سوال میں جو مطلب بیان کیا گیاھے ، وه نه سو فیصدی قابل قبول ھے اور نه سو فیصدی مسترد کردینے کے قابل ھے ، بلکه اس کا دار ومدار گناه کی قسم اور گناھگار شخص پر ھے ، کیونکه بعض گناه ، جیسے "خدا کا شریک ٹھرانا " بالکل بخشش کے لائق نھیں اور بعض گناه ، جیسے ، حق الناس ادا نه کرنا (لوگوں کا حق مارنا) دوسروں کی دعا اور درخواست سے قابل بخشش نھیں بلکه ایسے گناھوں کیلئے حقداروں کا حق پھنچانے اور اس کی تلافی کرنے اور ان کی رضا مندی حاصل کرنے سے بخشش کے مواقع فراھم ھوتے ھیں۔
بعض اوقات گناھگار، جھالت کی وجه سے کسی گناه کا مرتکب ھوتا ھے ، ایسے گناه کے لئے اظھار ندامت اور توبه کے بعد عفو و بخشش ممکن ھے اور کبھی کوئی روگردانی اور جرم و بدی کی وجه سے گناه کا مرتکب ھوتا ھے جسے سزادینے کی ضرورت ھے ، گناه اور اس کے آثار کی خود گناھگار کے ذریعه یا دوسرے فرد یا افراد کے توسط سے تلافی کی جاسکتی ھے۔
البته انسان کا اپنی سعی و کوشش سےزیاده کوئی حق نھیں ھے ، لیکن یه چیز اس امر میں رکاوٹ نهیں بن سکتی ھے که خداوند متعال کے فضل و کرم سے ، لائق انسانوں کو کچھه نعمتیں عنایت کی جائیں۔ حق کا ایک الگ مطلب ھے اور تفضل کا دوسرا مطلب ھے ، اس کے علاوه، احساں و نیکی اور دوسروں کی دعا اور شفاعت وغیره بھی بے حساب و کتاب نھیں ھیں۔ بلکه یه بھی انسان کی اپنی تلاش اور کوششوں کا نتیجه ھوتی ھیں مثلا شفاعت کیلئے اس امر کی ضرورت ھے که شفاعت کرنے والے کے ساتھه ایک قسم کا معنوی رابطه برقرار ھو اور حقیقت میں شفاعت چاھنےو الوں میں صلاحیت و وقابلیت کی بالیدگی ھونی چاھئے ، جس طرح پودے ، پانی ، مٹی اور روشنی وغیره کی مدد کے بغیر پودے کمال کے درجه تک نھیں پھنچ سکتے ھیں جب تک ان کے وجود میں صلاحیت و قابلیت کی بالیدگی نه ھو تب تک پانی ، روشنی وغیره کی مدد کا انھیں فائده نهیں پھنچ سکے گا۔
جواب کو واضح کرنے کےلئے درج ذیل نکات کا بیان کرنا ضروری ھے:
۱۔ ھر گناه کے دو پهلو ھوتے ھیں ایک پھلو خداوند متعال کی نافرمانی ، عصیان اور حرمت شکنی ھے ( یعنی پروردگار عالم کے حق میں ظلم ) دوسرا پھلو خود گناه گار شخص اور معاشره سے مربوط ھوتا ھے ( یعنی لوگوں اور خود گناھگار کے حق میں ظلم [1]
۲۔ گناه کے زمان و مکان کے حالات مختلف ھونے اور گناھوں اور گناھگار کی شخصیت میں تفاوت کے پیش نظر گناه یکساں نھیں ھوتے ھیں اور ایک دوسرے کے ساتھه فرق رکھتے ھیں ، نتیجھ کےطور پر ان کی سزائیں بھی مختلف ھوتی ھیں۔
مثال کے طورپر قرآن مجید میں پیغمبر اکرم صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم کی بیویوں کے بارے میں فرمایا گیا ھے : " اے زنان پیغمبر (ص) جو بھی تم میں سے کھلی ھوئی برائی کا ارتکاب کرے گا اس کا عذاب بھی دوگنا کردیا جائے گا" [2]
