قرآن مجید کے معجزه کے بارے میں تین صورتیں بیان کی گئی هیں: لفظی معجزه، مفهومی معجزه اور اس کو لانے والے کے لحاظ سے معجزه-
۱۔ قرآن مجید کا لفظی معجزه دو حصوں پر مشتمل هے:
الف: بلاغت کا معجزه:
قرآن مجید کے بیان کا طریقه ایسا هے که کسی انسان، حتی که رسول اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کے کلام کا بھی اس سے موازنه نهیں کیا جا سکتا هے اور اس لحاظ سے دانشوروں نے کها هے که: پیغمبر{ص} کی احادیث اور قرآن مجید کی باهمی مشابهت کا مغالطه هو جانے کے بهانے، احادیث لکھنے پر پابندی لگانے والوں کا کام قابل قبول و لائق توجه نهیں هے-
ب: عددی معجزه:
آج کل سائنس کی ترقی اور کمپیوٹر سے استفاده کرنے کے نتیجه میں معلوم هوا هے که قرآن مجید کے الفاظ اور حروف کے درمیان ایک ایسا رابطه موجود هے که انسان کے کلام میں اس قسم کا رابطه پایا جانا نا ممکن هے-
۲۔ قرآن مجید کے مفهومی معجزه کو چند قسموں میں بیان کیا جا سکتا هے:
الف: قرآن مجید کے بارے میں اختلاف نه هونا-
ب: بعض افراد اور واقعات کے بارے میں غیبی خبریں: یه غیبی خبریں اور پیشنگوئیاں واقع اور ثابت هوئی هیں-
ج: قرآن مجید کے علوم و معارف: قرآن مجید ایسے علوم و معارف پر مشتمل هے که کم از کم اس زمانے میں کوئی شخص ایسا نهیں تھا که ان پر دسترس پا سکے- یه معارف عرفان، فلسفه اور عقل وغیره کے عمیق نکات پر مشتمل هیں-
د: قرآن مجید میں موجود علوم و معارف کو باطل ثابت کرنے میں عجزوناکامی: بیشک صدیاں گزرنے کے باوجود قرآن مجید کے معارف ابھی بھی اپنی جگه پر موجود اور باقی هیں اور ان کو باطل ثابت کرنے میں هر ایک شخص عجزوناکامی سے دوچار هو ا هے-
۳۔ لانے والے کے لحاظ سے قرآن مجید کا معجزه:
حضرت رسول اکرم صلی الله علیه وآله وسلم ایک "امّی" تھے، پس یه کیسے ممکن هے که جزیرۃالعرب میں، جهاں پر لوگ علم و دانش اور تهذیب و تمدن سے بے خبر هوں، اس قسم کی کتاب کو اپنی طرف سے پیش کر سکیں؟
قرآن مجید کے معجزه کے بارے میں مختلف صورتیں بیان کی گئی هیں[1] جنھیں تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا هے:
۱۔ قرآن مجید کا لفظی معجزه
۲۔ قرآن مجید کا مفهومی معجزه
۳۔ قرآن مجید کا لانے والے کے لحاظ سے معجزه
۱-۱ : قرآن مجید کا لفظی معجزه:
قرآن مجید کا لفظی معجزه دو صورتوں میں بیان هوا هے: بلاغت کا معجزه اور عددی معجزه- قرآن مجید کی بلاغت کا معجزه یا قرآن مجید کی بلاغت کی بحث قدیم زمانه سے معروف و مشهور تھی اور تقریباً تمام اسلامی مذاهب کا اسی پر اتفاق هے- لیکن بعض لوگوں نے، قرآن مجید کی بلاغت کے معجزه کو قرآن مجید کے نظم، اسلوب اور اس کے بیان کے طریقه سے جدا کر کے کها هے که: قرآن مجید کے معجزوں میں سے ایک اس کی بلاغت کا معجزه هے اور دوسرا معجزه اس کے نظم اور اس کے بیان کا اسلوب هے- اور بعض لوگوں نے قرآن مجید کے اعجاز کو اس کی بلاغت، نظم اور اس کے اسلوب کا مجموعه جانا هے[2]- لیکن حقیقت میں یه سب کثرت امثال کے باب میں سے هے اور یه تمام موارد قرآن مجید کے بیان کے طریقه سے ارتباط رکھتے هیں اور اس کی بلاغت کے معجزه کی طرف پلٹتے هیں-
