بعض محقیقن کی نظر میں، نھج البلاغه کا خطبھ ۱۸ ، خطبھ نمبر ۱۷ کا ایک حصھ ھے، جس کو سید رضی ( رح) نے اپنی کتاب میں الگ سے ذکر کیا ھے، اور اسے ایک مستقل خطبھ کی صورت میں پیش کیا ھے۔
البتھ اس خطبھ کا مضمون اور مفھوم بھی اسی امر کی گواھی دیتا ھے۔ کیوں کھ خطبھ نمبر ۱۷ کا موضوع ، وه جاھل اور غیر صالح قاضی ھیں جو اپنے غلط فیصلوں کے ذریعے لوگوں کی جان و مال کے تحفظ کو خطرے میں ڈالتے ھیں۔ یھ لوگ سست اور بے بنیاد دلیلوں ،جیسے " قیاس " ، " استحسان" اور " رأی" کی بنا پر لوگوں کے درمیان فیصلے کرتے ھیں اور اسے " حکم اللھ " مشھور کرتے ھیں۔
اس کے بعد امام علی علیھ السلام ان قاضیوں کے اختلاف نظر کے مختلف پھلوؤں کو بیان کرکے " "نظریھ تصویب "[i] کے باطل ھونے پر اپنا گهرا ، مدلل اور منطقی تجزیھ پیش کرکے اس کو رد کرتے ھیں۔
آخر میں امام علی علیھ السلام صرف قرآن مجید پر عمل کرنے کو حقیقت تک پھنچنے کا واحد راستھ پھچنواتے ھیں اور قرآن مجید سے متعلق مسائل کو بیان کرتے ھیں۔اس بنا پر خطبے کے دقیق اور عمیق مطالب کا شیعھ فقھاء کے اجتھاد (جس کا اصلی منبع قرآن کریم ھے ) کو رد کرنے سے دور کا واسطھ بھی نھیں ھے۔ بلکھ یھ خطبھ اس اسلوب اور روش کی تائید بھی کرتا ھے۔
[i] "تصویب " کا مطلب یھ ھے کھ قاضیوں اور مفتیوں کے نظریات ایک دوسرے کے برخلاف ھونے کے باوجود وه سب احکام واقع کے مطابق اور حکم الھی ھیں۔
بعض محققین کی نظر میں، نھج البلاغه کا خطبھ ۱۸ ، خطبھ ۱۷ کا ایک حصھ ھے جو سید رضی ( رح) کی کتاب میں الگ سے ذکر کیا گیا ھے۔ اس خطبے کا مضمون اور اس کے مطالب بھی اس امر کی گواھی دیتے ھیں۔ کیوں کھ خطبھ نمبر ۱۷ میں غیر صالح اور بے علم قاضیوں کے بارے میں گفتگو ھے جو اپنی غلط قضاوت سے لوگوں کی جان، مال اور عزت کو خطرے میں ڈالتے ھیں اور اس طرح بھت سی سماجی برائیوں کی جڑ بنتے ھیں۔ جب کھ خطبھ نمبر ۱۸ میں بھی امام علی علیھ السلام کا موضوع سخن وه قاضی ھیں جو اپنی سست اور بے جان دلیلوں، جیسے " قیاس" ، " استحسان" اور " رأی" پر تکیھ کرکے لوگوں کے درمیان قضاوت کرکے اسے "حکم اللھ " مشھور کرتے ھیں۔
امام علی علیھ السلام اپنی گفتگو کا آغاز اس طرح فرماتے ھیں:
"ایک شخص کے پاس کسی مسئلھ کا دعویٰ آتا ھے تو وه اپنی رأے سے فیصلھ سناتا ھے اور پھر یھی قضیه بعینھ دوسرے کے پاس جاتا ھے تو وه اس کے خلاف فیصلھ سناتا ھے، اس کے بعد تمام قاضی اس حاکم کے پاس جمع ھوتے ھیں جس نے انھیں قاضی بنایاھے تو وه سب کی رائے کی تائید کرتاھے "
شاید یھ مسئلھ بھت سے لوگوں کیلئے عجیب لگے جس میں تناقض پر مبنی فیصلوں کو صحیح اور درست مان کر، انھیں حکم الھی جاناجاتا ھے ۔ لیکن یھ ایک حقیقت ھے اور بعض اھل سنت حضرات اس عقیدے ( تصویب ) کے قائل ھیں ۔ البتھ انھوں نے اپنے آپ کو ایک ایسی تنگی میں ڈال دیا ھے جس کی وجھ سے وه اس عقیده تصویب کو قبول کرنے پر مجبور ھوتے ھیں۔
حضرت امام علی علیھ السلام اس غیر صحیح فکر کو رد کرکے فرماتے ھیں: "جب کھ ان کا خدا ایک اور ان کا نبی ایک اور ان کی کتاب ایک ھے "!
