سورهٔ صافات کی مد نظر آیات گذشته امتوں کا ماضی بیان کر رهی هیں که خداوند عالم نے شرک کے سبب ان میں سے اکثر کو عذاب میں گرفتار کیا، سوائے چند لوگوں کے جنھوں نے خود کو خالص اور پاک رکھا تھا مخلَصین صرف انبیاء کو هی شامل نهیں هے بلکه غیر انبیاء کو بھی شامل هے اس لئے که اسی سوره ٔ میں اس کے فوراً بعد حضرت نوح کا قصه بیان هوتا هے که واضح طور پر ان کے ساﺘﮭ کشتی میں سوار هو کر نجات پانے والے عام انسان بھی تھے مگر خدا پرست تھے ۔
اسی طرح همیشه ایسا نهیں هے که اسم مفعول کو اسم فاعل پر برتری حاصل هو بلکه اس قالب میں استعمال هونے والے ماده کے اعتبار سے یه بات فرق کرتی هے مثال کے طور پر رازق ( اسم فاعل هے اور خداوند عالم کی صفت ) کو مرزوق پر برتری حاصل هے اس لئے که مرزوق مخلوقات کی صفت هے اور خالق کی صفت کو مخلوق کی صفت پر برتری حاصل هے اسی طرح خالق و مخلوق وغیره هے ، لیکن یهاں پر مخلِص ؛ یعنی خالص کرنے والا اورمخلَص ؛ یعنی جو شخص مخلِصین کے رنج کو تحمل کرنے کے بعد خداوند عالم کی جانب سے مخلَص اور پاک قرار دیا گیا هے ، اسی لئے مخلَصین کا درجه مخلِصین کے مقابله بلندوبرتر هے۔
پیش نظر آیات کا سیاق کفار کی طرف آیات الٰهی کی تکذیب اور شرک اور ان پر نازل هونے والے عذاب کی طرف اشاره کر رها هے علامه طباطبائی مرحوم سورهٔ صافات آیت 73- 74 کے ذیل میں فرماتے هیں:[1]
یه وه کلام هے جس کا سیاق اس امت میں مشرکوں کو ڈرانے کے لئے هے جس میں اس امت کے مشرکوں کو گذشته امتوں کے مشرکوں سے تشبیه دیا گیا ، اس لئے که گذشته امتوں کی اکثریت گمراه هوئی تھی جس طرح یه گمراه هوئے هیں اور ان امتوں کی طرف بھی رسولوں کو بھیجا گیا تھا جس طرح اس امت کی طرف رسول بھیجے گئے ، ان لوگوں نے رسول کی تکذیب کی سوائے چند گنے چنے بندے هیں یا بطور اعم مخلَصین اور انبیاء هیں ۔[2]
لهٰذا اس آیت میں مخلَصین سے مراد صرف انبیاء نهیں هیں، بلکه اس میں خداوند عالم کے مخلَص بندوں کو بھی شامل کیا گیا هے اور وهی لوگ هلاک هوں گے جو مشرک هوں گے جس طرح حضرت نوح و ابراهیم کے زمانے والے مشرک جن کی کهانی اسی سوره میں اس کے بعد ذکر هوئی هے که سوائے چند افراد کے باقی سب مشرک تھے اور هلاک هو گئے ۔
مخلِص اور مخلَص کے درمیان فرق کی باز گشت اس ( خلص کے ماده کے معنی میں فرق کی جانب سے هے نه که اسم فاعل و اسم مفعول کی طرف ؛ یعنی ایسا نهیں هے که جب کبھی کوئی صفت اسم مفعول کی صورت میں ذکر هو یا اسم فاعل کی صورت میں ذکر هو تو اسے ایک دوسرے پر برتری حاصل هو بلکه یه برتری فعل کے ماده سے وابسته هے مثال کے طور پر رازق ( اسم فاعل ) خداوند عالم کے اوصاف میں سے هے جو خداوند عالم کے روزی عطا کرنے کو بیان کرتی هے اور مرزوق ( اسم مفعول ) خداوند عالم کے مخلوقات کی صفت هے که جنھیں خداوند عالم روزی عطا کرتا هے ، واضح سی بات هے که خداوند عالم کی صفت مخلوق کی صفت پر برتری رکھتی هے ، اسی طرح سے خالق و مخلوق هے ، لیکن ماده ( خلص ) میں مخلِص ؛ یعنی خالص کرنے والا جو اکثر و بیشتر انسان کے تزکیه نفس اور خودسازی کے ابتدائی مراحل کے وقت استعمال هوتا هے ، لیکن مخلَص تزکیه نفس کے بعد اعلیٰ مراحل کو بیان کرتا هے ، یعنی وه مرحله جهاں شیطان وسوسه کرنے سے مایوس هو جاتا هے ۔[3] اور اس کے معنی خداوند عالم کی جانب سے خالص اور پاک هونے والا هے۔
سورهٔ حجر میں خداوند عالم شیطان کا قول نقل کرتے هوئے فرماتا هے '' میں پوری نسل انسانی کو گمراه کروں گا سوائے تیرے مخلَص بندوں کے ''[4] یعنی امت کے مخلَصین پر شیطان قابونهیں پائے گا اور باقی امت اگر چه اس درجه پر نهیں هے لیکن پھر بھی ضروری نهیں هے که مخلَصین کے علاوه سارے هلا ک هو جائیں ۔ شاید بهت زیاده مخلِص انسان ، تزکیه نفس اور اپنی کوشش کے ذریعه خود کو برائیوں سے پاک کرکے اعلیٰ درجوں پر پهنچ جائیں اور ان میں بعض اپنی ظرفیت کے مطابق خداوند عالم کی جانب سے باقی تمام برائیوں سے پاک کر دیئے جائیں اور پاک هونے والوں کے مرتبه تک پهنچ جائیں ، البته اس مرتبه تک رسائی ان کی بے حساب ان کو کوششوں کی بدولت هوگی جو انھوں نے مخلَص بننے کی راه میں انجام دیں هوں ؛ دوسری طرف سے خداوند عالم کی حکمت بھی اثر گزار هے ۔