اھل سنت کے برخلاف شیعوں کا اعتقاد ھے کھ امام ، مسئلھ وحی کے بغیر تمام امور میں پیغمبر صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم کے برابر ھے ، اس بنا پر پیغمبر (ص) کے مانند خطا ، لغزش اور گناه سے پاک و منزه یعنی معصوم ھیں. پیغمبر اسلام صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم اور دوسرے انبیاء علیھم السلام بھی ایسے ھی تھے۔ٓ
لیکن اھل سنت ، پیغمبر اکرم صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم کی جانشینی کو ایک اجتماعی عطیھ و مقام جانتے ھیں نھ کھ ایک الھی منصب، ان کی نظر میں یھ منصب لوگوں کی طرف سے خلیفھ کو عطا ھوتا ھے اور خلیفھ لوگوں کی طرف سے اس منصب پر فائز ھوتا ھے اس لئے ان کے اعتقاد کے مطابق خلیفھ کیلئے معصوم ھونا ضروری نھیں ھے
شیعوں کے عقلی و روایتی دلائل
۱۔ عقل سلیم کے حکم کے مطابق ، امام کو ھر حیثیت میں لوگوں کی طرف سے سو فیصدی قابل اعتماد اور ھر قسم کی خطاء و انحراف سے معصوم ھونا چاھئے. کیونکھ وه انبیاء کی شریعت و رسالت کو بیان کرنے والا ھوتا ھے. تا کھ وه انبیاء علیھم السلام کے دین اور ان کے احکام کی حفاظت کرسکے چونکھ انبیاء اور ائمھ علیھم السلام کو بھیجنے کا مقصد تعلیم و تربیت ھے. اور اس کیلئے خداوند متعال کی طرف سے ان کو عطا ھونے والے سرشار علم کی ضرورت ھے تا کھ یھ الھی علم کسی کمی بیشی کے بغیر لوگوں تک پھنچایا جاسکے اور یھ علم ھر قسم کی تحریف سے محفوظ ھونا چاهیئے. مزید منصب امامت متقاضی ھے کھ امام معصوم ھو.
۲۔ آیات و روایات پر مشتمل ایسے قابل اعتبار دلائل موجود ھیں، جن سے امام کی عصمت ثابت ھوتی ھے۔ اس سلسلھ میں ، آیھ تطھیر ، آیھ امامت و اطاعت کے علاوه حدیث ثقلین اور حدیث منزلت قابل ذکر ھیں ۔
اس کے علاوه شیعوں کا اعتقاد ھے کھ امامت ، جو پیغمبر اکرم صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم کی جانشینی ھے ، نبوت کے مانند ایک انتصابی مقام ھے نھ کھ انتخابی ، اور اس منصب کا عھده دار خداوند متعال کی طرف سے ( نصب ) معین و مقرر ھوتا ھے۔ دوسرے الفاظ میں معصوم وه ھے جو کھلم کھلا یا مخفی طورپر کسی گناه و خطا کا مرتکب نھ ھو اوریھ بدیھی بات ھے کھ خداوند متعال کے علاوه کوئی شخص کسی کی عصمت کو بیان نھیں کرسکتا ھے۔ اس لئے کھ عصمت کی تشخیص صرف نص اور پیغمبر صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم کی حدیث کے ذریعھ سے ھی ممکن ھے۔
۱۔ لغت کی کتابوں میں " امام" کے معنی ھیں پیشوا اور امام اسے کھتے ھیں جو رھنما ھو اور دوسرے اس کی پیروی کرتے ھوں۔
راغب ، اپنی کتاب " مفردات" میں لکھتے ھیں: امام وه ھے جس کی پیروی کی جائے[1]۔
۲۔ امامت کے بارے میں اصطلاحا علم کلام میں گوناگوں تعریفیں کی گئی ھیں۔