یا حضرت امام رضا علیھ السلام سے نقل کی گئی ایک روایت میں آپ نے فرمایا ھے : "جو علانیھ طورپر گناه کا مرتکب ھوتا ھے یا اس کی تشھیر کرتا ھے ، وه ذلیل ھے اورجو گناھوں کو چھپاتا ھے اور پرده پوشی کرتا ھے، وه بخشش کے لائق ھے ۔[3]،[4]
۳۔ ایک تقسیم بندی کے مطابق ، گناه دو قسم کےھوتے ھیں : حق الله اور حق الناس اور روایتوں میں آیا ھے که : " خداوند متعال ھرگز ان گناھوں کو نھیں بخشتا ھے جو حق الناس کے سلسلے کے ھوں ، مگریه کو خود عقد بخش دے " [5]
اس لئے اس قسم کے گناه ، خود گناھگار کی دعا و استغفار یا دوسرے افراد کی اس کی حیات یا مرنے کے بعد، دعا و مغفرت سے قابل بخشش نھیں ھیں اس سلسله میں حقدار کا راضی ھونا ضروری ھے یا وه اپنے حق سے چشم پوشی کرے ، مثلا اگر کسی نے دوسرے کے مال کو نقصان پھنچایا یا غصب کیا تو جب تک صاحب مال راضی ھوجائے، خداوند متعال اس قسم کے گناه کو نھیں بخشے گا۔
۴۔ گناه کی ایک اور قسم صغیره اور کبیره ھے ، گناه کبیره وه گناه ھے ، جس کی اسلام میں اس قدر اھمیت ھے کھ قرآن مجید میں اس کی سخت ممانعت کے علاوه ، اس کے مرتکب ھونے والے کےلئے جھنم کے عذاب کا وعده دیا گیا ھے ۔ مثلا زنا بے گناه انسان کا قتل او سود خواری وغیره ، جن کے بارے میں قرآن مجید میں ذکر آیا ھے۔[6] لیکن گناه صغیره وه گناه ھے جس کے بارے میں صرف ممانعت کی گئی ھے۔ قرآن مجید میں صرف گناھان صغیره کے بارے میں عفو و بخشش کا وعده کیا گیا ھے اور ارشاد الھی ھے : " اگر تم بڑے گناھوں سے ، جن سے تمھیں روکا گیا ھے پرھیز کرو گے تو ھم دوسرے گناھوں ( گناھان صغیره ) کی پرده پوشی کریں گے اور تمھیں باعزت منزل تک پھنچادیں گے۔[7]
مذکوره آیه شریفه کے مطابق گناھان کبیره سے اجتناب کرنے کی صورت میں گناھان صغیره بھی بخش دئے جائین گے ۔ لیکن توجھ کرنی چاھئے کھ بعض اوقات خاص حالات میں ، گناھان صغیره ، گناھان کبیره میں تبدیل ھوجاتے ھیں اور مذکوره الھی وعده کے دائره سے خارج ھوجاتے ھیں[8] ۔ یعنی بھت سے گناھان صغیره ، گناھان کبیره میں تبدیل ھوجاتے ھیں اس طرح خداوند متعال نے ان کو بخش دینے کا وعده نھیں کیا ھے بلکھ عذاب جھنم یاد دلایا ھے۔[9]
۵۔ایک اور تقسیم بندی میں گناھگاروں کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ھے :
الف: وه لوگ جو جھالت و نادانی کی وجه سے گناه کے مرتکب ھوتے ھیں ۔ اور اس کے بعد پشیمان ھوکر گناه سے توبه اور تلافی کی کوشش کرتے ھیں ، خداوند متعال نے ایسے ھی لوگوں کےلئے عفو و بخشش کا وعده کیا ھے۔ [10]
