اسلام کی نظرمیں، تخلیق کا اصلی مقصد، انسان کا کمال تک پهنچا هے اور کائنات کی تمام مخلوقات اس عظیم مقصد کے لئے پیدا کی گئی هیں ، کیونکه انسان اشرف المخلوقات هے- قرآن مجید میں پروردگار عالم کا ارشاد هے : " میں نے جنات اور انسان کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا هے[i]-" مفسرین کی نظر میں اس آیه شریفه میں عبادات کا مراد انسان کی عبودیت هے جو وهی انسان کا حقیقی کمال تک پهنچنا هے-
اس سلسله میں اسلام نے انسان کے تمام مادی و معنوی ابعاد کو مد نظر رکها هے- چنانچه حضرت علی علیه السلام فر ماتے هیں : " ایک با ایمان شخص کےلئے ضروری هے که وه دن رات کو تین حصوں میں تقسیم کر ے : ایک حصه کو معنویات اور اپنے پرور دگار سے رابطه کے لئے رکهنا چاهئے، دوسرا حصه ذریعه معاش اور دنیوی امور کے لئے اور تیسرا حصه حلال لذتوں اور خدا وند متعال کی نعمتوں سے استفاده کر نے کے لئے رکهنا چاهئے اور یه تیسرا حصه تمام پرو گرا موں کے لئے ایک قسم کی مدد هے[ii]-
اسلام نے کهیں پر صحیح وسالم سیر و سیاحت ، مذاح اور دریا میں تیر نے کی مخالفت نهیں کی هے، بلکه ان کاموں کے لئے کچھـ احکام معین کئے هیں اور اهل بیت علیهم السلام کی سیرت میں یه سب چیزیں پائی جاتی هیں – بهت سے مواقع پر پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم لوگوں کو خوش ومسرور کر نے کے لئے ان کے ساتھـ شوخی و مزاح فرماتے تھے-
حضرت امام خمینی(رح) نے اپنے بیانات میں سالم اور صحیح مذاح اور تفریح وغیره کی مخالفت نهیں کی هے، بلکه همیشه فر ماتے تهے : " تفریح سالم هونی چاهئے"- وه ریڈیو کے تفریحی پروگراموں اور ٹیلی ویزن کی سیریلوں کے مخالف نهیں تهے ، بلکه بهت سے مواقع پر ایسے پرو گراموں کے هدایت کاروں اور کار کنوں کی همت افزاقی کرتے تهے اور ان کی قدر دانی کرتے تهے، البته ساتھـ ساتھـ مفید راهنمائی بھی کرتے تھے اور فر ماتے تهے که یه سب چیزیں اسلام کی خدمت میں هو نی چاهئے اور ان میں تر بیتی و اخلاقی پهلو هو نا چاهئے-
قابل ذکر بات هے که امام خمینی (رح) کے نظریات کو جاننے کے لئے ضروری هے که مرکز تنظیم ونشر آثار امام خمینی (رح) اور یا کتاب صحیفه نور کی طرف رجوع کریں ، جو مندرجه ذیل انٹر نیٹ ایڈرس پر دستیاب هے :
Http://www.imam–Khomeini. org/farsi/main/main.htm
اس سوال کے جواب کے لئے پهلے ضروری هے که انسان کی تخلیق کے مقصد اور قدرتی نعمتوں جیسے کوه وجنگل اور سالم تفریحات اور مذاح وغیره کے بارے میں دین مقدس اسلام کے نظریه کی تحقیق کی جائے اور اس کے بعد ان مسائل کے سلسله میں امام خمینی(رح) کا نظریه بیان کیا جائے تاکه بخوبی واضح هو جائے که جو کچھـ امام خمینی (رح) نے فر مایا هے وه اسلام کے عین مطابق هے اور ان میں کسی قسم کا اختلاف نهیں هے – قرآن مجید جو دین اسلام کا اصلی منبع هے ، تخلیق کے بارے میں ارشاد فر ماتا هے : " میں نے جنات اور انسان کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا هے—" (تاکه اس راه سے کمال حاصل کر کے میرے نزدیک هو جائیں )[1] اس لئے انسان کی تخلیق کے مقصد پر تهوڑا ساغور کر نے سے معلوم هو تا هے که اس کا اصلی مقصد وهی عبودیت ( انسان کے کمال کے مرتبه پر پهنچنا هے) اور علم ودانش اور امتحانات و آز مائشیں جیسے مسائل وه مقاصد هیں جو عبودیت کی راه میں پائے جاتے هیں اور اس عبودیت کا نتیجه خداوند متعال کی لا محدود رحمت هے[2]- حضرت امام خمینی (رح) نے بهی اپنے بیانات میں فر مایا هے : " اسلام کا مقصد انسان کی هدایت کرناهے ، هم اس لئے پیدا کئے گئے هیں که عالم خاکی سے عالم ملکوت تک سیر کریں ، مقصد ایک ایسی حکومت کو تشکیل دینا هے ، جس میں خدا کی عبادت کی جائے[3]-"
