جو کچھه اس آیه شریفه میں بیان هوا هے، خداوند متعال کی افعالی توحید کا ثبوت اور پیغمبر صلی الله علیه واله وسلم کے اپنے وجود اور دوسری حیثیتوں سے خداوند متعال سے آزاد هونے کی نفی هے، اس لئے اس آیه شریفه کا ان آیات سے کسی قسم کا کوئی ٹکراو نهیں هے جن کے مطابق پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم کو خدا کی اجازت سے شفاعت اور حاجت روائی کی نسبت دی گئی هے اور همیں اولیائے الهٰی من جمله پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم سے رجوع کرنے کا حکم دیا گیا هے، کیونکه شفاعت، حاجت روائی اور بیماریوں کی شفاء جو پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم سے حاصل هوتی هے، آپ {ص} کے دوسرے اعمال کے مانند، خداوند متعال کی فاعلیت کے طول میں اور اس کی اجازت و اراده سے انجام پاتی هے-
حقیقت میں پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم اس آیه کریمه اور اس کی مانند دوسری آیات کے مطابق اپنی طرف سے اپنے لئے الوهیت اور ربوبیت کے دعویٰ کی نفی فرماتے هیں- اس کے برعکس عیسائیت اور غلو کرنے والے حضرت مسیح علیه السلام اور حضرت علی علیه السلام کی الوهیت کے قائل هیں، یا وه لوگ جو صاحبان کلیسا کو اپنا رب جانتے هوئے ان کے بیانات کو خداوند متعال کے حکم پر ترجیح دیتے هیں وغیره-
اس بنا پر اگرچه هم ان بزرگواروں کی طرف رجوع کرنے کے لئے مامور هیں لیکن همیں هرگز انهیں الوهیت و ربوبیت کے مقام تک نهیں لے جانا چاهئیے اور انهیں خداوند متعال کے هم پله قرار نهیں دینا چاهئیے-
اس کے علاوه همارا فرض هے که ان کی سیرت سے سبق حاصل کرکے اپنے وجود اور وجودی کمالات کو عطئیه الهٰی جاننا چاهئیے تاکه هم غرور و تکبر کے شکار نه هو جائیں-
سوره مبارکه انفال کی آیت نمبر ۸ اور سوره مبارکه یونس کی آیت نمب ۴۹ اور ان جیسی دوسری آیات صرف پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کے وجود اور فاعلیت میں استقلال اور آزادی محض کی نفی کرتی هیں، جب عالم امکان کی اس پهلی شخصیت کے استقلال کی نفی کی جاتی هے تو دوسرے انسانوں بلکه تمام مخلوقات کے استقلال کی بدرجه اولیٰ نفی هوگی-
یه آیه شریفه، سوره مبارکه آل عمران کی آیت نمبر ۶۴، ۷۹، اور ۸۰ کی ایک تفسیر هے، جس میں انبیائے الهٰی کی طرف سے الوهیت و ربوبیت کے دعویٰ کو ناممکن اور لوگوں کو اس کے قائل هونے کی ممانعت کی گئی هے- یهاں پر پیغمبر {ص} خود کو خداوند متعال کے مقابلے میں مطلق فاعل، مالک اور صاحب اختیار و مستقل متعارف کرنے اور اس طرح الوهیت یا ربوبیت کا دعویٰ کرنے کے بجائے، وه اپنی تمام حیثیتوں کو خداوند متعال سے متعلق اور وابسته جانتے هیں اور نفع و نقصان کا ذکر نمونه کے طور پر کیا گیا هے کیونکه انسان کی یه دو سرگرمیاں اهم هوتی هیں اور اکثر انسانوں کی تمام فعالیتوں کا مقصد اپنے لئے نفع و نقصان کو مدنظر رکھنا هوتا هے نه که اور کوئی چیز، ورنه تمام مخلوقات کی وجودی حیثیت اور ان کی فاعلیت و کمالات، خداوند متعال کی طرف سے هوتے هیں نه که صرف نفع و نقصان کے پیش نظر-