ب) وه لوگ جو گناه کو گناه جانتے ھوئے اس کے مرتکب ھوتے ھیں اور اس کے بعد پشیمان بھی نھیں ھوتے ھیں ایسے گناھگار خداوند متعال کی عفو و بخشش کے قابل ھرگز قرار نھیں پائیں گے۔
مذکوره بیان کے مطابق معلوم ھوتا ھے که گناھگارکی بخشش اور اس کی حالت کا بدل جانا صرف ان گناھوں کے بارے میں ھے جن کے لئے خداوند متعال نے اسباب و علل[11] کی موجودگی کی صورت میں عفو وبخشش کا وعده کیا ھے۔
البته ایک شخص جو زندگی بھر گناه و گمراھی کا مرتکب ھوا ھو ، یه کیسے ممکن ھے که و دوسروں کے احسان ، نیکی اور دعاؤن کے نتیجه میں عفو و بخشش کا مستحق قرار پائے اور آخرت میں اس کا حساب کتاب بدل جائے ؟ اس سلسلھ میں قابل ذکر بات یھ ھے که گناه و گمراھی میں غرق سب لوگ ایسے نھیں ھیں اور ممکن نهیں ھے کھ دوسروں کی نیکی و احسان اور دعا کے نتیجھ میں ان کی حالت بدل جائے گی ۔ البتھ ان گناھگاروں کے بارے میں یھ امید ھے کھ (حتی کھ دوسروں کی دعا و احسان سے عفو و بخشش میں شامل ھوں) جو مرتکب گناه ھوئے ھیں اور خداوند متعال نے انھیں بخش دینے کا وعده کیا ھے ، کیونکھ قرآن جید میں ارشاد ھوا ھے : " حسنات"[12] (نیکیاں ) ، گناھوں ( اور ان کے اثرات ) کو نابود کردیتے ھیں۔ [13]
مذکوره آیه شریفه کے مطابق جس طرح گناھگار زندگی میں اگر کوئی نیک کام انجام دے تو اس کے نیک کاموں کی وجه سے اس کے گناه اور گناھوں کے اثرات ختم ھوجاتے ھیں ، اسی طرح اگر دوسرے لوگ نیک کام انجام دے کر اس کے ثواب گناھگار کے نام ھدیه کردیں تو یه اعمال بھی گناھوں اور ان کے آثار کو مٹانے کا سبب بنیں گے۔
بھت سی ایسی روایات موجود ھیں ، جن میں فرمایا گیا ھے که: " جب کوئی شخص اس دنیا سے چلا جائے اور اس کی اولاد یا دیگر افراد ، نماز ، روزه ، حج ، صدقه ، غلام ، کو آزاد کرنا وغیره جیسے نیک کاموں کا ثواب متوفی کے نام ھدیه کریں ، تو اس کی جزا اور بدله اس کو ضرور ملے گا۔ [14]
بیشک جب دوسروں کے نیک اعمال کسی مرده گناھگار کے لئے ھدیھ کئے جائیں تو وه اس کو اس صورت میں پهنچتے ھیں جب وه نیک کام گناگار کے گناھوں کی تلافی کرنے کی حد میں ھوں بس اسی صورت میں اس کے گناھوں کی تلافی ھوسکتی ھے اور اصولا یه عدل الھی کے مطابق بھی ھے که گناگاروں کے حق میں دوسروں کے نیک اعمال کے ذریعه ، اس نیک کام کی حد میں گناه بخش دئے جائیں ، کیوں که خدا وند متعال نے اپنے پیغمبراکرم صلی اللپ علیه و آله وسلم کے لئے یه راسته کھلا رکھا ھے۔ [15] مثلا جس طرح اس دنیا میں بھی اگر کوئی شخص کسی خطا کا مرتکب ھوجائے اور کسی دوسرے شخص کو نقصان پھنچائے پھر اگر کوئی تیسرا شخص اس نقصان کی بھر پائی کردے۔تو یقینا نقصان اٹھانے والا شخص راضی ھوجائے گا اور اگر راضی نھ ھوجائے تو اس کی ملامت کی جائے گی۔ اس لئے اس بات میں کسی قسم کا تعجب نھ ھونا چاھئے کھ مرده گناھگار کے گناھوں کی دوسروں کے نیک اعمال کے ذریعھ کیسے تلافی کی جائے گی۔
