پہلے جاننا چاہئیے کہ بنی اسرائیل کا مسخ ھونا صرف اس لئے نہیں تھا کہ انھوں نے روزی کمانے کے لئے ماہی گیری کی تھی، کیونکہ صرف یہ کام انجام دینا گناہ نہیں تھا اور اس کا نتیجہ مسخ ھونا نہیں تھا، بلکہ اسلام کی منطق میں خدا کے نزدیک یہ کام عبادت ہے- امام صادق{ع} نے فرمایا ہے: جو شخص اپنے خاندان کے لئے روزی کمانے کے لئے کام کرتا ہے اور اس سلسلہ میں سعی و کوشش کرتا ہے، وہ اس مجاہد کے مانند ہے جو میدان کارزار میں خدا کے لئے جہاد کرتا ہے- اس لحاظ سے بیشک ان کے مسخ ھونے کی وجہ ماہی گیری کے علاوہ کچھ اور تھی، اور وہ وہی چیز ہے جس کے بارے میں خداوند متعال اشارہ کرکے فرماتا ہے: " ہم نے اس طرح ان کا ایک چیز سے امتحان لیا، جس کی وہ نافرمانی کرتے تھے-
ہمارے دعوی کی تائید کرنے والی ایک اور دلیل یہ ہے کہ زیر بحث آیات میں اس قسم کی ماہی گیری کے لئے " اعتدوا" {حد سے تجاوز کیا} کی تعبیراستعمال ھوئی ہےاور "یعدون" { حد سے تجاوز کیا} سے استفادہ کیا گیا ہے اور یہ اس کی دلیل ہے کہ ان کی سزا ، نافرمانی، اور حکم الہی سے تجاوز کرنے اور امتحان الہی میں پا س نہ ھونے کی وجہ سے تھی-
شنبہ کے دن کام نہ کرنا، یہودی قوم کا ناقابل تغیر اصول ہے کہ آج بھی یہودی اس اصول کے معتقد ہیں- اس کے معنی کاہلی اور بالکل کام نہ کرنا اور محض آرام کرنا نہیں ہے، بلکہ چونکہ انسان ہفتے کے دوران { ایک دن چھٹی کے علاوہ } زیادہ تر کام کرنے میں مشغول ھوتے ہیں اور عبادت، صفائی، اور خاندان کی طرف کم تر توجہ کرتے ہیں، اس لحاظ سے مناسب ہے کہ ہفتہ میں ایک دن چھٹی کی جائے اور ہفتہ کے دوران توجہ نہ پائے کاموں کی طرف توجہ کی جائےاور وہ دن اپنے خاندان کے ساتھ نشاط و شادمانی سے گزاریں تاکہ ہفتے کا آغاز مثبت انرجی سے کریں- پس چھٹیوں کے دنوں {باضابطہ} کام نہ کرنا کاہلی کے معنی میں نہیں ہے-
بحث کو واضح کرنے کے لئے مندرجہ ذیل چند نکات کو بیان کرنا ضروری ہے :
۱۔ اصحاب سبت کے بارے میں سوال کے سلسلے میں بیان کی گئی آیہ شریفہ کے علاوہ سورہ اعراف کی آیت نمبر۱۶۲ میں بھی خداوند متعال نے اس قضیہ کی طرف اشارہ کرتے ھوئے ارشاد فرمایا ہے:" اور ان سے اس قریہ کے بارے میں پوچھو جو سمندر کے کنارے تھا اور جس کے باشندے شنبہ کے بارے میں زیادتی سے کام لیتے تھے کہ ان کی مچھلیاں شنبہ کے دن سطح آب تک آجاتی تھیں اور دوسرے دن نہیں آتی تھیں تو انھوں نے حیلہ گیری کرنا شروع کردی- ہم اس طرح ان کا امتحان لیتے تھے کہ یہ لوگ فسق اور نافر مانی سے کام لے رہے تھے-"
۲- چونکہ وہ شنبہ کے دن شکار کرتے تھے یا مچھلیوں کو بند کرتے تھے اور اتوار کے دن پکڑتےتھے، یہاں پر دو قول پائے جاتے ہیں:
اول: مچھلیوں نے شنبہ کے دن کو اپنے لئے امن کا دن جانا تھا اور اس دن زیادہ جمع ھوتی تھیں- یہودی انھیں شنبہ کے دن پانی میں بند کرتے تھے اور اتوار کے دن پکڑتے تھے-
دوم: وہ باضابطہ طور پر شنبہ کے دن شکار کرتے تھے اور اس کام کو حلال سمجھتے تھے-[1]