توحید افعالی اور توحید صفاتی کی بنیاد {یه که مخلوقات کے تمام کمالات، خدا کی طرف سے عطیه هوتے هیں اور صرف ذات باری تعالیٰ هی مطلق کمال اور کمالات کا منبع هے} یهی هے که انسان اپنے آپ اور اپنے کمالات و فاعلیت کو خدا کی دین سمجھے- اور خود کو یا غیر از خدا کسی اور کو ان کمالات کا منبع نه سمجھے اور اگر اس سے کوئی خیر پهنچے تو:
۱لف: قارون کے مانند اپنے آپ کو سب کچھه سمجھه کر یه نه کهے: " میں نے اس مال و دولت کو اپنے علم کے ذریعه حاصل کیا هے[1]-"
ب: قبطیوں کے مانند تنگ نظر بن کر کسی {غیرخدا} کو سب کچھه جان کر فرعون کی الوهیت اور ربوبیت کا قائل نه هو جائے[2]-
ج: فرعون اور نمرود کے مانند خود کو مطلق صاحب اختیار جان کر " انا ربکم الاعلیٰ[3]" کا دعویٰ نه کرے-
د: خدا کے دین میں کسی کو شریک قرار نه دے، اور دوسرے کو خدا کے فیض کے سلسله میں واسطه اور وسیله کے علاوه کسی اور چیز کا قائل نه هو جائے اور یه نه کهے که: " اول خدا نے پھر فلانی نے میری مشکل کو حل کیا هے-" که اس صورت میں وه مشرک هو جائے گا نه که موحد؛ بلکه اسے تمام حالات میں خداوند متعال کا شکرگزار هونا چاهئیے که اس نے یه توانائی اور طاقت عطا کی هے اور بالواسطه اور وسائل کے توسط سے اس کی مشکلات کو حل کیا هے-
یه وهی سبق هے جو همیں ان آیات و روایات سے ملتا هے اور پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم کی مقدس ذات اس سلسله میں تمام انسانوں کے لئے ایک بهترین نمونه عمل هے، تاکه انسان زیاده سے زیاده ترقی کریں اور حق کے بارے میں ان کی معرفت اور انکساری زیاده هو جائے اور زیاده سے زیاده خدا کی نعمتوں کا شکرانه بجا لائیں[4]- اس بنا پر جو آیات پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم کے مقام الوهیت، ربوبیت اور مطلق آزادی کی نفی کرتی هیں اُن آیات سے کسی قسم کا تضاد نهیں رکھتی هیں جو همیں آنحضرت صلی الله علیه وآله وسلم کی طرف رجوع کرنے، حاجت طلب کرنے، مشکلات کو دور کرنے یا شفا اور شفاعت وغیره کی درخواست کرنے کا حکم دیتی هیں، یا ان مقامات کو ان بزرگواروں کے لئے ثابت کرتی هیں اور کچھه امور کو ان سے متعلق جانتی هیں، کیونکه یهاں پر مطلق آزادی کی نفی هے اور وهاں پر خداوند متعال کی اجازت سے خداوند متعال کی فاعلیت کے طول میں فاعلیت کا اثبات هے- چناچه اگرچه حضرت عیسیٰ علیه السلام کے معجزات کو خداوند متعال ان سے هی نسبت دیتا هے لیکن اس میں "باءذنی" کی قید لگاتا هے[5] تاکه جنھوں نے حضرت عیسی علیه السلام کو الوهیت اور مطلق آزادی کا حامل جان کر اشتباه کیا هے، ان کی نفی کی جائے-
پس هوشیار رهنا چاهئیے که انبیائے الهی اور اولیاءالله کے مقامات کا ادراک کرنے میں ان کی طرف سے صادر هونے والے معجزے اور کرامتیں همارے لئے اس امر کا سبب نه بن جائیں که هم انهیں خدا سے جدا اور مطلقاً آزاد تصور کریں، بلکه ان بزرگ شخصیتوں کا احترام کرنے کے باوجود انهیں خدا سے متعلق اور اسی سے وابسطه جانیں اور خداوند متعال کے شکرگزار اور اس کے بندے بنے رهیں-
مزید مطالعه کے لئے ملاخطه هو:
۱۔ جواد عاملی عبدالله، "مراحل اخلاق در قرآن" نشر اسراء، قم
۲۔ علامه طباطبائی محمد حسین، "بررسی هائی اسلامی" نشر هجرت، قم ص ۲۷۷-۲۶۹
۳۔ تفسیر المیزان اور دوسری تفاسیر سوره انفال کی آیت نمبر ۸ اور سوره یونس کی آیت نمبر ۶۴،۷۹ اور سوره آل عمران کی آیت نمبر ۸۰ کی تفسیر کے ذیل میں-