البته اگر کسی شخص نے اس قدر گناه کئے ھوں که اگر تمام نیک لوگ اپنے اعمال کے ثواب اسے ھدیه کریں۔ تب بھی اس کے بے شمار گناھان کبیره کی تلافی نھ ھوسکے ، تو اس صورت میں ھرگز دوسروں کے نیک اعمال اس کے گناھوں کی بخشش کا سبب نھیں بن سکتے ھیں پھر بھی اس کے گناھوں کا کچھه بوجھه تو ھلکا ھوھی جائے گا ۔ اور خداوند متعال اس کے عذاب میں کمی کردے گا۔ [16]
قابل ذکر بات : چونکه خداوند متعال عادل و حکیم ھے اور اپنے بندوں میں سے کسی ایک کے ساتھه ذره برابر ظلم نھیں کرتا ھے ، اس لئے اپنے کسی بنده کے اعمال کو نظر انداز نھیں کرتا ھے اور کسی نیک آدمی کے اجر و ثواب کو بھی ضائع نھیں کرتا ھے تو ممکن ھے خداوند متعال ایسے افراد کو بخش دے جن کے اعمال و روش سے ھم آگاه نھیں ھیں اور جو ھماری نظروں میں گناھگار اورعذاب کے مستحق ھیں لیکن چوں کھ خداوند متعال تمام چیزوں کی خبر رکھتا ھے اور ایسی چیزوں کے بارے میں آگاه ھے جن سے ھم بے خبر ھیں، لھذا ھمیں خداوند علیم و خبیر کے عفو و بخشش کو ان نیک عمال کا بدلھ محسوب کرنا چاھئے۔
البته اس نکته سے غفلت نھیں برتنی چاھئے کھ عام طورپر خداوند متعال سے دوسروں کے لئے مخلصانه دعا اور عفو و بخشش کی درخواست ، اس شخص کے مثبت اور نیک اعمال کےلحاظ سے ھوتی ھے جو اس نے اپنی زندگی میں انجام دئے ھیں ورنھ اگر کسی شخص کی زندگی میں کوئی مثبت (نیک ) عمل نه ھو اور اس کی پوری زندگی گناھوں سے بھری ھو تو اس کے حق میں کوئی شخص مخلصانھ دعا نھیں کرے گا ، حتی که اس کی اولاد اور رشته دار بھی ا سکے لئے دعا نھیں کریں گے ، اگر وه خود بھی غیر صالح ھوں تو اس کی دعا قبول نھیں ھوگا اور اگر صالح افراد ھوں تو اس سے راضی نھیں ھوں گے کھ مخلصانھ طور پر اس کے حق میں دعا کریں۔
شفاعت کو بیان کرنے والی آیات یا سوره طور کی آیت نمبر ۲۱ جس میں فرمایا گیا ھے: " بھشتیوں کے فرزندوں کو بھی ھم ان کے ساتھه ملحق کریں گے ، حالاں که ذریت نے اس راه میں کوئی کوشش و تلاش نھیں کی ھے " یا جو اسلامی روایتوں میں آیا ھے : " اگر کوئی شخص نیک اعمال انجام دے گا تو اس کا پھل اس کے فرزندوں کو پھنچے گا ، تفسیر نمونه اس سوال کے جواب میں کھ مذکوره آیات و روایات کی روشنی میں انھیں اس آیه شریفه کے ساتھه قابل جمع جانتا ھے جس میں فرمایا گیا ھے که:" قیامت میں ھر شخص کا فائده صرف اس کے اپنے اعمال کا نتیجھ ھوگا "