۳- یہودی خدا اور اس کے رسول کی خیانت کرنے کی وجہ سے اور اپنے دین کی نافرمانی کرنے کے سب اجتماعی طور پر خدا کی لعنت سے دوچار ھوئے، اس کے نتیجہ میں ان سے ایمان کی توفیق سلب ھوئی، صرف ان میں سے ایک چھوٹی تعداد کے افراد بچ گئے اور خداوند متعال نے ان کو دھمکایا کہ اگر وہ تکبر کریں گے اور بلاعذر نافرمانی کریں گے تو وہ ایسی سختیوں سے دوچار ھو جائیں گے، جو لعنت ہے اور یا ایسے عذاب سے دوچار ھوجائیں گے کہ ان کا نام و نشان باقی نہیں رہے گا یا اس کی لعنت و عذاب سے دوچار ھوں گے، بیشک وہ انھیں نہیں چھوڑے گا-[2]
یہ مقدمہ بیان کرنے کے بعد ضروری ہے کہ ہم خود سوال پر بحث کریں- چونکہ سوال کچھ ایسے مفرو ضوں پر مبنی ہے جو صحیح نہیں ہیں، اس لئے ہم اس کا صحیح تجزیہ کرکے اسی ترتیب سے اس کا جواب بھی دیں گے:
کیا ان کے بندر ھونے کی وجہ یہ تھی کہ انھوں نے ضرورت کے پیش نظر مچھلیاں پکڑی تھیں؟
اسلامی روایتوں میں بھی اس واقعے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، اور یہ واقعہ بنی اسرائیل کی ایک جماعت سے متعلق ہے- یہ لوگ سمندر {بظاہر بحر احمر تھا اور یہ لوگ فلسطین کے ساحل پرتھے} کے کنارے " ایلہ" نامی بندرگاہ { کہ آج بندر ایلات کے نام سے مشہور ہے} پر زندگی بسر کرتے تھے اور خدا کی طرف سے امتحان کے عنوان سے ایک حکم دیا گیا اور وہ حکم یہ تھا کہ مچھلیوں کا شکار چھٹی کے دن کریں، لیکن انھوں نے اس حکم کی نافر مانی کی اور درد ناک عذاب سے دوچار ھوئے-[3] اس بناپران کا مسخ ھونا صرف اس لئے نہیں تھا کہ وہ روزی کمانے کے لئے ماہی گیری کے مرتکب ھوئے تھے، کیونکہ یہ کام نہ صرف گناہ نہیں تھا بلکہ اس کے نتائج مسخ ھونا بھی نہیں تھے، اسلام کی منطق میں یہ کام خداوند متعال کے نزدیک عبادات میں شمار ھوتا ہے- ہم یہاں پراس سلسلہ میں دو روایتیں بیان کرنے پر اکتفا کرتے ہیں:
۱۔ امیر المومنین حضرت علی{ع}نے فرمایاہے:"اگر کوئی شخص اپنے عیال کے لئے ایک درہم کا گوشت خرید لے تو وہ اس شخص کے مانند ہے جس نے اسماعیل{ع} کی اولاد میں سے ایک بندہ کو آزاد کیا ہے -[4]
۲۔ امام صادق {ع} نے فرمایا:" جو شخص اپنے خاندان کے لئے روزی کمانے کا، کام کرتا ہے اور اس سلسلہ میں سعی و کوشش کرتا ہے، وہ اس مجاہد کے مانند ہے جو میدان کارزار میں خدا کے لئے جہاد کرتا ہے-"[5]
اس لحاظ سے کسی قسم کا شک وشبہہ نہیں ہے کہ ان کے مسخ ھونے کی وجہ ماہی گیری کے علاوہ کچھ اور ہی تھی اور وہ وہی چیز ہے، جس کی طرف خداوند متعال نے اشارہ کرتے ھوئے ارشاد فرمایا ہے: " ہم نے اس طرح ایک چیز سے امتحان لیا، جس کی وہ نا فرمانی کرتے تھے"[6] ا س بناپراس سے متعلق آیات و روایات میں گہرائی کے ساتھ توجہ کرنے سے معلوم ھوتا ہے کہ یہ مسئلہ، حضرت ابراھیم {ع} کے ہاتھوں ان کے بیٹَے حضرت اسماعیل کے ذبح کرنے [7] اورطالوت[8] کے لشکرکو پانی پینے سے منع کئے جانے کے قضیہ کے مانند ہے- لیکن اس ہٹ دھرم ،لالچی، عناد رکھنے والی اور دنیا پرست قوم نے شیطان اور نفسانی خواہشات کی پیروی کرتے ھوئے خدا کے احکام کی نافرمانی کی اور نتیجہ کے طور پر خشم و غضب الہی سے دوچار ھوئی اور بندر کی شکل میں مسخ ھوئی- ہمارے اس دعوی کی تائید کرنے والی ایک اور دلیل یہ ہے کہ زیر بحث آیہ شریفہ میں اس قوم کی ماہی گیری کے لئے " اعتدوا" {حد سے تجاوزکیا} [9]کی تعبیراستعمال ھوئی ہے اور" یعدون" { حد سے تجاوز کیا} [10]کی عبارت سے استفادہ کیا گیا ہے اور یہ اس کی دلیل ہے کہ ان کی سزا، نافرمانی اور حکم الہی سے تجاوز کرنے اور امتحان الہی میں پاس نہ ھونے کی وجہ سے تھی-