قرآن مجید کے بیان کا طریقه، ایک ایسا طریقه هے که کوئی اور تو کیا خود رسول اکرم صلی الله علیه وآله وسلم بھی اس روش اور انداز سے کلام نهیں کر سکتے هیں-
وضاحت: "تاریخ حدیث" کے باب میں اهل سنت دعویٰ کرتے هیں که رسول اکرم صلی الله علیه وآله وسلم نے اپنی احادیث و بیانات کو لکھنے سے منع فرمایا تھا- اور اس سلسله میں آنحضرت صلی الله علیه وآله وسلم سے ایک روایت بھی نقل کرتے هیں[3]، اس کے بعد انهیں اس سوال سے دوچار هونا پڑا که آنحضرت صلی الله علیه وآله وسلم نے احادیث کو لکھنے کی کیوں ممانعت فرمائی هے؟
اس سوال کے دئے گئے جوابات میں، ایک جواب، جو اهل سنت میں مشهور هے، وه یه هے که ، اس ممانعت کی وجه یه تھی که ایسا نه هو که قرآن، غیر قرآن، یعنی احادیث کے ساتھه مخلوط هو جائے- اهل سنت کے ایک محقق نے علمائے اهل سنت میں مشهور اس استدلال کو مسترد کر کے فرمایا هے: " قرآن مجید کی بلاغت کا معجزه، اس کے دوسرے کسی کلام سے مخلوط هونے میں رکاوٹ هے[4]-" اس کے بعد اس محقق نے، اس اشکال کے بارے میں که شاید پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم فصاحت و بلاغت کی اس حد میں تھے که آپ{ص} قرآن کے مانند فسیح و بلیغ بات کر سکتے تھے، جواب دیا هے که: "اس بات کا لازمه قرآن مجید کی بلاغت کے معجزه سے انکار هے[5]-" بهرحال، اس بات کے پیش نظر که آنحضرت صلی الله علیه وآله وسلم کی احادیث ، معمولی نهیں تھیں اور آپ{ص} کا اپنا کلام نهیں تھا، بلکه آپ{ص} کے بیانات نورانی، الهی هدایت اور عالم غیب کے انکشافات شمار هوتے تھے اور ملت اسلامیه کے بهت سے مشکلات کو حل کر سکتے تھے، ان کی تحریر میں لانے کی ممانعت کا مسئله اهل سنت پر ایک بنیادی اشکال شمار هوتا هے، اس لحاظ سے ماضی سے آج تک شیعه علماء کے درمیان اس دعویٰ کو غلط سمجھا جاتا هے که آنحضرت صلی الله علیه وآله وسلم نے کبھی احادیث کو لکھنے کی ممانعت فرمائی هے-
قرآن مجید کے معجزه کی دوسری صورت اس کا عددی معجزه هے- یه صورت عصر جدید میں پیش کی گئی هے اور اس سلسله میں کمپیوٹر سے استفاده کیا گیا هے اور یه معجزه خاص توجه کا سبب بنا هے- اس سلسله میں قرآن مجید کے الفاظ اور حروف کا خاص اعداد سے رابطه بیان کیا گیا هے اور اس سے معلوم هوتا هے که ان الفاظ اور حروف کا خاص اعداد سے رابطه هرگز انسان کا کام اور کلام نهیں هو سکتا هے[6]-
۲-۱: قرآن مجید کا مفهومی معجزه:
قرآن مجید کے مفهومی معجزه کے بارے میں مختلف صورتیں بیان کی گئی هیں، ان کی طرف هم ذیل میں اشاره کرتے هیں:
الف: قرآن مجید کے بارے میں اختلاف کا نه هونا:
آیه شریفه: " افلا یتدبرون القرآن ولو کان من عند غیرالله لوجدوا فیهه اختلافا کثیراً[7]-"
ب: غیبی خبریں:
قرآن مجید میں بعض افراد یا مستقبل میں رونما هونے والے بعض واقعات---- یعنی آیات کے نزول کے بعد رونما هونے والے واقعات---- کے بارے میں پیشنگوئیاں کی گئی هیں اور بعد میں وه واقعات اسی صورت میں رونما هوئے هیں- ان میں سے ایک آیه شریفه " الم، غلبت الروم فی ادنی الارض وھم من بعد غلبھم سیغلبون[8]-" هے-