قرآن مجید میں ارشاد ھے که : انسان کو اپنی سعی و کوشش کے علاوه کوئی حق نھیں ملے گا۔ لیکن یھ خداوند کریم کی طرف سے فضل و کرم اورلیاقت رکھنے والے انسانوں کو عطا کی جانے والی نعمتوں میں رکاوٹ کا سبب نھیں بن سکتا ھے۔ حق ایک الگ مطلب ھے اور فضل و کرم ایک دوسرا مطلب ھے جیسے حسنات کا دس گنا اور کبھی سیکڑوں یا ھزاروں گنا صله دیا جاتا ھے ۔
اس کے علاوه شفاعت بے حساب وکتاب نھیں ھوتی ھے ، اس کے لئے بھی ایک قسم کی سعی و کوشش اور شفاعت کرنے والے کے ساتھه ایک معنوی ( قلبی ) رابطه قائم کرنے کی ضرورت ھوتی ھے ۔ [17] اس طرح بھشتیوں کے فرزندوں کے ان کے ساتھه ملحق ھونے کے سلسله میں قرآن مجیدکی اسی آیت میں ارشاد ھوا ھے : " و اتبعتھم ذریتم بایمان " یه اس صورت میں ھے که ان کے فرزندان ایمان میں انکی پیروی کریں" [18]
علامھ طباطبائی اپنی تفسیر " المیزان" میں شفاعت کے بارے میں فرماتے ھیں: " اگر کوئی شخص ثواب حاصل کرنا چاھتا ھو ، لیکن اس کے لئے اس نے اسباب فراھم نه کئے ھوں اور احکام کی خلاف ورزی کے نتیجے میں عذاب سے کسی تکلیف کو انجام دئے بغیر بچنا چاھتا ھو ، تو یھاں پر وه شفاعت کا توسل پیدا کرتا ھے اور شفاعت کا نتیجه حاصل کرنے کا موقع یھیں پر ھے ، لیکن مطلق صورت میں نھیں ، اس لئے کھ بعض افراد ایسے ھوتے ھیں جن میں وه لیاقت بالکل نھیں پائی جاتی ھے جو ان کے کمال تک پھنچنے کے لئے ضروری ھوتی ھے۔ اس کی مثال اس شخص جیسی ھے جو شفاعت کے ذریعھ سب سے بڑا عالم بننا چاھتاھے ، حالانکھ نه اس نے تعلیم حاصل کی ھے اور نه اس میں اس کی استعداد موجود ھے ، اور نه اس کے اور شفاعت کرنے والے کے درمیان کوئی رابطه موجود ھے۔ مثال کے طورپر وه غلام جو اپنے مالک کی کسی صورت میں اطاعت کرنا نھیں چاھتا ھے اور عین بغاوت و نافرمانی کی حالت میں شفاعت کے ذریعه اپنے مالک کی طرف سے عفو و بخشش کا مستحق قرار پانا چاھتا ھے ، مذکوره دو مفروضوں کے مطابق شفاعت کا کوئی فائده نھیں ھے کیونکه شفاعت سبب کی تکمیل کا ایک وسیله ھے نه که خود براه راست سبب ھے که پھلے شخص کوسب سے بڑا عالم بنادے اور دوسرے کو نافرمانی کی حالت میں مالک کا مقرب بنائے۔ [19]
[1] تفسیر نمونھ ، ج ۶، ص ۴۱۵۔
[2] سوره احزاب / ۳۰۔
[3] اصول کافی ، ج۲ ، ص ۴۲۸۔
[4] تفسیر نمونھ ، ج ۱۴ ، ص ۴۰۶
[5] اصول کافی ، ج ۲ ، ص ۴۳۳۔
[6] الکبائر التی اوجب اللھ عز و جل علیھ النار، گناه کبیره وه ھے کھ خداوند متعال نے اس کے لئے جھنم کی آگ واجب کی ھے ، اصول کافی ج ۲، ص ۲۷۶۔
[7] "ان تجتنبوا کبائر ما تنھون عنھ نکفر عنکم سئیاتکم و ندخلکم مدخلا کریما" نساء / ۳۱۔
[8] گناھان صغیره کے گناھان کبیره میں تبدیل ھونے کے اسباب حسب ذیل ھیں:
الف) گناھان صغیره کا بار بار ارتکاب کرنا ، امام جعفر صادق علیھ السلام نے فرمایا ھے : " لا صغیرۃ مع الاصرار" یعنی کوئی بھی گناه ( صغیره) تکرار کی صورت میں گناه صغیره نھیں رھتا ( کبیره میں تبدیل ھوجاتا ھے) اصول کافی ، ج ۲ ، ص ۸۸۔