شیعوں کے نقطھ نظر سے امامت کی تعریف یھ ھے کھ: دین کا عام پیشوا لوگوں کی دینی و دنیوی مصلحتوں کے تحفظ کا ذمھ دار ھوتا ھے اور انھی مصلحتوں کے پیش نظر لوگوں کو نقصانات سے بچاتا ھے۔[2]
لیکن اھل سنت کے نقطھ نظر کے مطابق امامت کی یوں تعریف کی گئی ھے کھ امام پیغمبر صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم کے جانشین کے عنوان سے لوگوں کے دینی و دنیوی امور کے بارے میں ایک عام اور وسیع پیشوائی و سرپرستی ھے۔[3]
۳۔ عصمت کے معنی و مفھوم : لغت میں عصمت ، تحفظ اور روکنے کے معنی میں ھے۔ اور علم کلام کی اصطلاح میں اس کی تعریف ھے : ایسا نفسانی ملکھ جو احکام الھی کی خلاف ورزی نھ کرنے کا سبب بن جاتا ھے اور یھ نفسانی ملکھ انسان کو خطا اور بھول چوک سے محفوظ رکھتا ھے ۔
عصمت ایک ایسا ملکھ ھے جو لازمی احکام کی خلاف ورزی (عمدا یا سھوا) نھ کرنے کا سبب بن جاتا ھے باوجودیکھ انسان ان تکالیف (احکام ) کی خلاف ورزی کرنے کی قدرت بھی رکهتا ھے۔[4]
شیعوں کا اعتقاد ھے کھ : امامت اسی رسالت و نبوت کا سلسلھ ھے فرق صرف اتنا ھے کھ پیغمبر اسلام صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم شریعت کے بانی ھیں اور ان پر وحی نازل ھوتی تھی لیکن امام شریعت کو بیان کرنے والا او اس کا محافظ اور رکھوالا ھوتا ھے۔ اس بناء پر ، امام علیھ السلام نزول وحی کے بغیر تمام امور میں پیغمبر صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم کے ھمقدم ھوتا ھے۔[5]
معارف اسلامی ، اصول و فروع اسلامی سے مربوط علم ، ظاھری و باطنی گناه، خطا اور بھول چوک ، میں عصمت جیسی شرائط ، جو پیغمبر کیلئے ضروری ھیں ، بالکل وھی شرائط امام کیلئے بھی ضروری ھیں۔ چونکھ عصمت کی صفت کو حاصل کرنے کیلئے نص اور خداوند متعال کے امر کے علاوه کوئی طریقھ نھیں ھے، اس لئے شیعھ امامت کو نبوت کے مانند ایک انتصابی مقام جانتے ھیں۔ اور کھتے ھیں کھ : اس منصب کا مالک خداوند متعال کی طرف سے مقرر و معین ھوتا ھے۔ لیکن شیعوں کے بر عکس ، اھل سنت ، اس عظیم دینی اور اجتماعی منصب کو ایک اجتماعی عطیھ جانتے ھیں، جو لوگوں کی طرف سے خلیفھ کو عطا کیا جاتا ھے۔اور خلیفھ انتخاب کے ذریعھ اس منصب پر فائز ھوتا ھے مذکوره دو گروھوں ( شیعھ و سنی ) کی طرف سے پیش کی گئی تعریفوں پر غور و خوض کرنے کے نتیجھ میں یھ معنی حاصل ھوتے ھیں۔
ذیل میں مذکوره دو گروھوں کے بعض دلائل پر توجھ فرمائیں۔
الف ) امام کےلئے عصمت کی ضرورت کے عقلی دلائل
۱۔ چونکھ امام شرع محافظ اور انبیاء کی رسالت کو بیان کرنے والا اور انسانوں کی تربیت کرنے والا ھوتا ھے اسی لئے لوگوں کیلئے سو فیصدی قابل اعتماد ھونا چاھئے اور معصوم نھ ھونے کی صورت میں یھ اعتماد ختم ھوجاتا ھے۔