ج۔ قرآن مجید کے علوم اور معارف:
قرآن مجید میں کچھه ایسے مطالب بیان هوئے هیں که ، کم از کم اُس زمانه میں کوئی انسان ان کے بارے میں آگاهی پیدا نهیں کر سکتا تھا- اور اس وقت تک بھی قرآن مجید کے بلند و عالی علوم و معارف انسان کے لئے نامعلوم هیں، ایسے علوم و معارف کے بارے میں اکثر جو معلوم هوا هے وه خود پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم اور ائمه معصومین علیهم السلام اور ان کی مسلسل هدایات کے نتیجه میں هے، اس طرح که آج کل موجود احادیث کی قابل توجه تعداد، اعتقادی روایات، عقلی مباحث، فلسفی و کلامی مسائل اور عرفانی موضوعات پر مشتمل هے- بهرحال، بالفرض اگر کوئی شخص قرآن مجید کے تمام علوم و معارف کو اس وقت شناخت شده اور انسان کی پهنچ میں جان بھی لے، پھر بھی یقین کے ساتھه کها جا سکتا هے که ماضی میں ایسا نهیں تھا، یه امر اس سلسله میں قرآن مجید کے معجزه هونے میں کوئی مشکل پیدا نهیں کرسکتا هے- قابل توجه بات هے که قرآن مجید کے اس معجزه کا ثبوت اس کے لانے والے کے ذریعه پیش نهیں کیا گیا هے، بلکه یه عمیق علوم و معارف اس قدر عظمت والے هیں که اس زمانه کے دانشوروں کی فکر کے دائره سے بالاتر تھے اور کلی طور پر یه انسان کی فکر نهیں، بلکه یه وحی الهی کی نشانی اور علامت هے-
د۔ قرآن مجید میں بیان شده معارف و علوم کی تردید کرنے میں انسان کی عاجزی اور ناتوانی:
صدیاں گزرنے کے بعد اور انسان کے علم و دانش میں کافی ترقی اور علم و هنر اور تهذیب و تمدن کی دگرگونیوں کے باوجود، قرآن مجید میں بیان شده مطالب میں سے کوئی ایک مطلب رد یا منسوخ نهیں هوا هے اور یهی امر قرآن مجید کے آسمانی هونے کی حقانیت کو ثابت کرتا هے-
اس نکته کو بیان کرنا مفید هے که اگرچه ---منطق و ریاض کے مانند--- بعض انسانی علوم کی ایک مجموعه کی صورت میں تدوین کی گئی هے اور قدیم زمانه سے همیں یه علوم وراثت میں ملے هیں، اور منسوخ نهیں هوئے هیں، لیکن همیں توجه کرنی چاهئیے که اولاً: یه علوم و دانش، ابتدائی واضحات یا فطرت کی صورت میں هر عقلمند کی فکر میں پنهان تھے اور جن لوگوں نے ان مسائل کو تدوین کرنے کا اقدام کیا هے، حقیقت میں وه جمع کرنے والے تھے، نه که انهیں لانے والے- ثانیاً: کلی طور پر جن کتابوں کو انسان تالیف کرتا هے، وه ایک خاص علم و موضوع کے بارے میں هوتی هیں، جبکه قرآن مجید کے علوم و معارف کے چهرے سے چمکنے والی خصوصیات میں سے ایک ان علوم کے مباحث کی وسعت هے اور ایک بات میں دسیوں مطالب کی طرف اشاره هے-
اس قسم کے گوناگوں علوم کا قرآن مجید میں موجود هونا بذات خود قرآن مجید کے معجزوں میں سے ایک معجزه کی صورت هے- بھلا کون انسان ایسا کر سکتا هے که متفاوت علوم اور مختلف علمی دائروں کو اتنی دقت نظر، استحکام بیان اور وسعت موضوعات کے ساتھه حاصل کر کے مسائل کو اس طرح باهم جوڑ دے که اس کلام کے صدروذیل میں ایسے نتائج ابھر آئیں جن سے نه مقصود ضائع هو، نه سلسله ٹوٹے، نه کوئی خطا سرزد هو اور اس طرح صدیوں تک یه کلام روشن رهے اور هر قسم کی تردید و تنسیخ سے محفوظ رهے[9]-