ب) گناھگار اگر گناه صغیره کو حقیر سمجھے تو وه اس صورت میں گناه کبیره میں تبدیل ھوجاتا ھے ، حضرت علی علیھ السلام نے فرمایا : " اشد الذنوب ما استھان بھ صاحبھ" یعنی سب سے بڑا گناه وه گناه ھے کھ مرتکب ھونے والا اسے حقیر اور معمولی سمجھے " وسائل الشیعھ ، ج ۱۵، ص ۳۱۲۔ باب ۴۳۔
ج) نافرمانی ، تکبر اور ضد کی حالت میں گناه کا مرتکب ھونا ، اس سلسلھ میں قرآن مجید میں ارشاد ھوا ھے کھ : " فاما من طغی و آثر الحیوۃ الدنیا فان الجحیم ھی الماوی " پھر جس نے سرکشی کی ھے اور دنیاوی زندگی کو ( آخرت پر ) مقدم سمجھا ھے جھنم اس کا ٹھکانا ھوگا " ( سوره نازعات / ۳۷ ۔ ۳۹)۔
د) جب سماج کے بزرگ اور صاحب وقعت و حیثیت اشخاص صغیره کے مرتکب ھوجائین ، قرآن مجید میں پیغمبر اکرم صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم کی بیویوں کے بارے میں ارشاد ھے : " اے زنان پیغمبر ! جو بھی تم میں سے کھلی ھوئی برائی کا ارتکاب کرے گا اس کا عذاب بھی دوگنا کردیا جائے گا۔۔۔۔ ( سوره احزاب / ۳۰)
ھ) جب گناه گار گناه صغیره کا ارتکاب کرکے خوشی محسوس کرے ، پیغمبر اکرم صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم نے فرمایا: " جو شخص گناه کا ارتکاب کرکے ھنس رھا ھو ، وه رونے کی حالت میں جھنم میں داخل ھوگا " ( وسائل الشیعھ ، ج ۱۵، ص ۳۰۵ ، باب ۴۰)
و) جب گناه صغیره کا مرتکب ھونے والا ، خداوند متعال کی طرف سے فوری سزا نھ ملنے کو خدا کی رضا مندی سمجھے ، قرآن مجید میں بعض مغرور گناھگاروں کی طرف اشاره کرتے ھوئے ارشاد ھوا ھے : " کھتے ھیں کھ ( اگر ) ھم غلطی پر ھیں تو خدا ھماری باتوں پر عذاب نازل کیوں نھیں کرتا ؟ حالانکھ ان کے لئے جھنم ھی کافی ھے ۔۔۔"
[9] البتھ یھ مطلب گناه کبیره کا ارتکاب کرنے والوں کی شفاعت میں شمولیت کے خلاف نھیں ھے علامھ طباطبائی ، اس سلسلھ میں کھ شفاعت کس چیز سے تعلق رکھتی ھے ، فرماتے ھیں: " شفاعت دو قسم کی ھوتی ھے ، ایک تکوینی ھے ، یعنی عالم اسباب میں ھر تکوینی سبب ، اور دوسری شفاعت تشریعی ھے ، جو ثواب و عذاب سے مربوط ھے یھاں پر زیر بحث دوسری قسم کی شفاعت ھے جو بعض اوقات شرک سے لے کر نیچے تک تمام گناھوں پر اثر اندار ھوتی ھے ، جیسے توبھ و ایمان کی شفاعت و وساطت ۔ البتھ اس سے مراد قیامت سے پھلے ھی دنیا میں تو بھ و ایمان ھے، بعض دوسری شفاعتیں بعض گناھوں کے عذاب پر اثر ڈالتی ھیں ، جیسے نیک عمل گناھوں کو ختم کرنے کا سبب بنتا ھے۔ لیکن جو شفاعت اختلاف کا سبب ھے ، وه قیامت میں انبیاء وغیره کی شفاعت ھے ان لوگوں کا عذاب ختم کرنے کے لئے ، جن کو قیامت کے حساب و کتاب میں مستحق عذاب قرار دیا جائے گا ، ھم نے اس سے پھلے شفاعت کی بحث میں کھا کھ یھ شفاعت کس کے حق میں واقع ھوگی اور ھم نے یھ بھی کھا کھ یھ شفاعت ان افراد سے مربوط ھے جو گناه کبیره کے مرکب ھوئے ھوں لیکن دین حق کے ماننے والے ھوں اور خداوند متعال نے بھی ان کے دین کو پسند کیا ھو۔ ( ترجمھ المیزان ، ج ۱ ، ص ۲۶۴)۔