۲(اگر امام گناه کا مرتکب ھوجائے تو لوگوں کے دلوںمیں اس کا احترام زائل اور محبوبیت ختم ھوجاتی ھے اور اس کی اطاعت و پیروی نھیں کی جاتی اور اس طرح امام کے منصوب ھونے کا فائده مفقود ھوجاتا ھے[6] ۔
۳)اگر امام معصوم نھ ھو اورگناه کا مرتکب ھوجائے تو امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کے مطابق اسے سزا دینا واجب بن جاتا ھے ، جبکھ امام کے ساتھه ایسا برتاؤ کرنا اولا: امام کو منصوب کرنے کے مقصد سے متناقض ھے۔ ثانیا : آیھ شریفھ اطاعت ( سوره نساء /۵۹) کے خلاف ھے ، کیوں کھ مذکوره آیھ شریفھ میں امام کی اطاعت کرنے اور اس کے منصب و مقام کے احترام کا مطلق صورت میں ذکر کیا گیا ھے۔ [7]
۴) امام ، پیغمبر صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم کے مانند شرع کا محافظ ھوتا ھے ، لھذا اسے بھی معصوم ھونا چاھئے ، کیونکھ حفاظت اور نگرانی سے مراد علمی و عملی حفاظت ھے اور یھ ظاھر ھے کھ علم و عمل کے ذریعھ شریعت کا تحفظ صرف معصوم ھونے کی صورت میں ممکن ھے کیوں کھ غیر معصوم کم از کم خطا سے دوچار ھوتا ھے اور اگر ھم شریعت کے ایک حصھ کی حفاظت پر اکتفا کریں تو اس صورت میں اس کے دوسرے حصھ کو شارع کے مطابق ناقابل اعتبار جاننا چاھئے جب کھ ضرورت اس کے بر خلاف ھے، کیوں کھ پیغمبر صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم تمام احکام کی تعلیم دینے کیلئے تشریف لائے ھیں۔
۵)مذکوره بیان کے مطابق امام کے منصوب ھونے کا فلسلفھ عام طور پر فکری و عملی انحراف کا سبب بننے والی خطا و اشتباه سے پرھیز کرنے کے لئے لوگوں کی ھدایت کرنا ھے اگر خود امام بھی غلطی سے دوچار ھوجائے اور اس سے محفوظ نھ ھو تو وجوب نصب امام کے فلسفھ کے مطابق ، اس کی ھدایت اور راھنمایی کےلئے کسی امام کا ھونا ایک ضروری امر بن جاتا ھے تا کھ اس کی غلطیوں اور خطاؤں کے سلسلھ میں اس کو متنبھ کرے اور صحیح طریقھ پر اس کی ھدایت کرے ، لھذا اس دوسرے امام کو معصوم ھونا چاھئے اور اگر وه بھی معصوم نھ ھو تو کسی اور امام کی ضرورت ھے اور اس طرح امام کی ضرورت لا متناھی صورت میں جاری رھتی ھے اور یھ وھی تسلسل ھے جو عقل کے حکم سے محال اور باطل ھے اس لئے ایک ایسے امام پر منتھی ھونا ضروری ھے جو صاحب عصمت ھو اور دوسروں کی ھدایت کرنے کی توانائی رکھتا ھو اس طرح کھ اس میں کسی قسم کی خطاء و و انحراف کا نشان تک نھ پایا جاتا ھو۔[8]
ب ۔ روایتی دلائل
قرآن مجید میں ، انبیاء اور ائمھ علیھم السلام کی عصمت کے بارے میں کئی آیات موجود ھیں۔ ھم ان میں سے چند ایک کی طرف ذیل میں اشاره کرتے ھیں:
