اگرچه الله ایک هے اور قاعدتا اپنے بارے میں خبر دینے کے لئے ضمیر واحد استعمال هونا چاهئے اور اسی وجه سے قرآن میں متعدد مقامات پر اسی طرح کی تعبیر استعمال هوئی هے۔ لیکن عربی زبان میں اور کبھی غیر عربی میں بھی متکلم ﮐﭼﻬ اسباب کے تحت اپنے لئے ضمیر واحد کے بجائے ضمیر جمع کا استعمال کرتا هے۔ ان اسباب میں سے بعض اس طرح هیں:
۱۔ اپنی عظمت سے مخاطب کو آگاه کرنے کے لئے
۲۔ انجام شده کام کی عظمت کو بتانے کے لئے
۳۔ ان اسباب و علل کی طرف توجه دینے کی خاطر جو کام کے انجام کے لئے قرار دئے گئے هیں
آپ کے سوال کا جواب دینے کے لئے دو مقدمه کا ذکر کرنا ضروری هے۔
پهلا مقدمه:
علم عقائد (کلام اسلامی) کے علماء نے الله کے ایک هونے پر متعدد عقلی دلائل قائم کئے هیں اور الله کے ایک هونے کا مطلب یه هے که صرف وه هے جو مستقل طور پر کسی کے سهارے کے بغیر خلق کرتا هے، روزی دیتا هے، هدایت کرتا هے اور مارتا هے نیز…۔ اور علم کلام میں ان کو خالقیت کی توحید، رزاقیت کی توحید اور هدایت کی توحید نیز… کها جاتا هے۔
دوسرا مقدمه
مندرجات بالا کا یه مطلب یه نهیں هے که کوئی بھی چیز خالقیت، رزاقیت اور هدایت میں کسی طرح بھی سببیت نهیں رکھتی هے، بلکه الله کی حکمت کا تقاضا یه هے که خلق کرنے، رزق دینے اور هدایت کرنے بلکه اپنے اکثر اعمال کو اسباب و علل کے راستے سے انجام دے۔[1]
مثلا اگرچه الله بغیر کسی واسطه کے براه راست بیماروں کو شفا دے سکتا هے یا بھوکے کو سیر کرسکتا هے یا پھر گمراهوں کو هدایت دے سکتا هے لیکن اپنی حکمت کی بنیاد پر اس نے یه پسند کیا هے که هر کام کے لئے خاص اسباب و علل قرار دے اور هر کام کو انھیں کے ذریعه انجام دے۔ لهذا بھوکے کو اس روٹی کے ذریعه سیر کرتا هے جو خود اسی نے پیدا کی هے، مریض کو اپنی خلق کرده دوا اور اپنے پرورده ڈاکٹر کے ذریعه شفا دیتا هے، البته روٹی، دوا اور ڈاکٹر بلکه تمام اسباب اسی کے اذن سے تاثیر پاتے هیں اور اپنا خاص نتیجه رکھتے هیں اور جب دوا، ڈاکٹر، روٹی اور پانی وغیره سب کے سب اپنے وجود کو دائما اسی سے لیتے هیں اور اس کے اذن سے یه اثرات رکھتے هیں تو یه سب کسی طرح بھی الله کی توحید اور اس کے مختلف زاویوں سے منافات نهیں رکھتے اور الله کے شریک نهیں هیں، بلکه یه سب مخلوقات هیں اور اپنی هر چیز منجمله تاثیر میں الله کی محتاج هیں۔
اب گذشته باتوں کے پیش نظر اصل جواب کی طرف آتے هیں:
اگر الله ایک هے اور قاعدتا اپنے افعال کے بارے میں خبر دینے کے لئے ضمیر واحد کا استعمال کرنا چاهئے[2] اسی سبب قرآن میں بارها اسی طرح سے کلام کیا گیا هے۔[3] لیکن عربی زبان میں اور کبھی غیر عربی زبان میں مختلف وجوهات کی بنیاد پر متکلم بعض جگهوں پر [میں] کهنے کے بجائے [هم] کا استعمال کرتا هے۔
ذیل میں ایسی بعض وجوهات کی طرف اشاره کیا جارها هے:
