کیا پیغمبر صلی الله علیه وآله وسلم کی حضرت فاطمه زهرا سلام الله علیها کے علاوه کوئی بیٹی تھی یا نهیں، یه ایک تاریخی بحث هے- واضح هے که تاریخی بحث کا اپنا ایک طریقه کار هوتا هے، اس لئے اس مسئله کو ثابت یا نفی کرنے میں بظاهر ایک آیت پر اعتماد نهیں کیا جا سکتا هے، خاص کر جب سنجیدگی سے غورکرنے کے بعد هم جانتے هیں که قرآن مجید کی بهت آیات میں خطاب کے دوران جمع کا لفظ استعمال هوا هے لیکن اس سے مفرد کا اراده کیا جاتا هے- محققین نے قرآن مجید کی شان نزول کے سلسله میں بهت ساری آیات جن میں مفرد کی جگه پر لفظ جمع استعمال کیا گیا هے کی شان نزول میں اس مطلب کی طرف اشاره کیا هے، مثال کے طور پر اس آیه شریفه میں: " جو لوگ یتیموں کے مال کو ظلم و ستم سے کھاتے هیں (حقیقت میں) وه صرف آگ کھاتے هیں اور وه جلدی هی (جهنم کی) آگ کے شعلوں میں جل جائیں گے-" آیه شریفه کے الفاظ (الذین یاکلون وھم) جمع استعمال هوئے هیں، جبکه یه آیت صرف ایک شخص (مرثد بن زید غطفانی) کی شان میں نازل هوئی هے- اسی طرح آیه شریفه : " جنهوں نے ظلم و ستم برداشت کرنے کے بعد راه خدا میں هجرت کی، هم ان کو اس دنیا میں اچھا مقام عطا کریں گے اور آخرت کی پاداش اس سے بھی بڑی هے اگر وه جانتے-" کها گیا هے که یه آیت ابی جندل بن سهیل کی شان میں نازل هوئی هے- اس قسم کی واضح ترین آیات میں آیه مباهله هے که خداوند متعال قرآن مجید میں ارشاد فرماتا هے: " هم بھی اپنی عورتوں کو دعوت دیں گے اور تم بھی اپنی عورتوں کو دعوت دو-" واضح هے که هماری عورتوں سے مراد حضرت فاطمه زهرا۴ هے- وه مباهله کے مسئله میں [پیغمبر(ص) کی طرف سے] تنها عورت تھیں' اور تمام مفسرین اس مسئله پر اتفاق نظر رکھتے هیں- اس لئے قرآن مجید کے خطاب اور روش کے مطابق اس مسئله میں ثبات یا نفی ممکن نهیں هے-
محققین اور مورخین کے درمیان پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کی بیٹیوں کی تعداد کے بارے میں اختلاف هے- ان میں سے بعض افراد نے اس کو ثابت کرنے کے لئے کئی روایتوں سے استناد کیا هے نه صرف بظاهر قرآن مجید سے- اس مقابلے میں ایک دوسرے شخص (سید عاملی) نے اس مسئله کے بارے میں آیات میں ٹکراو اور ناسازگاری سے استناد کرکے اس بارے میں ایک کتاب تالیف کی هے اور اس کا نام " بنات النبی ام ربائبھ" ( پیغمبر کی بیٹیاں یا ان کی ربائب[i]) هے-
[i] . قرآن مجید نے سوره نساء کی آیت نمبر ۲۳ میں ربائب کی طرف اشاره کیا هے: " تمهاری بیویوں کی بیٹیاں جو تمھاری آغوش میں پلی هیں-"
اس سوال کا جواب دینے سے پهلے ایک اهم مسئله کی طرف اشاره کرنا ضروری هے اور وه یه هے که تحقیق کے سلسله میں هر علم کا ایک خاص طریقه کار هوتا هے- واضح هے که همارے سوال کا موضوع تاریخ اور سیرت سے تعلق رکھتا هے، اس لئے اس علم کے طریقه کار پر بحث هونی چاهئے جس کا دارومدار تاریخی نقل پر هے اس کے علاوه خطاب کے سلسله میں قرآن مجید کی روش کے بارے میں پهچان حاصل کی جانی چاهئیے-