۱۔ آیھ امامت : " اور اس وقت کو یاد کرو جب خدا نے چند کلمات کے ذریعھ ابراھیم علیھ السلام کا امتحان لیا اور وه کامیاب ھوگئے تو خدا نے ان سے کھا کھ ھم تم کو لوگوں کا اما اور قائد بنا رھے ھیں انھوں نے عرض کی کھ کیا میری ذریت کو بھی؟ ارشاد ھوا کھ یھ عھده امامت ظالمین تک نھیں جائے گا"[9] یھ آیھ شریفھ وضاحت کرتی ھے کھ الھی عھده، جو وھی امامت کا منصب ھے ، ظالموں کو نھیں ملتا ھے۔
یھ ایک جانب سے ھو یا دوسری جانب سے ، ھر گناه ، خواه صغیر ھو یا کبیره ، ظلم ھے اور خدا کو پسند نھیں ھے ، اس لئے کھ خدائے تعالی فرماتا ھے : " یھ حدود الھیھ ھیں ان سے تجاوز نھ کرنا اور جو حدود الھی سے تجاوز کرے گا وه ظالمین میں شمار ھوگا"[10]۔
اس آیھ شریفھ کے مطابق ، گناه ، خواه صغیره ھو یا کبیره ، ظلم شمار ھوتا ھے کیوں کھ آخر کار تو یھ خدا کے حکم کی نافرمانی ھے یھاں پر مندرجھ ذیل دو مطلب قطعا حکمی ھیں:
الف : ھر گناه ( صغیره یا کبیره) خدا کے حکم کی نافرمانی کے سبب ظلم شمار ھوتا ھے ۔
ب: خدائی عھده ظالموں تک نھیں پھنچتا ھے۔
نتیجھ یھ نکلا کھ امامت کا عھده و منصب ایک خدائی منصب ھے[11] اور قرآن مجید نے الھی منصب کو ان لوگوں کے لئے مخصوص کیا ھے جو ظلم سے آلوده نھ ھوں۔ دوسری جانب ،ھم جانتے ھیں کھ ھر گناه، کم از کم اپنے نفس پر ظلم ھے اور قرآن مجید کے مطابق ھر گناه گار کو ظالم کھا جاتا ھے۔ اس لئے ، ائمھ اطھار علیهم السلام جو منصب الھی کے مالک ھیں، ھر قسم کے ظلم اور گناه سے پاک و منزه ھیں۔[12]
۲۔آیھ تطھیر :"بس اللھ کا اراده یھ ھے،که اے اھل بیت کھ تم سے ھر برائی دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزه رکھے جو پاک و پاکیزه رکھنے کا حق ھے"[13]۔
یھ آیھ شریفھ ، اھل بیت علیھم السلام کی عصمت پر یوں دلالت کرتی ھے کھ اھل بیت اطھار علیھم السلام کے ھر قسم کی برائی سے پاک ھونے کے سلسلھ میں مشیت الھی کا تعلق ان کے گناه سے منزه اورپاک ھونے کے مساوی اور لازم و ملزوم ھے، کیوں کھ آیت میں "رجس" سے مراد ھر قسم کی فکری اور روحی برائی ھے کھ گناه اس کا ایک واضح مصداق ھے اور چونکھ یھ اراده خاص افراد سے متعلق ھے، نھ کھ امت کے تمام افراد سے ، اس لئے قدرتی بات ھے کھ آیھ تطھیر ، عمومی تطھیر سے متعلق اراده سے فرق رکھتی ھے، تمام مسلمانوں پر مشتمل تطھیر کا اراده ایک تشریعی اراده ھے،[14] ممکن ھے افراد کی نافرمانی کے سبب حاصل نھ ھو جبکھ یھ اراده ، ایک تکوینی اراده ھے جو اراده (گناه سے پاکی ) کے مراد و متعلق سے جدا نھیں ھوسکتا۔[15]
۳۔ آیھ اطاعت : " ایمان والو ! اللھ کی اطاعت کرو ، رسول اور صاحبان امر کی اطاعت کرو جو تمهیں میں سے ھیں"[16]
یھ آیھ شریفھ بھی ان آیات میں سے ھے جو ائمھ اطھار علیهم السلام کی عصمت پر دلالت کرتی ھے کیوں کھ اس میں رسول (ص) اور اولی الامر کی اطاعت کو مطلق طور پر بیان کیا گیا ھے اور کسی شرط کی قید نھیں لگائی گئی ھے رسول اور اولی الامر کی مطلق اطاعت اسی صورت میں صحیح ھے جب وه خدا کی اطاعت کی ایک کڑی ھو اور انکی پیروی کرنا خدا کی اطاعت سے ٹکراؤ کی صورت میں نھ ھو ، ورنھ خداوند متعال کی طرف سے مطلق اطاعت کا حکم اور جائز الخطا افراد کی طرف سے اطاعت کا مطلق حکم تناقض کا سبب بنے گا۔[17]