کیا چھٹی کے دن کام نہ کرنا کاہلی کے معنی میں ہے؟
توریت کے مطابق شنبہ کے دن چھٹی کرنا واجب ہے، بلکہ یہودی قوم کا نصب العین اور ناموس شمار ھوتا ہے اور دوسرے واجبات سے اہم ترشمار کیا جاتا ہے، وہ اس سلسلہ میں کہتے ہیں کہ:" خداوند متعال نے شنبہ کے دن کائنات کی عمارت کو مکمل کیا اور اس کے بعد آرام فرمایا- بنی اسرائیل اس دن باہر آگئے اور مصریوں سے رہائی پائی- اس دن یہودیوں کو ہر کام کی چھٹی کرنی چاہئیے اور اپنے شعائر قائم کرنے میں لگنا چاہئے"- [11] اس بنا پر شنبہ کے دن کام نہ کرنا یہودی قوم کا پائدار اصول تھا اور آج بھی اس اصول کے معتقد ہیں، اور اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ وہ اس دن کوئی کام انجام نہ دیں اور صرف آرام کریں، بلکہ چونکہ انسان ہفتے کے دوران { ایک دن چھٹی کے علاوہ } زیادہ تر کام کرنے میں مشغول ھوتے ہیں اور عبادت، صفائی، اور خاندان کی طرف کم تر توجہ کرتے ہیں، اس لحاظ سے مناسب ہے کہ ہفتہ میں ایک دن چھٹی کی جائے اور ہفتہ کے دوران توجہ نہ پائے کاموں کی طرف توجہ کی جائےاور وہ دن اپنے خاندان کے ساتھ نشاط و شادمانی سے گزاریں تاکہ ہفتے کا آغاز مثبت انرجی سے کریں- پس چھٹیوں کے دنوں {باضابطہ} کام نہ کرنا کاہلی کے معنی میں نہیں ہے-
اس میں کسی قسم کا شک و شبہہ نہیں ہے کہ دین مناسب اور صحیح تفریحات کا مخالف نہیں ہے، بلکہ بعض مواقع پر تفریح کی ہمت افزائی کرتا ہے، لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ چھٹی کے دن تفریح سے ہی مخصوص ھوں اور یہودیوں کے لئے بھی ایسا نہیں تھا کہ شنبہ کے دن چھٹی کرکے اس دن کام کاج اور ماہی گیری سے پرہیز کرکے صرف اس دن کی عبادت انجام دیں – لیکن انھوں نے اس حکم کی نافرمانی کی-[12] البتہ ممکن ہے کہ اس سلسلہ میں ایک اور سوال کیا جائے، کہ اس کے پیش نظر کہ بنی اسرائیل شنبہ کے دن بلا واسطہ شکار نہیں کرتے تھے جبکہ شنبہ کے دن انھیں شکار کرنا منع کیا گیا تھا، اس بنا پرانھوں نے کوئی گناہ نہیں کیا ہے، پس وہ کیوں مسخ ھوئے؟
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ انھوں نے اس قانون اور حکم الہی کی نافرمانی کی ہے، جبکہ شنبہ کا دن مچھلیوں کے لئے پرامن دن تھا اور وہ اس دن زیادہ جمع ھوتی تھیں اور یہودی انھیں شنبہ کے دن پانی میں بند کرتے تھے اور اتو ار کو انھیں پکڑتے تھے { یعنی شرعی حیلہ سے کام لیتے تھے} جبکہ یہ کام ، نافرمانی تھا، کیونکہ مچھلیوں کو بند کرنا درحقیقت شکار ہے اور یہ اس کے مانند ہے کہ مچھلی کو پانی سے باہر نکالا جائے اور انھیں کسی تالاب میں ڈال کرپھر انھیں پکڑا جائے-
نکتہ:
قابل توجہ ہےکہ، توریت، جو پوری بنی اسرائیل کے مناقب پر مشتمل ہے ، میں ان تمام واقعات کے مانند اس واقعہ کا ذکر نہیں کیا ہے، جس کی قرآن مجید نے یاد د ہانی کی ہے، ان کے بارے میں قرآن مجید کی تعبیرات اور توریت کی تعبیرات میں بہت فرق ہے -[13]
[1] طبرسى، فضل بن حسن، مجمع البيان في تفسير القرآن، گروه مترجمان، ج1، ص 204 و 205، انتشارات ناصر خسرو، تهران، طبع سوم، 1372 ھ ش.