اس میں کوئی شک نھیں ھے کھ ایک مسئلھ میں خدائے واحد سے حکم واحد ھی صادر ھوگا ، کیوں کھ وه سب حقائق سے آگاه ھے اور وه سب چیزوں کو بغیر کسی کمی کے جانتا ھے ، وه نھ غلطی کرتا ھے اور نھ بھول چُوک ی اس کی مقدس ذات میں ممکن ھے۔ وه نھ ھی پشیمان ھوتا ھے اور نھ ھی گزرتا وقت اس کیلئے کسی مجھول چیز کو معلوم بناتا ھے۔ پس اس کی ذات کی طرف سے کوئی اختلاف نھیں ھوسکتا ھے۔
اس کے علاوه ان کا پیغمبر (صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم ) بھی ایک ھی ھے۔ اور وه ھر چیز ( وحی کو لینے ، اور اسے پھچانے ۔۔۔۔) میں معصوم ھے اور الھی حکم کو بغیر کسی کمی کے بیان کرتا ھے ، پس پیغمبر کی طرف سے بھی اختلاف ممکن نھیں ھے۔ قرآن مجید بھی جو ان کے لئے قانون کی کتاب ھے، اس میں کسی قسم کی تحریف اور تغییر کی صورت نھیں پائی ھے ، اور اس کے معانی اور مطالب میں کسی قسم کا اختلاف بالکل نھیں ھے۔ اس لئے ان قاضیوں کے درمیان موجود اختلاف کی وجھ ان کے نا درست افکار ھیں۔
در اصل امام علی علیھ السلام اس خطبھ میں "تصویب "پر اعتقاد اور تناقض نظریات کو صحیح جاننا، توحید کی اصل سے انحراف اور ایک طرح کا شرک جانتے ھیں۔
خطبے کے دوسرے حصے میں ، امام علی علیھ السلام تفصیلی طورپر تصویب کے نظریھ کو باطل قرار دیتے ھیں اور اس سلسلے میں بعض صورتوں کو بیان کرتے ھیں:
پھلی صورت : کیا خدائے سبحان نے انھیں اختلاف اور پراگندگی کا حکم دیا ھے؟ یھ صورت قطعا باطل ھے ، کیونکھ ایک خدا ھمیشھ وحدت اور اتحاد کی دعوت دیتا ھے۔
دوسری صورت: کیا خدا نے انھیں اختلاف سے منع کیا ھے اور وه خدا کی مخالفت کررھے ھیں۔ یھ صورت بھی صحیح نھیں ھے کیونکھ سب قاضی یھ دعویٰ کرتے ھیں کھ وه فرمان الھی کی اطاعت کرتے ھیں۔
تیسری صورت: کیا خدا کا دین ناقص تھا اور اس کی تکمیل کرنے میں ، ان سے مدد مانگی ھے۔ یھ صورت بھی صحیح نھیں ھے کیوں کھ سب مسلمان خدا کے دین کو سب سے کامل دین جانتے ھیں ۔
چوتھی صورت: کیا یھ خدا کے شریک ھیں اور کیا انھیں یھ حق حاصل ھے کھ حکم اور قانون بنائیں؟ یھ صورت بھی ناممکن ھے ، کیونکھ کوئی مسلمان اس طرح کے شرک کو نھیں مانتا کھ اپنے آپ کو خدا کا شریک ٹھرائے (نعوذ باللھ )
پانچویں صورت: کیا خدا نے کامل دین نازل کیا ھے ، لیکن پیغمبر نے اس دین کی تبلیغ اوراس کی ادائیگی میں سستی کی ھے ؟ یھ صورت بھی نا ممکن ھے ، کیونکھ پیغمبر کے بارے میں کسی بھی مسلمان کا یھ عقیده نھیں ھے۔
در حقیقت امام علیھ السلام ان پانچ صورتوں کو بیان کرکے "تصویب" تک پھنچنے کے سب راستوں کو بند کرتے ھیں ۔ اور اس طرح "تصویب" کو باطل اور اسے رد کرتے ھیں ۔