اس بنا پر هم اس مسئله پر دو ابعاد میں بحث کریں گے: خطاب میں قرآن مجید کی روش اور روایتوں کی روشنی میں مسئله کی تحقیق-
۱لف- خطاب میں قرآن مجید کی روش:
جو لوگ قرآن مجید کی طرف رجوع کرتے هیں وه دیکھتے هیں که بهت سے مواقع پر مفرد کے لئے جمع کا لفظ استعمال هوا هے اور یه تعظیم کے عنوان سے استعمال هوتا هے اس سلسله میں قرآن مجید میں کافی شواهد موجود هیں اور ان آیات کی شان نزول کے بارے میں نقل کی گئی روایتیں بھی اس کی تاکید کرتی هیں- من جمله مندرجه ذیل آیات:
۱۔ " هم هی نے اس قرآن کو نازل کیا هے اور هم هی اس کی حفاظت کرنے والے هیں[1]-"
۲۔ " اور هم چاهتے تو جبراً هر نفس کو اس کی هدایت دے دیتے[2]-"
۳۔ " بیشک هم زمین اور جو کچھ زمین پر هے سب کے وارث هیں[3]-"
شیخ طوسی اس سلسله میں کهتے هیں: " اس قسم کا استعمال ایسے مواقع پر هوتا هے جهاں پر شخص بڑے مقام و منزلت کا مالک هو[4]-"
اس قسم کی دوسری آیات، جن کی شان نزول خاص افراد کے بارے میں هے لیکن ان میں صیغه جمع استعمال هوا هے، من جمله:
۱۔ " جو لوگ ظالمانه انداز سے یتیموں کا مال کھاتے هیں وه در حقیقت اپنے پیٹ میں آگ بھر رهے هیں[5]۔"
مقاتل کهتا هے که یه آیت مرثد بن زید غطفانی کی شان میں نازل هوئی هے[6]-
۲۔ خدا تمھیں ان لوگوں کے بارے میں، جنهوں نے تم سے دین کے معامله میں جنگ نهیں کی هے اور تمهیں وطن سے نهیں نکالا هے اس بات سے نهیں روکتا هے که تم ان کے ساتھ نیکی اور انصاف کرو[7]-"
اهل سنت محدثین نے کها هے که یه آیت ابوبکر کی بیٹی اسماء کی شان میں نازل هوئی هے- واقعه یوں هے که جب ان کی والده قتیله بنت عبدالعزی جو مشرک تھی، تحفے تحائف لے کر آگئی تو اسماء نے کها: میں تیرے تحفے قبول نهیں کرتی هوں، میرے گھر میں داخل نه هونا جب تک میں رسول خدا ص سے اجازت لے لوں-
انهوں نے آنحضرت (ص) سے سوال کیا تو یه آیت نازل هوئی[8]-
۳۔ " یه جاهل مشرکین کهتے هیں که خدا هم سے کلام کیوں نهیں کرتا اور هم پر کوئی آیت کیوں نازل نهیں کرتا[9]۔"
یه آیت رافع بن حرمیله کی شان میں نازل هوئی هے- محمد بن اسحاق، ابن عباس سے نقل کرتے هوئے کهتے هیں : " رافع نے پیغمبر اکرم ص سے عرض کی ، اے محمد (ص) جیسا که آپ کهتے هیں که آپ رسول خدا هیں، پس خدا سے کهه دینا که همارے ساتھ گفتگو کرے تاکه هم اس کی بات کو سن لیں اور خداوند متعال نے اس آیه شریفه کو نازل فرمایا[10]-
۴۔ " یقیماً جو لوگ الله کی کتاب کی تلاوت کرتے هیں اور انهوں نے نماز قائم کی هے[11]-"
کها گیا هے که یه آیت حصین بن حارث بن عبدالمطلب کی شان میں نازل هوئی هے[12]-"
۵۔ اور جن لوگون نے ظلم سهنے کے بعد راه خدا میں هجرت اختیار کی هے هم عنقریب دنیا میں بھی ان کو بهترین مقام عطا کریں گے اور آخرت کا اجر تو یقیناً بهت بڑا هے[13]-"