۱۔ قرآن کریم نے عام محاوره کی زبان کو اختیار کیا هے جو لوگوں سے رابطه کا بهترین ذریعه هے۔ اور عام لوگ اپنے محاوره میں کبھی کهتے هیں که فلاں بستی میں اتنے آدمی رهتے هیں جبکه یقینا بستی میں خواتین بھی هوتی هیں، اسی طرح قرآن میں هے که [انتم الفقراء الی الله] اس میں ضمیر [انتم] مذکر کی ضمیر هے جبکه خطاب عام هے اور عورت مرد دونوں کو شامل هوتا هے اور هر عاقل سمجھتا هے که تمام انسان مقصود هیں نه که صرف مرد۔ ضمیر واحد و جمع میں بھی ملتا هے که لوگ بهت سی جگهوں پر ضمیر واحد کے بجائے جمع کی ضمیر استعمال کرتے هیں؛ مثلا کهتے هیں که [هم آئے لیکن آپ نهیں تھے][4] اس میں [هم] اور [آپ] دونوں لفظیں بنیادی طور پر جمع کے لئے هیں جبکه متکلم کا مقصود واحد هے؛ لیکن احترام، تعظیم اور کسی کو اهمیت دینے کے لئے جمع کا استعمال کیا جاتا هے۔ الله کے سلسله میں بھی تعظیم و احترام و اکرام کے لئے ضمیر [نحن] کا استعمال کیا گیا هے۔[5]
بهر حال متکلم اپنی عظمت مخاطب کو بتانے کے لئے [میں] کے بجائے [هم] کا استعمال کرتا هے جو متکلم کی عظمت و بزرگی پر دلالت کرتا هے۔
قرآن کی ایک مثال: سوره فتح کی ابتدا میں فرماتا هے: انا فتحنا لک فتحا مبینا۔
بعض مفسرین نے لکھا هے که یهاں الله نے اپنی عظمت کی طرف اشاره کرتے هوئے فرمایا هے که هم نے شهر مکه کو فتح کیا: لیکن یهاں الله نے [هم] کیوں کها، ظاهر هے که یه اس لئے کها کیونکه عظمت کی طرف اشاره کرنے والی ضمیر [هم] فتح کے ذکر سے زیاده مناسبت رکھتی هے۔ یهی بات آیه [انا ارسلناک شاهداً…] میں بھی آئے گی۔[6]
۲۔ کبھی متکلم اپنے ذریعه انجام پانے والے کام کی عظمت کو بیان کرنے کے لئے [میں نے یه کام کیا] کے بجائے [هم نے یه کام کیا] کهتا هے جیسے: [انا انزلناه فی لیلۃ القدر] یا [انا اعطیناک الکوثر] جس میں قرآن اور کوثر کی عظمت مد نظر هے۔
۳۔ کبھی الله هم کو ان اسباب کی طرف متوجه کرنے کے لئے [هم] کا استعمال کرتا هے جنھیں اس نے کوئی کام انجام دینے کے لئے قرار دیا هے۔ لهذا [میں] کے بجائے [هم] کا استعمال کرتا هے۔ اسی وجه سے سوره رعد کی چوتھی آیت کے ذیل میں تفسیر المیزان کے اندر یوں لکھا هے:
یهی [هم نے بعض کو بعض پر برتری دی] میں [هم] کی تعبیر اس بات کی طرف اشاره سے خالی نهیں هے که الله کے علاوه بھی ﮐﭼﻬ الهی اسباب پائے جاتے هیں جو اسی کے امر پر عمل کرتے هیں اور سب کے سب الله هی تک جاکر ختم هوتے هیں۔[7]
الله کی ذات کے هر جهت سے یکتا هونے کے باوجود اس کے سلسله میں صیغه جمع کا استعمال اس کی عظمت کی طرف اشاره هے اور یه که همه وقت ﮐﭼﻬ مامورین اس کے منتظر و تابع فرمان رهتے هیں اوراس کی اطاعت امر کے لئے تیار رهتے هیں، اور در حقیقت صرف اسی کی بات نهیں هے بلکه اس کے بارے میں هے اور تمام مأمورین اسکے مطیع هیں۔
یاد دهانی
ممکن هے کسی آیت میں تینوں حکمتیں جمع هوں؛ یعنی جمع کی ضمیر استعمال کی گئی هو تاکه فاعل کی عظمت بھی بیان هو، فعل کی عظمت بھی اور اسباب کی طرف توجه بھی مقصود هو۔ جیسے [انا انزلناه فی لیلۃ القدر] یهاں تینوں حکمتیں صادق آتی هیں۔
[1] [ابی الله ان یجری الامور الا بالاسباب] کافی، ج۱، ص۱۸۳، باب معرفۃ الامام والرد علیه…۔
[2] یهاں یه سوال درست نهیں هے که الله نے بعض جگهوں پر ضمیر واحد کا استعمال کیوں کیا هے، صرف یه سوال ره جاتا هے که الله نے همیشه ضمیر واحد کو کیوں استعمال نهیں کیا هے؟ اور اس کا جواب آگے آرها هے۔
[3] جیسے: [ادعونی استجب لکم…] غافر/۶۰ اور…
[4] لکھنؤ میں آج بھی عام طور پر [میں] کے بجائے [هم] کا استعمال کرتے هیں۔ یهاں تک که لڑائی جھگڑے میں بھی یهی انداز برقرار رهتا هے۔ (مترجم)
[5] مزید معلومات کے لئے: ناصر مکارم، پرسش و پاسخ، ج۳، ص۲۵۶
[6] ترجمه (فارسی) المیزان ج۱۸، ۳۸۵
[7] ایضا، ج۱۱، ص۴۰۱