آگے چل کر امام علیھ السلام قرآن مجید پر عمل کرنے کو حقیقت تک پھنچنے کا واحد راستھ جانتے ھیں، کیونکھ قرآن مجید میں ھر چیز بیان ھوئی ھے اور یھ چاھئے بھی کھ پیغمبر اکرم صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم اور ائمھ طاھرین علیھم السلام کی احادیث کی مدد اور استعانت سے احکام کواستنباط کیا جائے۔
خطبھ کے آخر میں امام علی علیھ السلام قرآن مجید کی صفات بیان کرکے فرماتے ھیں: قرآن کا ظاھر خوبصورت اور باطن عمیق اور گھرا ھے۔۔۔۔۔اس کے عجائب لافانی ھیں اور اس کے پوشیده اسرار کبھی انتھا کو نھیںپھنچیں گے تاریکیوں کا خاتمھ اس کے علاوه اور کسی کلام سے نھیں ھوسکتا ھے۔
پس امام علی علیھ السلام اس خطبھ میں مسلمانوں کو تصویب کے عقیدے سے دور رکھتے ھیں اور انھیں قرآن کی طرف رجوع کرنے اور قرآن کی مدد سے احکام کو استنباط کرنے پر زور دیتےھیں۔ اور حقیقت میں یھ خطبھ شیعھ فقھا کے درمیان رائج اجتھاد کی جانب راغب کرتا ھے۔ [1]
یھاں یھ بات قابل ذکر ھے کھ قرآن مجید اور پیغمبر اسلام صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم کے بارے میں فقھاء کا نظریھ دو طرح کا ھے :
۱۔ بعض کتاب اور سنت کو کافی نھیں جانتے ھیں، اور دینی مسائل کے جواب کیلئے دوسرے منابع کی جانب رجوع کرتے ھیں اور ان منابع میں اختلاف کا شکار ھوتے ھیں۔ ان میں سے بعض "قیاس" [2] کے قائل ھوئے ھیں اور دوسرے "مصالح مرسلھ" کو فوقیت دیتے ھیں اور بعض کچھه اور امور کے قائل ھوئے ھیں۔
۲۔ دوسرا گروه کتاب اللھ اور سنت پیغمبر اکرم صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم کو دین کے دو اصلی سر چشمے قرار دیتا ھے جانتے ھیں اور ان کے متن [3] کو سمجھنے میں بھت ھی غور و فکر اور محنت کرتا ھے۔ لیکن یھ قدرتی بات ھے کھ ان کے متون کو سجمھنے میں سب انسان ایک جیسے نھیں ھیں اور اسی وجھ سے اختلاف نظر وجود میں آتا ھے۔ [4]
یھ ایک مسلم امر ھے کھ حضرت امیر المومنین علیھ السلام نےایک طبیعی امر پر مذمت نھیں کی ھے بلکھ یھ مذمت مختلف جھات سے ممکن ھے جن میں سے بعض مندرجھ ذیل ھیں۔
الف ) "نص " کے مقابل میں "رأی" پر عمل کرنا ۔
ب) حکم کو صحیح سمجھنے کیلئے قاضی اپنی پوری کوشش نھیں کرتا بلکھ حکم کی دلیلوں پر ناقص طریقے سےغور کرتا ھے۔
ج) کلام خدا کو سمجھنے کیلئے صحیح اسلوب اور روش کو کام میں نھیں لاتا ھے۔
د) اھل البیت علیھم السلام کے ھوتے ھوئے (جو دین کے حقیقی تفسیر کرنے والے ھیں) ، دوسرے لوگوں کے پیچھے جانا۔اور اپنے آپ کو اھل بیت علیھم السلام کی تعلیمات سے محروم کرنا۔
ھ) کتاب اور سنت کی طرف رجوع نھ کرنا بلکھ "قیاس" اور "استحسان" جیسے قواعد کو استعمال میں لانا۔
