اس سریه کے تاریخ میں متعدد نام بیان کیے گئے هیں، جیسے: "سریه زید بن حارثه" ، "سریه قرده" اور "سریه ذات عرق"-
کفار قریش نے مسلمانوں پر ظلم و ستم کیے تھے، یهاں تک که مسلمانوں کے مدینه واپس لوٹنے کے بعد ان کے مال کو لوٹ لیا اور بهت سے گھروں کو آگ لگا دی – پیغمبر خدا صلی الله علیه و آله وسلم نے کفار کے اس ظلم کی تلافی کے لیے ، کفار قریش میں ناامنی پھیلانے اور ان کے تجارتی کاراون کو روکنے کے لیے، جمادی الآخر سنه ۳ ھجری {هجرت کے ۲۸ماه بعد} "زید بن حارثه" کی قیادت میں ۱۰۰ سواروں کو بھیجا تاکه قریش کے تجارتی کاروان کی راه میں رکاوٹ بن جائیں، قریش کا کاروان، فرات بن حیان کی راهنمائی میں تھا، جو کاروان کو عراق کے راستے ذات عرق لے جا رها تھا- زید قرده تک آگے بڑھا، جو ذات عرق کے اطراف میں واقع هے، اور قریش کے کاروان پر حمله کیا ، لیکن کاروان کے افراد بھاگنے میں کامیاب هوئے، صرف فرات بن حیان اسیر هوا اور مسلمان هونے کے بعد اسے آزاد کیا گیا- رسول خدا صلی الله علیه وآله وسلم نے بیس هزار درهم پر مشتمل مال غنیمت میں سے خمس اٹھانے کے بعد باقی مال کو سریه کے افراد میں تقسیم کیا-
اس سریه کے تاریخ میں متعدد نام بیان کیے گئے هیں، جیسے: "سریه زید بن حارثه" ، "سریه قرده" اور "سریه ذات عرق"
البته بعض لوگوں نے اسے سریه شمار نهیں کیا هے[1]-
واقدی، محمد بن حسن بن اسامه سے اور وه ابوالحویرث سے نقل کرتا هے: زید بن حارثه کو سات سریوں کی سپه سالاری سونپی گئی هے، ان میں سے پهلی سریه ذات عرق تھی، جس میں اس نے قریش کے تجارتی کاروان کا راسته روکا اور ابوسفیان اور قریش کے سردار بھاگ گئے اور فرات بن حیان عجلی اسیر هوا- زید بن حارثه نے کاروان کا مال پیغمبراسلام صلی الله علیه وآله وسلم کی خدمت میں پیش کیا، آنحضرت {ص} نے اس کا خمس اٹھالیا[2]-
پس، اس سریه کی کمانڈ زید بن حارثه کے هاتھه میں تھی اور یه پهلی سریه تھی، جس کے امیر زید بن حارثه منسوب هوئے- وه اول جمادی الآخر سنه ۳ هجری {هجرت کے ۲۸ دن بعد[3]} اس سریه پر نکلے-
المغازی میں آیا هے: قریش ایک تاجر قوم تھے، وه شام کے راستے سفر کرنے سے ڈرتے تھے،کیونکه انهیں، رسول خدا{ص} اور آپ {ص} کے صحابیوں کا ڈر تھا- صفوان بن امیه کهتا تھا: "محمد{ص} اور ان کے صحابیوں نے همارے تجارتی راسته کو مسدود کیا هے[4] اور هم نهیں جانتے هیں که ان کے صحابیوں کے ساتھه کونسا برتاو کریں، اس کے علاوه ساحلی علاقه کے باشندے بھی ان کے هم پیمان بن گئے هیں، اس لیے هم نهیں جانتے هیں که کس راه سے چلیں- اگر قرار هو که مکه میں ره کر اپنے سرمایه کو خرچ کریں،تو وهاں پر، همارے لیے کوئی درآمد نهیں هے، هم اپنے سرمایه کو تجارت پر لگانے کے لیے مجبور هیں، موسم گرما میں تجارت کے لیے شام اور موسم سرما میں حبشه چلے جائیں- اسود بن مطلب نے اس سے کها: ساحل کے راسته سے نه جانا، بلکه عراق کی راه سے جانا، صفوان نے کها: مجھے عراق کا راسته معلوم نهیں هے- اس نےکها : میں آپ کو بهتر راهنما دیدوں گا، ایک ایسا راهنما جو آنکھیں بند کر کے قدم بڑھاتا هے- صفوان نے کها: وه کون هے؟ اس نے کها: فرات بن حیان عجلی، وه راستے کا واقف هے اور اس پر مسلط هے- صفوان نے کها: خدا کے وسطے اسے لانا- اس نے کسی کو فرات کے پاس بھیجا، جب فرات صفوان کے پاس گیا، تو صفوان نے کها: میں شام جانا اچاهتا هوں، لیکن محمد{ص} نے همارے تجارتی راسته کو بند کیا هے اور همارے کاروان اس کے علاقے سے عبور نهیں کر سکتے هیں- اس وقت میں عراق کے راسته سے جانا چاهتا هوں- فرات نے کها: میں آپ کو عراق کے راستے سے لے جاوں گا، محمد{ص} کے صحابیوں میں سے کسی نے وه راسته طے نهیں کیا هے، کیونکه وه سرزمین بنجر اور بے آب و گیاه هے- صفوان نے کها: میں بھی یهی چاهتا هوں، بے آبی کے بارے میں، اب جبکه هم موسم سرما میں هیں، اس لیے پانی کی زیاده ضرورت نهیں پڑے گی – صفوان تیار هوا، ابوزمعه نے بھی ان کی همراهی کی اور اس کے ساتھه تین سو مشقال سونا اور بهت هی چاندی تھی اور قریش کے کچھه افراد ان کے ساتھه هوئے که سب کے پاس تجارتی مال تھا- عبدالله بن ابی ربیعه اور حویطب بن عبدالعزی بھی قریش کے ایک گروه کے ساتھه ان کے همراه چلے، صفوان بھی کافی مال لے کر چلا، جو زیاده تر سونا اور چاندی پر مشتمل تھا، اس کی قیمت تیس هزار درهم تھی، وه ذات عرق[5] کی طرف بڑھے- {اس کاروان کا راهنما فرات بن حیان عجلی تھا، جو کاروان کو عراق کے راستے "ذات عرق" کے علاقه سے لے جا رها تھا}[6]
اس دوران میں نعیم بن مسعود اشجعی ، جو اپنی قوم کے دین پر تھا، مدینه آیا اور قبیله بنی نفیر کے کنانه بن ابی الحقیق کے گھر میں داخل هوا اور اس کے ساتھه شراب نوشی کی- سلیط بن نعمان بن اسلم بھی، جو مسلمان تھا، بنی نفیر کے پاس آتا تھا اور اس کی شراب پیتا تھا،کیونکه اس وقت ابھی شراب حرام نهیں هوا تھا، وه{سبط بن نعمان} بھی اس دن وهاں پر موجود تھا اور ان کے ساتھه اس نے بھی شراب پی لی- نعیم نے، صفوان کے کاروان اور مال لے کر نکلنے کی خبر دیدی-
سلمی ، اس وقت باهر آگیا اور پیغمبراسلام صلی الله علیه وآله وسلم کی خدمت میں پهنچا اور اس خبر کی رپورٹ پیش کی – پیغمبراسلام صلی الله علیه وآله وسلم نے زید بن حارثه کو ایک سو سواروں کے همراه روانه کیا، انهوں نے کاروان کے راسته کو روکا، قریش کے سردار بھاگ گئے، صرف ایک یا دو آدمی اسیر هوئے، انهوں نے مال کو پیغمبراسلام صلی الله علیه وآله وسلم کے پاس لایا ،جو بیس هزار درهم پر مشتمل تھا، آنحضرت {ص} نے اس کے خمس کو اٹھالیا اور باقی مال لشکر میں تقسیم کیا- اسیروں میں فرات بن حیان بھی تھا، اس کو لایا گیا، اور اس سے کها گیا که اگر مسلمان بن جاوگے تو تجھے قتل نهیں کریں گے، وه بھی مسلمان هوا اور قتل هونے سے بچ گیا[7]-
[1] تاریخنامه طبرى، گردانیده منسوب به بلعمى (ق 4)، تحقیق، روشن، محمد، تهران، ج 1 و 2، سروش، چ دوم، 1378ش، جلد، ج 5، ص 1513.
[2] طبقات، کاتب واقدى، محمد بن سعد (م 230)، ترجمه، مهدوى دامغانى، محمود، تهران، انتشارات فرهنگ و اندیشه، 1374ش، ج 3، ص 38.
[3] مغازى، تاریخ جنگهاى پیامبر(ص)، واقدى، محمد بن عمر (م 207)، ترجمه، مهدوى دامغانى، محمود، تهران، مرکز نشر دانشگاهى، چ دوم، 1369ش، متن، ص 143.
[4] قابل توجه بات هے که قریش نے مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے ظلم و ستم کے علاوه مسلمانوں کے مدینه هجرت کے بعد ان کے مال کو لوٹا اور ان کے بهت سے گھروں کو آگ لگا دی تھی۔
[5] ذات عرق، عراق اور تهامه و نجد کے درمیان سرحد هے. معجم البلدان، الحموى، شهاب الدین ابو عبد الله یاقوت بن عبد الله (م 626)، بیروت، دار صادر، ط الثانیة، 1995، ج 6، ص 154.