[10] قرآن مجید میں ارشاد ھوا ھے: انما التوبۃ علی الذین یعملون السوء بجھالۃ ثم یتوبون من قریب فاولئک یتوب اللھ علیھم " " توبھ خدا کے نزدیک صرف ان لوگون کی ھے جو جھالت کی بنا پر برائی کرتے ھیں اور پھر فورا توبھ کرلیتے ھیں تو خدا ان کی توبھ کو قبول کرلیتا ھے ۔
[11] مفسرین نے آیات و روایات سے استفاد کرتے ھوئے ، گناھوں کو بخش دئے جانے کے حسب ذیل عوامل و اسباب بیان کئے ھیں:
الف ) اپنے سابقھ گناھوں کے بارے میں پشیمانی کے ساتھه توبھ کرکے خد کی طرف پلٹنا اور مستقبل میں گناھوں کے مرتکب ھونے سے پرھیز کرنے کا پکا اراده کرنا، قرآن مجید میں اس سلسلھ میں ارشاد ھوا ھے : " ھو الذی یقبل التوبۃ عن عباده و یعفو عن السیئات ۔۔۔" وه ( خدا ) وھی ھے جو بندوں کی توبھ کو قبول کرتا ھے اور برائیوں کو بخش دیتا ھے اور جو کچھه تم انجام دیتے ھو اس سے آگاه ھے " ( سوره شوری / ۲۵)۔
ب) ایسے غیر معمولی نیک کام انجام دینا جو برے اعمال کو بخش دئے جانے کا سبب بنیں اس سلسلھ میں ارشاد الھی ھے : " ان الحسنات یذھبن السیئات " " نیکیاں برائیوں کو ختم کرنے والی ھیں" ( سوره ھود / ۱۱۴)
ج) شفاعت : سفاعت کی حقیقت گناھگار کے حق میں پیغمبر اکرم صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم یا ائمھ طاھرین علیھم السلام میں سے کسی ایک کی دعا ھے تا کھ گناھگار خدا وند متعال کی طرف سے عفو و بخشش کے زمره میں قرار پائے۔ ( جعفر سبحانی ، بحوث قرآنیۃ ، ص ۱۱۷، ۱۱۸)
اگرچھ شفاعت اسلام کا مسلم اصول ھے ، جس کے بارے میں آیات و رویات میں ذکر آیا ھے اور شفاعت گناھگار بندوں کی مغفرت کا سبب بنتی ھے لیکن اس شفاعت کی کچھه شرائط ھیں ، ا سلئے اس سشفاعت میں ھر شخص شامل نھیںھوتا ھے بلکھ صرف وھ افراد شامل ھوتے ھیں جنھوں نے دینی واجبات خاص کر نماز کے سلسلھ میں کوتاھی نھ کی ھو اور خداوند متعال نے بھی ان گناھوں کے بارے میں شفاعت کی اجازت دی ھو، گویا اس طرح یھ شفاعت سب گناھوں کے لئے نھیں ھے ۔ (شفاعت کی شرائط اور اس کے جزئیات اپنی جگھ پر بیان ھوئے ھیں)
د) گناھان کبیره سے پرھیز کرنا ، گناھان صغیره کے عفو و بخشش کا سبب بن جاتا ھے " ( سوره نساء / ۳۱ ) ۔