اسلام میں شوخی ومزاح کے بارے میں کچھـ احکام بیان کئے گئے هیں ، من جمله حضرت امام جعفر صادق علیه السلام سے ایک روایت نقل کی گئی هے که آپ (ع) نے فر مایا : " کوئی ایسا مومن نهیں هے جس میں " دعابه" نه هو، راوی نے سوال کیا " دعا به" کیا هو تا هے؟ حضرت(ع) نے فر مایا : "مزاح[4]"- هماری احادیث کی کتابوں میں مزاح و مذاق کے مستحب هونے کے بارے میں بهت سی احادیث نقل کی گئی هیں [5]–
یونس شیبانی نے امام صادق علیه السلام سے نقل کیا هے که حضرت(ع) نے ان سے پوچھا : " دوسروں سے مزاح و شوخی کر نے کی تیری کیا حالت هے؟ میں نے کها : "بهت کم هے"- حضرت (ع) نے شدید لهجے میں فر مایا : " کیوں دوسروں کے ساتھـ شوخی مزاح نهیں کرتے هو ؟ شوخی اور مزاح اچھے برتاٶ اور حسن خلق کا ایک حصه هے-" اس حدیث کو جاری رکهتے هوئے فر مایا : " پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم بهی لوگوں کے ساتھـ مزاح فر ماتے تھے اور انهیں خوش کر نا چاهتے تهے[6]-
حضرت رسول اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کے مزاح اور لطیفه آمیز برتاٶ کے چند نمونے نقل کئے گئے هیں، جن سے معلوم هو تا هے که آنحضرت صلی الله علیه وآله وسلم خوش اخلاق اور خنده پیشانی کے علاوه بذله گوبهی تهے، لیکن حق اور حق بات کی سرحدوں کو عبور نهیں کرتے تهے اور آنحضرت صلی الله علیه وآله وسلم کے مزاح، باطل ، لغو اور ناشائسته نهیں هوتے تهے – چنانچه آپ (ص) نے فر مایا هے: " میں مزاح کرتا هوں لیکن سچ کے علاوه کچھـ نهیں کهتا هوں [7]–" یه بات رسول اکرم کی سیرت میں مزاح کی علامت بھی هے اور اس کے حدود کو بهی بیان کرتی هے-
لیکن جهاں پر امام خمینی(رح) نے فر مایا هے : " اسلام میں مذاق نهیں هے[8] –" اس معنی میں نهیں هے که اسلا میں شوخی و مزاح کی کوئی گنجائش نهیں هے ، بلکه یه اس معنی میں هے که اسلام کے احکام لهو لعب اور بزل گوئی کی صورت میں بیان نه کئے جائیں ، اس لئے اس کے بعد فر ماتے هیں : " اسلام مکمل طور پر سنجیده هے اس میں لغو و هزل گوئی نهیں هے – اسلام ، مادی امور میں بهی سمجیده هے اور معنوی امور میں بهی، اسلام مجاهد بنانا چاهتا هے، نه ایک عیش پرست انسان جو لهو و لعب میں مشغول هو[9]-" لیکن یه اس معنی میں نهیں هے که آرام و استراحت کے وقت ( کار، کوشش ، مطالعه اور عبادت وغیره کے بعد) کسی کو شوخی مزاح اور تفریح سے استفاده نه کر نا پاهئے – اسی لئے حضرت امام خمینی (رح) نے کهیں پریه نهیں فر مایا هے که اسلام سالم مزاح اور شوخی کا مخلاف هے – صحیح وسالم تفریح اور ان کی اهمیت اورهمت افزائی کے حق میں اسلام میں کچھـ احکام هیں –
حضرت علی علیه السلام اپنے فرزند سے فر ماتے هیں : " با ایمان شخص وه هے جو اپنی روز مره زندگی میں تیں اوقات کو معین کرے : ایک حصه کو معنویات اور اپنے پروردگار سے راز و نیاز کے لئے مخصوص رکهے، دوسرے حصه کو ذریعه معاش اور دنیوی امور کے لئے اور تیسرے حصه کو حلال اور جائز لذتوں سے استفاده کرنےکے لئے[10]- " دلچسپ بات هے که ایک دوسری حدیث میں اس جمله کا اضافه هوا هے که یه سر گر می اور سالم تفریح دوسرے پروگراموں کے لئے ایک مدد هے – لیکن اهم بات یه هے که یه تفریح اور سر گر می سالم هونی ھچاهئے ورنه اس سے مشکلات پیدا هوں گے – کتنی ایسی نا سالم تفریحات هیں که انسان کی روح و اعصاب پر ایسا برا اثر ڈالتی هیں که وه ایک مدت کے لئے کام کاج کر نے سے بے کار اور مفلوج هو کر ره جا تا هے-