۴۔ حدیث ثقلین : یھ حدیث ایک متواتر حدیث ھے اور شیعھ اور سنی دونوں نے اس کی روایت کی ھے پیغمبر اسلام صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم فرماتے ھیں :"انی تارک فیکم الثقلین کتاب اللھ و عترتی اھل بیتی انھما لن یفترقا حتی یردا علی الحوض"۔
" میں ( اس حالت میں تم لوگوں سے رخصت ھوتا ھوں جبکھ ) تمھارے درمیاں دو گراں قیمت امانتوں کو چھوڑ رھا ھوں، یھ دو چیزیں خدا کی کتاب اور میرے اھل بیت ھیں، یھ دونوں ھر گز ایک دوسرے سے جدا نھیں ھوں گے یھاں تک کھ حوض کوثر پر مجھه سے ملیں گے۔
اس حدیث کے حکم سے کھ پیغمبر اسلام صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم نے اپنے اھل بیت علیھم السلام کو قرآن مجید کے برابر قرار دیا ھے اور تاکید فرمائی ھے کھ یھ دونوں کبھی ایک دوسرے سے جدا نھیں ھوں گے، اھل بیت علیھم السلام کی عصمت پر ایک واضح دلیل ھے، کیونکھ چھوٹے سے چھوٹے گناه کا مرتکب ھونا ، اگرچھ خطا اور غلطی کے سبب ھی ھو ، قرآن مجید سے عملا جدا ھونے کے مترادف ھے ،اس لئے ، جس طرح قرآن مجید ھر قسم کی خطا و اشتباه سے پاک اور محفوظ ھے ، اسی طرح ائمھ اطھار علیھم السلام بھی ھر قسم کی فکری و عملی خطا سے منزه و پاک ھیں۔
جب یھ واضح ھوا کھ امام کو پیغمبر اسلام صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم کے جانشین اور خلیفھ کی حیثیت سے گناه و خطا سے معصوم ھونا چاھئے تو ظاھر ھے کھ پیغمبر اسلام صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم کے جانشین کے لئے عصمت کی صفت حاصل کرنے کے سلسلے میں نص اور خدا وند متعال کے ارشاد گرامی کے علاوه کوئی اور صورت نھیں ھے ،کیونکھ صرف خداوند متعال ھی اسرار اور مخفی چیزوں اور دلوں کے احوال کا عالم ھے۔
اب ھم اس سلسلھ میں اجمالی طور پر ان نصوص پر ایک نظر ڈالتے ھیں جں میں امام کے معصوم ھونے کے موضوع کو واضح کیا گیا ھے:
اس نص اور وضاحت کا اعلان پیغمبر اسلام صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم کے ذریعھ حضرت علی علیھ السلام کی امامت کے بارے میں مختلف مقامات پر کیا گیا ھے ، جسے شیعھ اور سنی سب مانتے ھیں اور دونوں فرقوں کی حدیث کی کتابوں میں موجود ھے۔ ان واقعات میں سے ایک واضح ترین واقعھ غدیر خم ھے، جھاں پر پیغمبر اسلام صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم نے خداوند متعال کے حکم سے حضرت علی علیھ السلام کو اپنے جانشین کے عنوان سے پھچنواتے ھوئے فرمایا : "جس کا میں مولا ھوں اس کے علی بھی مولا ھیں[18] "