ھ) خدا کی طرف سے عفو وبخشش : اس میں وه لوگ شامل ھیں جو اس کے لائق ھوں ، خدا کی طرف سے عفو و بخشش کے لئے مشیت الھی کی شرط ھے ۔ اور اس کے بعض شرائط اور حدود ھیں اور یھ ان افراد سے مربوط ھے جنھوں نے اس سلسلھ میں عملا اپنی لیاقت و صلاحیت کا مظاھره کیا ھو۔ اس طرح یھ معلوم ھوجاتا ھے کھ خداوند متعال نے کیوں ارشاد فرمایا ھے کھ : " شرک" کو نھیں بخشا جاتا ھے ، کیونکھ مشرک خداوند متعال سے اپنے رابطھ کو بالکل منقطع کردیتا ھےا ور ایسے کام کا مرتکب ھوتا ے جو تمام ادیان کے اصولوں اور خلقت کے تقدس کے برخلاف ھے۔
گناه کو بخش دئے جانے کے جن عوامل و اسباب کا ھم نے ذکر کیا ، شائد ان میں قوی ترین سبب ، توبھ ھو ، کیونکھ " خداوند متعال نے بھت سی آیات میں اپنے بندوں کو توبھ کی طرف دعوت دی ھے " ( سوره تحریم / ۸، سوره ھود / ۶۰ ، سوره نور / ۳۱۔ ) اور ارشاد فرمایا ھے کھ : " اللھ توبھ کرنے والون کو دوست رکھتا ھے " ( سوره بقره / ۲۲۲) مزید ارشاد فرمایا ھے کھ : " جو توبھ کرین ان کے گناھوں کو نیک اعمال میں تبدیل کیا جائے گا " ( فرقان / ۷۰ ) ۔ لیکن یھی توبھ خاص شرائط کے ساتھه مناسب و قت پر انجام پانا چاھئے تا کھ مؤثر ھو ، من جملھ اس کے کھ گناھگار کو توبھ کرتے وقت مندرجھ ذی کام انجام دینا ضروری ھیں:
ا۔ اپنے عمل کے بارے میں حقیقی طورپر نادم و پشیمان ھوجائے۔
۲۔ اپنے ناشائستھ عمل کی تلافی کرے ( اگر لوگوں کی حق تلفی کی ھو تو اس کی بھرپائی کرے یا حقدار کی رضا مندی حاصل کرے )
۳۔ گناه کو پھر سے انجام نھ دینے کا پختھ اراده کرے۔
۴۔ فرصت کے وقت توبھ کرے ، نھ کھ موت کے وقت جب اسے مرنے کا یقین ھوجائے۔
[13] " ان الحسنات یذھبن السیئات " ( سوره ھود / ۱۱۴)۔ ۔
[14] وسائل الشیعھ ، ج ۲ ، ص ۴۴۵، ح ۲۶۰۳و ۲۶۰۵، ۲۶۰۶، ج۳، ص ۲۰۰، ح ۶،، ص ۲۱۹، ج ۱۱، ص ۲۰۴۔
[15] ملاحظھ ھو : میزان الحکمۃ ، حرف التاء ، موضوع ، توبھ۔
[16] البتھ شرک کے گناه کا خاص حساب و کتا ب ھے ، قرآن مجید میں اس سلسلھ میں ارشاد ھے: مسلمانوں کو مشرکین کے لئے استغفار کرنے کا حق نھیں ھے اگرچھ وه ان کے رشتھ دار ھی کیوں نھ ھوں " اس کے بعد اس سلسلھ میں کھ ابرھیم علیھ السلام کے آذر کے بارے میں استغفار کو کوئی سند قرار نھ دے ، مزید ارشاد فرماتا ھے : " و ما کان استغفار ابراھیم لابیھ الا عن موعدۃ وعدھا ایاه فلما تبیں لھ انه عدو اللھ تبرء منھ " ( توبھ / ۱۱۴) ۔ حضرت ابراھیم علیھ السلام کا اپنے باپ ( ٓآذر ) کے حق میں استغفار ان سے کئے گئے وعده کی وجھ سے تھا ( تفسیر نمونھ ، ج ۵، ص ۳۰۴)۔
[17] شفاعت کے معنی اور شرائط وغیره کے سلسلھ میںمزید معلومات حاصل کرنے کے لئے ملاحظھ ھو : تفسیر نمونھ ، ج ۱۳ ، ص ۳۰۴، ج۹، ص ۹۰۔ج۱، ص ۲۲۸، ج ۱ ، ص ۲۲۹۔
[18] تفسیر نمونھ ، ج ۲۲ ، ص ۵۵۵، ۵۵۶۔
[19] ترجمه المیزان ، ج ۱ ص ۲۴۰۔