یه بات قابل ذکر هے که اسلام میں سالم تفریح کی اس قدر اهمیت هے که بعض اوقات پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کے حضور میں (کهیل کود کے) مقا بلے انجام پاتے تھے اور کبهی آنحضرت صلی الله علیه وآله وسلم ان کی نظارت اور فیصله دیتے تھے [11]– امام خمینی (رح) نے بھی اپنے بیانات اور رساله عملیه میں مسافرت اور سیروسیاحت کو ایک سالم تفریح جانتے هوئے فر مایا هے: " اگر کوئی تفریح وسیاحت کی نیت سے سفر کرے، تو حرام نهیں هے اور اس میں کوئی حرج نهیں هے – تفریح سالم هو نی چاهئے[12]-" آپ مزید فرماتے هیں : " میں نهیں کهتا هوں که تفریح نه هو، میں یه بهی نهیں کهتا هوں که همیشه تفریح میں مشغول رهنا ، بلکه جوانوں کو اپنے اوقات کو منظم کر نا چاهئے [13]–" ریڈیو اور ٹیلی ویزن سے استفاده کر نے کے بارے میں فر ماتے هیں : " ٹیلی ویزن تمام تبلیغاتی آلات میں حساس تر هے- اس لئے یه اداره تر بیتی و اخلاق هو نا چاهئے ، اسلام کی خد مت میں هو نا چاهئے- نه یه که ٹیلی ویزن سے استفاده نه کیا کیا جائے[14]-"
اسلام نے در یا میں تیر نے سے نه صرف مخالفت نهیں کی هے بلکه اس کی بهت زیاده تاکید بھی کر تا هے که اپنے فر زندوں کو تیرا کی ، تیر اندازی اور گهوڑ سواری کی تر بیت دینا[15] – لیکن اس بات کی طرف توجه کر نی چاهئے که یه سالم تفریحات غیر اخلاقی مسائل کے ساتھـ آلوده نه هو جائیں ، اس لئے حضرت امام خمینی (رح) نے ان لوگوں کی مخالفت کی هے جو سمندر کے کنارے آکر ناسالم تفریحات کے ذریعه لهو لعب اور گناه کے اسباب فراهم کرتے هیں [16]–
مختصر یه که اسلام میں کسی قسم کی گوشه نشینی اور رهبانیت نهیں هے ، چنانچه روایت میں آیا هے که آنحضرت صلی الله علیه وآله وسلم نے فر مایا هے که اسلام میں کسی قسم کی رهبانیت نهیں هے – قرآن مجید اور روایات میں ذکر شده شواهد کے پیش نظر واضح طور پر معلوم هو تا هے که اسلام ایک ایسا دین هے جو انسان کی زندگی کے تمام مراحل کے لئے ، حتی مادی اور دنیوی امور اور دنیا کی حلال نعمتوں سے استفاده کر نے کی کیفیت اور سالم مزاح و تفریحات کے سلسله میں اچهے پرو گرام اور احکام کا حامل هے-
اسی طرح حضرت امام خمینی (رح) کی فر مائشات پر سنجیدگی سے غور کر نے سے معلوم هو تا هے که انهوں نے کهیں پر بهی سالم تفریح و مزاح اور حلال لذتوں اور خدا کی نعمتوں سے استفاده کر نے کی مخالفت نهیں کی هے –
آخر پر قابل ذکر بات هے که امام خمینی (رح) کے نظریات کے بارے میں آگاهی حاصل کر نے کے لئے ضروری هے که مرکز تنظیم و نشر آثار امام خمینی (رح) اور یاکتاب صحیفه نور کے متن کا مطالعه کریں – اس سلسله میں مندرجه انٹر نیٹ ایڈرس کی طرف رجوع کیا جائے:
Http:/www. imam.khomeini.org/farsi/main/main.htm
[1] - ذاریات،٥٦-
[2] - بابایی ،احمد علی، برگزیده تفسیر نمونه ،ج٤،ص٥٣٣; ترجمه المیزان ،ج١٨،ص٥٨٣، موسوی همدانی-
[3] - امام خمینی ،جهاد اکبر ، قسمت مقدمه-
[4] - کلینی ، اصول کافی،ج٢،ص٦٦٤-
[5] - شیخ حر عاملی ،ج١٢،وسائل الشیعه ، ص١١٢، باب استحباب مزاح وضحک-
[6] - وسائل الشیعه ،ج١٢،ص١١٤،حدیث ١٥٧٩٤ وسنن النبی ،علامه طباطبائی ،ص٦٠-
[7] -علامه مجلسی ،بحارالانوار ،ج١٦،ص١١٧-
[8] - صحیفه نور ، امام خمینی(رح) ،ج٩،ص٤٥٥-
[9] - صحیفه نور ، امام خمینی (رح) ،ج٩،ص٤٥٥-
[10] - نجفی خمینی ،تفسیر آسان ،ج٨،ص٧٠، طبع انتشارات اسلامی ; میزان الحکمۃ ،ج١٠،ص٣٧٦-٣٨٠-
[11] - ایضاً ،ص٧١-
[12] - صحیفه نور ،امام خمینی (رح) ،ج١،ص٣٩٥; ورساله عملی ، مساله ١٣٠٠-
[13] - ایضاً ،ج٣،ص٢١٨-
[14] - ایضاً ،ج٨،ص٤٩٦-
[15] - کنز العمال ، حدیث ٤٥٣٤٢-
[16] - صحیفه نور ، ج١٥،ص١٧٨-