ایک اور جگھ پر پیغمبر اسلام صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم نے اپنے اصحاب سے مخاطب ھوکر فرمایا : "مؤمنین کی حکومت اور امارت میں اس (علی) کی اطاعت کرو" [19]
اس کے علاوه ایک اور مقام پر پیغمبر اسلام صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم نے حضرت علی علیھ السلام کے ھاتھه کو پکڑ کر اشاره کرتے ھوے فرمایا : " یھ (علی ) میرے بعد تمھارے درمیان میرے خلیفھ اور جانشین ھیں ان کی بات کو سنو اور ان کی اطاعت کرو"۔[20]
امام علی علیھ اسلام کے بعد والے اماموں کو بھی پیغمبر اسلام صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم اور پھلے والے امام ، اپنے بعد والے معصوم کو پھچنواتے اور معین فرماتے ھیں۔ مثال کے طورپر حضرت امام حسین علیھ السلام کے بارے میں پیغمبر اسلام صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم سے نقل کیا گیا ھے کھ آپ (ص) نے فرمایا: "یھ میرے فرزند ھیں ، امام ھیں ، امام کے بیٹے ھیں امام کے بھائی ھیں نو اماموں کے باپ ھیں کھ ان میں سے نویں قائم ھیں یھ حجت ھیں حجت کے بیٹے ھیں ، حجت کے بھائی ھیں نو حجتوں کے باپ ھیں[21]
اختصار کے پیش نظر ھم اسی ایک روایت پر اکتفا کرتے ھیں اور اس سلسلھ میں مزید معلومات حاصل کرنے کیلئے قارئیں کرام سے درج ذیل کتابوں کا مطالعھ کرنے کی درخواست کرتے ھیں " النجاۃ فی القیامۃ " تالیف ابن میثم بحرانی ، " منتخب الاثر " تالیف صافی گلپائیگانی ، " الغدیر" تالیف علامھ امینی ، اس کے علاوه اسی سائٹ میں بعض عنوان موجود ھیں: جیسے:
۱۔ "قرآن مجید کی نظر میں انبیاء کی عصمت" ، سوال نمبر ۱۱۲ (ساتٹ: )
۲۔ عام انسانوں کی عصمت " سوال نمبر ۱۰۴ ( سائٹ : )
۳۔ "اھل بیت علیھم السلام کو چند افراد تک محدود کردینے کی وجھ" سوال نمبر ۲۴۳ ( سائٹ : )
[1] راغب اصفھانی ، مفردات الفاظ قرآن ، لفظ امام۔
[2]الامامۃ رئاسۃ عامۃ دینیۃ مشتملۃ علی ترغیب عموم الناس فی حفظ مصالحھم الدینیۃ و الدنیا و بھ و زجرھم عما یضرھم بحسبھا" خواجھ نصیر طوسی ، قواع العقائد ، ص ۱۰۸۔
[3] الامامۃ رئاسۃ عامۃ فی امور الدین و الدنیا خلافۃ عن النبی ،قوشجی ، علاء الدین ، شرح تجرید ص ۴۷۲ "۔
[4] اں العصمۃ ملکۃ تقتضی عدم مخالفۃ التکالیف اللزومیۃ عمدا و خطاء مع القدرۃ علی الخلاف" ، مظفر، محمد رضا ، دلائل الصدق ، ج ۲ ص ۴۔
[5] پیغمبر اسلام صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم نے حضرت علی علیھ السلام سے مخاطب ھو کر فرمایا" انت منی بمنزلۃ ھارون من موسی الا انھ لا نبی بعدی " مجھه سے تیری نسبت ، ھارون (ع) کی موسی (ع) سے نسبت کے مانند ھے ، البتھ صرف یھ کھ میرے بعد کوئی نبی آنے والا نھیں ھے " سیرۃ ابن ھشام ، ج ۲ ص ۵۲