لیکن شیعھ فقھا کے درمیان احکام کے سلسلے میں موجود اختلاف مذکوره صورتوں میں سے نھیں ھے۔
آخری نکتھ :
احکام شرعی میں فقھاء کے درمیان اختلاف بھت ھی شاذ و نادر ھے کیوں کھ ضروریات اسلام جیسے نماز و روزه، وغیره۔۔۔۔ کے بارے میں کسی قسم کا اختلاف موجود نھیں ھے اور غیر ضروریات اسلام میں اگرچھ ممکن ھے کھ نظریات اور فتاوی میں اختلاف ھو لیکن اس طرح کا اختلاف فطری اور غیر قابل مذمت ھے۔[5]
[1] مزید آگاھی کیلئے رجوع کریں : پیام امام ( شرح نھج البلاغھ، ) آیت اللھ مکارم شیرازی اور گروه تالیف ، ج ۱ ص ۶۰۸۔
[2] فقھ کی اصطلاح میں "قیاس " سے مراد وھی منطق کی اصطلاحی تمثیل ھے جو کسی بھی صورت میں قابل یقین نھیں ھے بلکھ زیاده سے زیاده ظن و گمان کا موجب بنتی ھے۔
[3] دینی متون کی صحیح سمجھه اسلوب کے مطابق ھونا چاھئیے۔اور اس لئے ایک موضوع کو صحیح سمجھنے کیلئے اس سے مربوط مسائل کی طرف رجوع کرنا ضروری ھے۔ اس کے باوجود اگر کسی نے معتبر ادلھ شرعیھ کے ذریعے خدا کے احکام کو سمجھنے کی کوشش کی ، پھر اس سلسلے میں اس نے غلطی کی تو وه مذمت کا مستحق نھیں ھے بلکھ کسی حکم تک پھنچنے کیلئے کوشش کرنے پر وه اجر کا بھی استحقاق رکھتا ھے۔
ھماری روایی کتب میں ائمھ معصومیں سے منقول احادیث میں آیا ھے ، کھ اس مجتھد کےلئے جو حکم الھی کو سمجھنے کیلئے کوشش کرتا ھے اگر خدا کے حکم کو صحیح سمجھه لیتاھے ، ا سے دو اجر ملیں گے۔ ( ایک اجر کوشش اور تلاش کیلئے دوسرا اجر صحیح حکم تک پھنچنے کیلئے ) اور اگر کوئی مجتھد اپنی کوشش اور تلاش کے باوجود صحیح حکم کو نھ پا سکا اور حکم کو منطبق کرنے میں غلطی کی تواس کے لئے ایک اجر محفوظ ھے ، اور وه اجر اس کی تلاش اور کوشش کیلئے ھے۔ دوسرے الفاظ میں یوں کھا جاسکتا ھے کھ دو طرح کی غلطیاں ھیں:
الف) روش اور اسلوب میں غلطی ، یعنی احکام شرعی کو استنباط کرنے کیئے غیر مقبول اسلوب پر عمل کیا جائے اور غلطی میں مبتلا ھوں۔
ب) تطبیق کرنے میں غلطی کرنا، یھ انسان کے اختیار سے باھر ھے، اور اس طرح کی غلطی غیر معصوم افراد کو پیش آتی ھے ، مذمت ھمیشھ اختیاری امر پر ھے غیر اختیاری کام کبھی مذمت کے قابل نھیں۔
[4] ایک طرف سے منابع استنباط میں موجود ضعیف اور متناقض روایات اور دوسری طرف سے فقھاء کے اصول اور مبنا میں اختلاف ، علماء کے فتاوی میں اختلاف پیدا ھونے کا سبب بن جاتا ھے ، مثال کے طور پر ایک فقیھ کسی روایت کو صحیح جانتا ھے اور دوسرا فقیھ اسے صحیح نھیں جانتا ھے،
[5] اجتھاد کیلئے ضروری علوم کے حوالے سے مزید آگاھی کیلئے ملاحظھ کریں ، مبانی کلامی اجتھاد، استاد ھادوی تھرانی ، ج ۲۔ اور عنوان ، "قرآن و اجتھاد" ، سوال نمبر ۶۶۔