کیا اھل سنت " الی " کے معنی " سمت " میں کرتے ھیں اور اسی وجھ سے اپنے ھاتھوں کو کھنی کے سمت میں دھوتے ھیں ؟ اس سلسلھ میں پیغمبر اسلام صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم کی سیرت کیا تھی؟
آیھ وضو میں لفظ" الی " کے بارے میں قابل ذکر بات ھے کھ یھ صرف دھونے کی حد اور مقدار بیان کرنے کےلئے ھے ، نھ کھ دھونے کی کیفیت بیان کرنے کے لئے ۔ یعنی آیھ شریفھ میں ، وضو میںجو ھاتھه کی حد اور مقدار دھونی چاھئے ، وه کھنی تک معین ھوئی ھے اور لفظ " الی " غایت ( انتھا) کے معنی میں ھے ، لیکن مغسول کا غایت نھ کھ غسل کا اور چونکھ جب کھا جائے کھ ایک ھاتھه کو دھویا جائے ، ممکن ھے دھونے والے کے ذھن میں آئے کھ اگر کلائی تک دھولیں تو کافی ھے ۔ اس وھم و گمان کو دور کرنے کے لئے۔ ارشاد ھوا ھے کھ کھنی تک دھویا جائے ، لھذا شیعھ فقھا و ضو میں ، ھاتھوں کو اوپر سے نیچے کی طرف دھونا واجب جانتے ھیں اور س سلسلھ میں اھل بیت علیھم السلام کے ذریعھ بیان شده رسول خدا صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم کے عمل و سنت کو اس معنی کے لئے بھترین گواه جانتے ھیں۔
اھل سنت نے بھی اگرچھ " الی " کو "سمت " کے معنی میں لیا ھے اور ا س لحاظ سے نیچے سے اوپر کی طرف دھونے کو بھتر جانتے ھیں ۔ لیکن اس کے باجود کھتے ھیں کھ آدمی ھاتھوں کو نیچے سے اوپر کی طر ف یا برعکس دھونے میں اختیار رکھتا ھے ، پس انھوں نے بھی لفظ " الی " سے انگلیوں کےسرے سے کھنی تک دھونے کے وجود کا استفاده نھیں کیا ھے ۔
سوال کا جائزه لینے سے پھلے درج ذیل تمھید کی طرف اشاره کیا جاتا ھے :
شیعھ فقھا اس بات کے قائل ھیں کھ وضو کے لئے ھاتھوں کو اوپر سے نیچے کی طرف دھونا واجب ھے ، لیکن اھل سنت متفقھ طورپر کھتے ھیں کھ انسان کو اختیار ھے کھ ھاتھوں کو نیچے سے اوپر کی طر ف یا برعکس دھولیں ۔ لیکن نیچے ( انگلیوں کے سرے) سے اوپر کی طرف دھونا مستحب ھے ۔ [1]
شیعھ فقھا کی دلیل ان روایا ت پر مبنی ھے جن میں بیان کیا گیا ھے کھ : رسول خدا صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم ھاتھوں کو اوپر سے نیچے کی طرف دھوتے تھے ۔[2]
اور ایک صحیح روایت ھے کھ امام معصوم (ع) نے وضو سے متعلق آیت کی تفسیر میںفرمایا ھے : [3] : " ھاتھوں کو اوپر سے نیچے کی طرف دھونا چاھئے" [4]
لیکن قرآن جید کی آیھ شریفھ : " یا ایھا الذین آمنوا اذا قمتم الی الصلاۃ فاغسلوا وجوھکم و ایدیکم الی المرافق۔۔۔۔" ایمان والو ! جب نماز کے لئے کھڑے ھوجاؤ ،چھره اور ھاتھوں کو کھنی تک دھولو۔۔۔" میں لفظ " الی " صرف دھونے کی حد اور مقدار بیان کرنے کےلئے ھے ، نھ کھ دھونے کی کیفیت بیان کرنے کےلئے ۔
آیھ شریفھ میں وضو کے دوران ھاتھه کو دھونے کی حد کھنی تک[5] معین ھوئی ھے ، اس کی وضاحت اس طرح سے کی جاسکتی ھے کھ جب کسی سے کھا جائے کھ ھاتھه کو دھولے ، ممکن ھے اس کے ذھن میں آئے کھ اگر ھاتھه کو کلائی تک دھولیا جائے تو کافی ھے ، کیونکھ عام طورپر ھاتھه دھونے میں اسی قدر دھویا جاتا ھے ، اس وھم کو دور کرنے کے ئے ارشاد ھوا ھے کھ ھاتھ کو کھنی تک دھولیا جائے ۔
مذکوره بیان کو واضح کرنے کےلئے اس مثال سےاستفاده کیا جاسکتا ھے ؛ مثلا : مسجد کے خادم سے کھا جاتا ھے کھ " اکنس المسجد من الباب الی المحراب " "مسجد میں دروازه سے محراب تک جھاڑو دیدو " یھاں پر کھنے والے کی مراد وه حد اور مقدار ے جسے جاڑودینا ھے اور وه یھ نھیں کھنا چاھتاھے کھ کھاں سے شروع کرے اورکھاں پر ختم کرے خاص طورپر جب کھ آیھ شریفھ میں لفظ "من" نھیں آیا ھے ۔ پس مذکوره آیت میں لفظ "الی " مستحب کے طور پر بھی نھیں کھتا ھے کھ ھاتھوں کو انگلیوں کے سروں سے کھنی کی طرف دھویا جائے ۔
رسول اللھ صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم کا عمل اور آپ ( ص) کی سنت ، جو اھل بیت علیھم السلام کے توسط سے بیان کی گئی ھے ، اس معنی کی بھتریں گواه ھے۔ [6]
پس " الی " یا " غایت " [7] کے معنی میں ھے ، لیکن غایت مغسول [8] نھ کھ غسل اور دھونا[9] اور یا شیخ طوسی ( رح) کے ارشاد کے مطابق " من" [10] یا " مع" [11] کے معنی میں ھے ۔ [12]
[1] الفقھ علی المذاھب الخمسۃ ، ص ۸۰ ، الفقھ علی مذاھب الاربعۃ ، ج ۱ ص ۶۵۔ مبحث بیان عدد السنن و غیرھا ۔۔ ، صلاۃ المومن القحاطانی ، ج ۱ ص ۴۱، ۴۲۔
[2] ملاحظھ ھو: وسائل الشیعھ ، ج ۱ ص ۳۷۸۔ ، ابواب الوضو ، با ۱۵ ، باب کیفیۃ الوضو و جملۃ مں احکامه،
[3] سوره مائده/ ۶۔
[4] وسائل الشیعھ ، ج ۱ ، ابواب الوضو، با ۱۹ ح۱۔
[5] " مرافق" جمع "مرفق" کھنی کے معنی میں۔
[6] مزید آگاھی کیلئے ملاحظھ ھو : عطائی اصفھای ، علی ، چرا ؟ چرا؟ ص ۱۹ أ ۳۷۔
[7] تا
[8] یعنی ھاتھه دھونے کی حد کھنی تک ھے۔
[9] یعنی یه نھیں ھے کھ کھنی تک دھونا ھے اس لحاظ سے وھم ھوسکتا ھے کھ دھونے کی کیفیت کھنی کی طرف ھو۔
[10] سے
[11] معھ
[12] وسائل الشیعھ ، ج ۱ ، ص ۴۰۶۔