یه آیت ابی جندل بن سهیل کی شان میں نازل هوئی هے[14]-
۶۔ " یه وه ایمان لانے والے هیں جن سے بعض لوگوں نے کها لوگوں نے تمهارے لئے عظیم لشکر جمع کر لیا هے[15]-"
اس آیت میں "ناس" کی تعبیر سے جس شخص کے بارے میں صیغه جمع استعمال هوا هے وه نعیم بن مسعود اشجعی هے[16]-
۷۔ " یه لوگ آپ سے سوال کرتے هیں که راه خدا میں کیا خرچ کریں[17]-"
یه آیت عمروبن جموع کی شان میں نازل هوئی هے[18]-
۸۔ اور دوسرے وه لوگ جنهوں نے اپنے گناهوں کا اعتراف کیا[19]-"
یه آیت ابی لبابه انصاری کی شان میں نازل هوئی هے[20]-
۹۔ " یه لوگ کهتے هیں که اگر هم مدینه واپس اگئے تو هم صاحبان عزت ان زلیل افراد کو نکال باهر کریں گے[21]-"
یه بات کهنے والا ایک هی شخص، یعنی عبدالله بن ابی هے[22]-
اس سلسله میں آیات کے ایسے نمونے کافی پائے جاتے هیں اور هم آیه مباهله کی طرف اشاره کر کے اس موضوع کو ختم کرتے هیں[23]-
۱۰۔ " ان سے کهدیجئے که آو هم لوگ اپنے اپنے فرزند، اپنی اپنی عورتیں۔ ۔ ۔ بلائیں[24]-"
شیعه اور سنی کے هاں یه مسلمات میں سے هے که "نسائنا" سے مراد صرف حضرت زهراء سلام الله علیها هے[25]-
بیان شده مطالب کے پیش نظر خدا کے کلام میں عبارت " بناتک" سے استناد نهیں کیا جا سکتا هے که پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کی ایک سے زیاده بیٹیاں تھیں، کیونکه قرآن مجید کی روش اس سلسله میں هماری مدد نهیں کرتی هے۔ پس ممکن هے اس کا مراد حضرت زهراء۴ هو اور تعظیم کے لئے صیغه جمع لایا گیا هو، جیسا که آیه مباهله میں آیا هے-
ب- روایات کی روشنی میں مسئله کی تحقیق:
محققین کے درمیان اس مسئله پر اختلاف نظر پایا جاتا هے- اس سلسله میں انکار کرنے والوں میں علامه جعفر مرتضیٰ عاملی قابل ذکر هیں که انهوں نے اپنی کتاب " الصحیح من السیرۃ" میں اس بحث کو چھیڑا هے اور اس کے علاوه اس موضوع پر ایک مستقیل کتاب تالیف کی هے، جس کا نام " بنات النبی ام ربائبه" هے - آپ اس کتاب کی طرف رجوع کر سکتے هیں- وه اس کتاب میں اس مسئله پر تمام زاویوں سے بحث و تحقیق کے بعد یون نتیجه نکالتے هیں:
"مزکوره مطالب سے واضح هوا که رقیه نامی جس لڑکی سے عثمان نے ازدواج کیا تھا، وه پیغمبر (ص) کی بیٹی نهیں تھی-" وه کهتے هیں: "اگر هم تاریخی روایات پر زیاده سے زیاده وقت اور سنجیدگی سے فیصله کرنا چاهیں، تو فرض کی بنا پر حضرت خدیجه سے پیغمبر اکرم ص کی متعد بیٹیوں کو قبول کرنے کی صورت میں قبول کرنا چاهئے که وه بچپن میں هی اس دنیا سے رخصت هو گئی هیں اور کسی سے ان کی شادی نهیں هوئی هے- هم جو دیکھتے هیں که عثمان نے رقیه نامی ایک لڑکی اور اس کے بعد ام کلثوم نامی ایک لڑکی سے شادی کی هے، وه دونوں اگرچه پیغمبر اکرم (ص) کی بیٹیوں سے نام میں شباهت رکھتی تھیں، لیکن وه پیغمبر اکرم (ص) کی بیٹیاں نهیں تھیں- شاید عثمان کی دو بیویوں کے نام پیغمبر ص کی بعثت کے بعد پیدا