تشریع کے لحاظ سے ان کا ایک نوع هونا ثابت هے، لیکن قابل توجه بات هے که یه دو ضف، ایک دوسرے کی به نسبت بعض تفاوت اور فضیلتیں رکھتی هیں ـ وه جسمانی اور فیزیالوجی کے حالات ( physiological conditions) کے لحاظ سے آپس میں متفاوت هیں، اسی لئے مختلف فرائض انجام دینے کے لئے پیدا کئے گئے هیں ـ یه تفاوت ــــ نه امتیاز ـــــ عین حکمت هے اور انسانی نسل کو جاری رکھنے کے لئے هے اور اس معنی میں نهیں هے که عورتوں کے لئے کمال کی راه مسدود یا محدود هو عورت کی ناقابل تفکیک ذهنی خصوصیت، عواطف اور جذبات کے مقابلے میں اس کا انفعالی ردعمل اور عواطف و جذبات کے سلسله میں جلدی اثر قبول کرنا هے، اس لئے شادی، ناراحتی، رونے اور هنسنے جیسے جذباتی مسائل میں مردوں کی به نسبت جلدی منفعل هوتی هیں ـ
دوسرے الفاظ میں، عورتوں کی خلقت اور سرشت مهرو محبت هے، یه بذات خود عورت کے بارے میں ایک مثبت چیز اور قدر وقیمت هے ـ عورت میں جذباتی پهلو هونا ذاتی طور پر اس کی عقلی و فکری قوت کے مساوی هونے میں کوئی رکاوٹ نهیں هے اور عورت بھی مرد کے مانند نظری عقل کی مالک هوسکتی هے اور عقل و شعور کے پهلو کے لئے اس کی عطوفت و جذبات مانع نهیں بن سکتے هیں ـ البته ممکن هے عورتوں کو مردوں کی به نسبت عواطف پر قابو پانے کے لئے زیاده مشق کرنے کی ضرورت هو ـ[10] عورت اورلڑکی چونکه بهت هی لطیف مخلوق هیں اور حضرت علی علیه السلام کی فرمائش کے مطابق :"عورت پھول هے نه بهادر" ـ[11] اس لئے حساس اور مرجھانے کے قابل هے اور ممکن هے هوا کے ایک جھونکے سے بکھر جائے، اسی لئے اسے اپنے بارے میں خاص توجه اور هوشیاری برتنی چاهئے ـ
اگر بعض خصوصیات اور توانایئوں میں مرد عورت کی به نسبت برجسته تر هے، تو عورت بھی بعض خصوصیات میں مرد سے قوی تر هے ـ پس دونوں میں سے کوئی بھی مطلق طور پر قوی یا ضعیف نهیں هے اور اصلاً اس لحاظ سے مرد اور عورت میں موازنه کرنا صیحح نهیں هے ـ کیونکه جس طرح مرد کا باپ (مسئول نفقه) هونا، اقتضا کرتا هے که عورت کی به نسبت زیاده جسمانی طاقت کا حامل هو، اسی طرح عورت کا ماں(بچه کے رشد و تربیت کی مسئول) هونا، اقتضا کرتا هے که مرد کی به نسبت عورت زیاده جذبات اور عطوفت کی مالک هو، اوریه وهی عدل هے جس کی تعریف هر چیز کا اپنی جگه پر قرار پانا هے ـ
جی هاں! عورت کی فطرت کے مطابق جو فرائض اس کے ذمه هیں ان کے پیش نظر خداوند متعال نے اس کے وجود میں ایک لطافت و ظرافت قراردی هے تاکه وه اپنی ذمه داری کو بخوبی نبھا سکے ـ لیکن مذکوره مطالب کے پیش نظر اگر پھر بھی کوئی شخص ان دو کے درمیان موازنه کرنا چاهے تو وه اس نتیجه پر پهنچے گا که عورت، مرد کی به نسبت ایک لطیف اور ضعیف تر مخلوق هے ـ
[1] سوره نساء 1.
[2] سوره نحل، 97.
[3] 3ـ سوره احزاب/ 35
[4] سوره تحریم، 11 (اور خدا نے ایمان والوں کے لئے فرعون کی زوجه کی مثال بیان کی هے که اس نے دعا کی که پروردگار میرے لئے جنت میں ایک گھر بنادے اور مجھے فرعون اور اس کے کاروبار سے نجات دلا دے اور اس پوری ظالم قوم سے نجات عطا کردے)
[5] سوره آل عمران، 37.
[6] سوره آل عمران، 42.
[7] سوره نساء، 28.
[8] سوره نمل، 40.
[9] مکارم شیرازی، تفسیر نمونھ، ج 15، 469. (دوسرا آدمی ایک صالح مرد تھا که "کتاب الٰهی" کے بارے میں قابل توجه آگاهی رکھتا تھا ـ چنانچه قرآن مجید اس کے بارے میں ارشاد فرماتاهے" جس کے پاس کتاب کا ایک حصه علم تھا اس نے کها: میں اس کے تخت کو پلک جھپکنے سے پهلے لے آوں گا! اور جب سلیمان (ع) نے اس امر کی موافقت کی تو اس شخص نے اپنی معنوی طاقت سے استفاده کرکے ملکه سبا کے تخت کو پلک جھپکنے کے دوران اس کے پاس حاضر کیا ـ جب سلیمان (ع) نے اسے اپنے پاس پایا تو شکر پروردگار میں زبان کھولی اور کها: یه میرے پروردگار کے فضل سے هےـ تاکه همارا امتحان کرے که کیا هم اس کی نعمت کا شکر بجالاتے هیں یا کفران نعمت کرتے هیںـ ؟!
یه شخص حضرت سلیمان (ع) کے نزدیک اور باایمان افراد میں سے تھا اور غالباً تاریخ میں اس کا نام "آصف بن برخیا" لکھا گیا هےـ اور کها جاتا هے که وه حضرت سلیمان کا وزیر اور ان کا بھانجا تھا)
[10] ایضاً، ص 353
[11] اصول کافی، ج 5، ص 510. باب اکرام زوجھ: <<. . . فان المراه ریحانھ ولیست بقھرمانھ . . .>>