[2] طباطبائی، سید محمد حسین، الميزان، موسوى همدانى، سيد محمد باقر، ج 4، ص 584، دفتر انتشارات اسلامى جامعۀ مدرسين حوزه علميه قم، قم، طبع پنجم، 1374 هـ ش.
[3] مکارم شیرازی، ناصر، تفسير نمونه، ج6، ص 418، دار الكتب الإسلامية، تهران، 1374 هـ ش، طبع اول.
[4] مجلسی، محمد باقر، بحارالأنوار، بحارالأنوار، ج 75، ص 32، مؤسسة الوفاء، بیروت- لبنان، 1404 هـ .
[5] کلینی، كافي، ج 5، ص 88، دار الكتب الإسلامية، تهران، 1365 هـ ش.
6 –اعراف ۱۶۲
[7] جب اسماعیل {ع}کام کر نے کی حد میں پہنچے ،ابراہیم{ع} نے ان سے کہا: میں نے خواب میں دیکھا کہ تمھیں ذبح کرتا ہوں ، اس سلسلہ میں تمھارا نظریہ کیا ہے ؟{جواب میں اسماعیل نے }کہا:ابا جان ،جس چیز کی آپ کو ماموریت ملی ہے اسے انجام دیجیے اور انشاءاللہ عنقریب ہی مجھے صابرین میں پایئں گے- جب اسماعیل {ع}کام کر نے کی حد میں پہنچے ،ابراہیم{ع} نے ان سے کہا: میں نے خواب میں دیکھا کہ تمھیں ذبح کرتا ہوں ، اس سلسلہ میں تمھارا نظریہ کیا ہے ؟{جواب میں اسماعیل نے }کہا:ابا جان ،جس چیز کی آپ کو ماموریت ملی ہے اسے انجام دیجیے اور انشاءاللہ عنقریب ہی مجھے صابرین میں پائیں گے- صافات، 102.
[8] جب طالوت نے اپنے لشکر کے ہمراہ حرکت کی، طالوت نے کہا:خداوند متعال تمھیں ایک ندی سے امتحان لینے والا ہے، پس جو بھی اس ندی سے پانی پئے گا وہ مجھ سے نیں ہے، مگر یہ کہ کوئی اس ندی سے صرف چلو بھر پانی پئے گا ، اس کے بعد نعض گنے چنے افراد کے علاوہ سبوں نے اس ندی سے پانی پیا اور جب طالوت اور ایمان لانے والے اس ندی سے گزرے، مخالفت کرنے والوں نےکہا کہ ہم آج جالوت اور اس کے لشکر سے جنگ کر نے کی طاقت نہیں رکھتے ہیں - بقرة، 249.
[9] قره، 65.
[10] اعراف، 163.
[11] طالقانى، سيد محمود، پرتوى از قرآن، ج1، ص 186، ناشر: شركت سهامى انتشار، تهران، 1362ھ ش، طبع چهارم .
[12] مکارم شیرازی، ناصر، تفسير نمونه (با اندکی تصرف)، ج6، ص 419.
[13] طالقانى، سيد محمود، پرتوى از قرآن، ج1، ص 186.