۳۔ قرآن مجید کا، لانے والے کے لحاظ سے معجزه:
قرآن مجید کے معجزه کی یه صورت قدیم زمانه سے زیر بحث رهی هے، اور یه اس مطلب پر مشتمل هے که رسول اکرم صلی الله علیه وآله وسلم ایک امّی شخص تھے، پس آپ{ص} کیسے علم تهذیب و تمدن سے نا آشنا جزیرۃ العرب کے لوگوں میں اس قسم کی کتاب لانے میں کامیاب هوئے هیں[10]؟
قابل ذکر بات هے که معجزه کی بحث، اگر چه عام طور پر قرآنی علوم کے مباحث میں بیان کی جاتی هے، لیکن حقیقت میں یه ایک کلامی بحث هے- اس لئے بعض کلامی کتابوں میں بھی اس کا ذکر آیا هے[11]-
مزید مطالعه کے لئے مندرجه ذیل منابع کا مطالعه کیا جا سکتا هے:
هادوی تهرانی، مھدی، "مبانی کلامی اجتهاد"، موسسه فرھنگی خانه خورد، قم، طبع اول، ۱۳۷۷ ھ ش-
[1] ملاخطه هو: ثامنى، سید مصطفى، وجوه اعجاز قرآن ( مجموعه مقالات دومین کنفرانس تحقیقاتى علوم و مفاهیم قرآنکریم، دارالقرآن قم) ص 178 - 168.
[2] ایضاً، ص 169.
[3] ملاخطه هو: محمود ابوریه، اضواء على السنة المحمدیة، ص 42 .
[4] ایضاً، ص46.
[5] ایضاً، ص47.
[6] اس سلسله میں قدر کے عنوان سے ایک سافٹ وئیر کا مطالعه کیا جا سکتا هے جسے ڈاکٹر سید علی قادری نے مرتب کیا هے-
[7] کیا یه لوگ قرآن {کے معنی} میں غوروفکر نهیں کرتے هیں که اگر غیر خدا کی طرف سے هوتا تو اس میں بڑا اختلاف هوتا-" {سوره نساء/۸۲}
[8] "روم والے مغلوب هو گئے، قریب ترین علاقه میں لیکن یه مغلوب هو جانے کے بعد عنقریب پھر غالب هو جائیں گے، چند سال کے اندر" {سوره روم/۳-۱}
[9] علامه طباطبائی سے نقل کیا گیا هے که تمام معارف قرآن کو قرآن مجید کے هر سوره سے استخراج کیا جا سکتا هے- اگر ایسا هو تو اس کے یه معنی هیں که هر سوره میں تمام معارف موجود هیں، یعنی یه تمام معارف مختلف صورتوں میں ایک سو چوده بار بیان کئے گئے هیں- یه قرآن مجید کا ایک حیرت انگیز پهلو هے-
[10] بعض مستشرقین نے اس صورت کے بارے میں کها هے که: پیغمبر اسلام {ص} تعلیم یافته تھے اور ادیان گزشته کے علماء کے پاس آمد و رفت رکھتے تھے اور ان کے پاس سبق پڑھے هیں- آپ{ص} نے -----نعوذ باالله---قرآن مجید کو ان اطلاعات کے مطابق لکھا هے- اگر قرآن مجید میں جزیرۃالعرب کے لوگوں کو امی کها گیا هے، تو اس کے یه معنی هیں که وه معارف الهی سے آگاه نهیں تھے، نه اس لئے که ان پڑھ تھے- جزیرۃالعرب کے لوگوں میں تعلیم یافته افراد موجود تھے، حتی که کافی معلومات رکھنے والے بھی تھے، بلکه اس سے مراد یه هے که آپ{ص} ایک امی امت یعنی معارف الهی سے نا آشنا امت کے پیغمبر تھے- لیکن غیرجانبدار محققین کی تحقیق نے ثابت کیا هے که یه باتیں بے بنیاد هیں اور یه سب توجیهات قرآن مجید کے معجزه سے انکار کرنے کے لئے هیں-{ملاخطه هو: "علوم حدیث" ، تالیف: ڈاکٹر منیجی صالحی، مصطلحه، ص ۲-۳}
[11] هادوى تهرانى، مهدى، مبانى کلامى اجتهاد، ص 51 - 47.