هوئی اور بچپن میں فوت هوئی دو بیٹیوں سے شباهت کی وجه سے بعض لوگ مغالطه سے دو چار هوئے هیں اور دعویٰ کیا هے که عثمان کی یه دو بیویاں وهی رقیه و ام کلثوم هیں، جو پیغمبر (ص) کی بیٹیاں هیں- اس کے علاوه شاید عثمان کی مزکوره دو بیویاں پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کی ربائب تھیں، اس لئے اس شبهه کو تقویت بخشنے کا سبسب بنی هیں، کیونکه عربوں میں یه رسوم هے که وه کسی کی ربیبه کو اس کی بیٹی شمار کرتے هیں[26]-
هم سید عاملی کے کلام کی تائید یا اسے مسترد کرنا نهیں چاهتے هیں، کیونکه سید عاملی سے پهلے بعض محققین نے عثمان کے پیغمبر (ص) کے داماد هونے اور پیغمبر اکرم (ص) کی ایک سے زیاده بیٹیاں هونے کو قبول کیا هے- لیکن هم نے اپنی بحث کو اس نقطه پر متمرکز کیا هے که پیغمبر اکرم (ص) کی ایک سے زیاده بیٹیاں هونے کا صرف قرآن مجید میں اشاره شده آیات سے هی استناد نهیں کیا جا سکتا هے- یهان پر مناسب هے که هم اس اهم نقطه کی طرف اشاره کریں اور وه یه هے که جب هم شان نزول بیان کرتے تھے اور یه کهتے تھے که فلاں آیت فلاں مرد یا فلاں عورت کے بارے میں نازل هوئی هے، تو همارا مراد یه نهیں تھا که هم ان سب کی تائید کرتے هیں، بلکه اس میں همارا مقصد ان مسائل میں قرآن مجید کی روش کو جاننا تھا که قرآن مجید نے بعض مواقع پر مفرد کے لئے صیغه جمع کا استعمال کیا هے اور یه ایک ایسی صحیح اور مستحکم روش هے جس کا اهل سنت محققین نے اعتراف کیا هے- پس اگر کوئی شخص کسی کے پیغمبر اکرم ص کے داماد هونے کو ثابت کرنا چاهے تاکه اس طرح اس داماد کے لئے کسی فضیلت کو ثابت کرے، تو وه صرف اس آیت سے استفاده نهیں کر سکتا هے، بلکه اس کو اسے ثابت کرنے کے لئے کوئی اور مستند طریقه اپنانا چاهئیے اور وه یهی اس سلسله میں روایات کی تحقیق کرنا هے-
[1] حجر، 9.
[2] سجده، 13.
[3] مریم، 40.
[4] شیخ طوسی، الرسائل العشر (درس رسا لے)، ص 133.
[5] نسا، 10.
[6] تفسیر القرطبی، ج 1، ص 36؛ الاصابه، ج 3، ص 397.
[7] ممتحنه، 8.
[8] صحیح بخاری، 2/924، حدیث 2477؛ صحیح مسلم، 2/ 391 ، حدیث 50؛ مسند احمد،7/ 483، حدیث 26375، الجامع لأحکام القرآن، 18/40.
[9] بقره 118.
[10] تفسیر ابن کثیر، ج 1، ص 161.
[11] فاطر 29.
[12] الاصابه، 1/336.
[13] نحل 41.
[14] ابن عساکر، تاریخ مدینه دمشق، 8/668.
[15] آل عمران 173.
[16] الجامع لأحکام القرآن، 4/178؛ تفسیر ابن کثیر، 1/430؛ تفسیر الخازن، 1/360.
[17] بقره 215 و 219.
[18] الجامع لأحکام القرآن، 3/26.
[19] توبه 102.
[20] الجامع لأحکام القرآن، 8/154.
[21] منافقون 8.
[22] مسند احمد بن حنبل، 3/392.
[23] هم نے اس آیت کو اس لئے آخر پر بیان کیا تاکه بحث کا سیاق همارے مطلوبه نتیجه سے مرتب هو جائے-.
[24] آل عمران 61.
[25] صحیح مسلم، 15/176و... .
[26] بنات النبی أم ربائبه، تحت عنوان"اللمسات الأخیره"