[6] مظفر ، محمد رضا، دلائل الصدق ، ج ۲ ص ۸ ۔ ۱۰۔
[7] ایضا
[8] مختاری ، مازندرانی، محمد حسین ، امامت و رھبری ، ص ۵۹
[9] "و اذ ابتلی ابراھیم ربھ ۔۔۔۔ قال لا ینال عھدی الظالمین "۔ بقره /۱۲۴
[10] "۔۔۔ تلک حدود اللھ فلا تعتدوھا و من یتعد حدود اللھ فأولئک ھم الظالمون" بقره ، ۲۲۹۔
[11] لھذا لوگوں کے توسط سے منتخب کرنے سے کوئی ربط نھیں ھے ، بلکھ یھ منصب خداوند متعال کی طرف سے ان لوگوں کو سونپا جاتا ھے جو اس عھده کا حق اور صلاحیت رکھتے ھوں لیکن امامت کے مقام کے نفاذ اور اسے عملی جامھ پھنانے کیلئے لوگوں کی بیعت ضروری ھے۔
[12] انبیاء اور ائمھ اطھار علیھم السلام کی عصمت کے معنی یھ نھیں ھیں کھ مثال کے طور پر جبرئیل علیھ السلام ان کے هاتھه کو پکڑے ( البتھ اگر جبرئیل شمر کے ھاتھه کو پکڑ لیتے تو وه ھرگز گناه کا مرکتب نھ ھوتا) بلکھ عصمت ایمان کی پیداوار ھے۔ اگر انسان خداوند متعال پر ایمان رکھتا ھو اور اپنے دل کی آنکھوں سے خداوند متعال کا سورج کے مانند مشاھده کرے ، تو ممکن نھیں ھے کھ وه گناه و معصیت کا مرتکب ھوجائے ، معصومین علیھم السلام پاک طینت سے پیدا ھونے کے بعد ، ریاضت ، نورانیت اور روحانی فضیلت کے سبب ، اپنے آپ کو ھمیشھ خدا کے حضور پاتے ھیں ، کیونکھ خدا ھر چیز کو جانتا ھے اور تمام امور پر احاطھ رکھتا ھے ، اور مشاھده کرتا ھے ۔( امام خمینی ، امام خمینی کی نطر میں نبوت (تبیان ) ص ۱۲۴)
[13] "۔۔۔ انما یرید اللھ لیذهب عنکم الرجس اهل البیت و یطھرکم تطھیرا "، احزاب / ۳۳۔
[14] احزاب / ۳۳، مائده /۶، وضو سے مربوط آیت کے ذیل مین فرماتا ھے :"۔۔۔ ولکن یرید لیطھرکم ۔۔۔" " خداوند متعال ( آپ لوگوں کیلئے مشکل پیدا کرنا نھیں چا ھتا ھے بلکھ ) آپ کو پاک کرنا چاھتا ھے اور نعمتوں کو آپ پر تما م کرنا چاھتا ھے۔
[15] سبحانی ، جعفر ، منشور عقاید امامیھ ، ص ۱۶۸، ۱۶۹۔قابل ذکر بات ھے کھ اھل بیت (ع) کی عصمت کے سلسلھ میں خداوند متعال کا تکوینی اراده ، ان کے اختیارات کو سلب کرنے کا سبب نھیں بنتا ھے ، جس طرح انبیاء میں عصمت کا ھونا ان کے اختیارات کو سلب کرنے کا سبب نھیں بنتا ھے۔
[16] " یا ایھا الذین آمنوا اطیعوا اللھ و اطیعوا الرسول و اولی الامر منکم۔۔۔۔" نساء / ۵۹۔
[17] مصباح یزدی، محمد تقی ، آموزش عقائد ، ص ۳۰۳۔
[18] " من کنت مولاه ، فھذا علی مولاه" علامھ امینی ، الغدیر ، ج ۱ ، ص ۲۰۷، ابں میثم بحرانی ، النجاۃ فی القیامۃ فی تحقیق امر الامامۃ ص ۸۱۔
[19] "سلموا علیھ بامرۃ المؤمنین" ایضا
[20] "ھذا خلیفتی من بعدی فاسمعوا لھ و اطیعوا " ایضا۔
[21] ابنی ھزا امام ابن امام اخوا امام ابو ائمھ تسعۃ ، تاسعهم قاءمهم ، حجۃ ابں حجۃ اخو حجۃ ابو حججج تسع" ابن میثم بحرانی ۔ النجاۃ فی القیامۃ فی تحقیق امر الامۃ ، ص ۱۶۷