٢- کیا انسان، خمس کو مرجع تقلید کی اجازت کے بغیر اپنے رشته داروں وغیره سے حقیقی محتا جوں کو دے سکتا هے؟
لغت میں خمس پانچویں حصه کو کهتےهیں اور فقهی اصطلاح میں عبارت هے : زراعت ، صنعت ، تجارت ، تحقیقات یا مزدوری یا ملا زمت سے حاصل کی گئی آمدنی سے سال بھر کے خرچه کے بعد بچی آمدنی کا پانچواں حصه ادا کر نا –
خمس اسلامی فرائض میں سے ایک هے اور قرآن مجید نے اسے جهاد کے ساتھـ قرار دیا هے ، اس میں گوناگون فلسفه و اسرار هیں که ان میں سے بعض کی طرف هم یهاں پر اشاره کرتے هیں :
١- خمس کو رئیس حکو مت کے عنوان سے امام (ع) کے لئے نظام کو چلانے اور معاشره کے نظم ونسق کے لئے اخراجات کے طور پر واجب قرار دیا گیا هے- اس لئے روایت میں خمس کو " وجه الا ماره " کے نام سے یاد کیا گیا هے-
٢- خدا وند متعال نے پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم کی عظمت و عزت کے تحفظ کے لئے ، بنی هاشم اور آنحضرت (ص) کے اعزّه کے اخراجات کو پورا کر نے کی غرض سے خمس کو واجب قرار دیا هے اور اسے اپنا اور رسول خدا صلی الله علیه وآله وسلم کا مال قرار دیا هے تاکه ان کی بے احترامی اور حقارت کا امکان زائل هوجائے-
٣- خمس، هر نیک کام کو انجام دینے کے لئے اخراجات پورے کر نے کی بجٹ هے، جسے امام انجام دینا چاهتا هے اور وه اسے جهاں پر مصلحت سمجھے خرچ کرسکتا هے-
٤-خمس، انسان کے رشد و کمال کے لئے وسیله شمار هو تا هے ، اس کی ادائیگی رزق کے بڑھنے اور گناهوں کی بخشش کا سبب بن جاتا هے-
٥- خمس، دین خدا کے احیاء اور اسلامی حکو مت تشکیل پانے کے لئے واجب کیاگیا هے-
خمس کو کهاں پر ادا کیا جائے؟
خمس امام اور سادات سے مخصوص هے اور امام (ص) کی غیبت کے زمانه میں اسے فقیه جامع الشرائط کے پاس ادا کر نا چاهئے-
مذکوره دو سوالات کے جواب میں هم مراجع عظام تقلید کے فتاوی کو حسب ذیل ترتیب میں بیان کر تے هیں :
امام خمینی رحمۃ الله علیه : (خمس) اپنے مرجع تقلید یا اس مجتهد کو ادا کر نا چاهئے جو کمی و کیفی لحاظ سے اسے اس کے مرجع تقلید کے مانند خرچ کرتا هو اور اس کے علاوه وهاں پر خرچ کرسکتا هے جهاں اس کے مرجع تقلید نے خرچ کر نے کی اجازت دی هو-[1]
آیت الله العظمی خامنه ای : خمس کو ولی امر مسلمین یا اس کے وکیل کے حواله کر نا چاهئے اور اگر اپنے مر جع تقلید کے فتوی کے مطابق بھی عمل کر ے ، بری الذمه هو گا-[2]
آیات عظام فاضل لنکرانی (رح)، نوری همدانی، مکارم شیرازی ، بهجت و وحید خراسانی : خمس کو اپنے مرجع تقلید یا اس مجتهد کے هاتھـ میں دینا چاهئے جو کمی و کیفی لحاظ اس کے مراجع تقلید کے مانند اسے خرچ کرتا هو اور ایسی جگه پر خرچ کر سکتا هے، جس کی اس کے مرجع تقلید نے اجازت دی هو اور احتیاط واجب کی بنا پر مال سادات کو اپنے مر جع تقلید یا اس کی اجازت سے سادات کو دینا چاهئے-[3]
آیت الله العظمی تبریزی (رح) مال امام کو اپنے مرجع تقلید کو دینا چاهئے یا جهاں پر اس نے خرچ کر نے کی اجازت دی هو وهاں پر خرچ کر نا چاهئے اور اگر کسی دوسرے مجتهد کو دینا چاهے ، تو احتیاط واجب کی بناپر اپنے مرجع تقلید سے اجازت حاصل کر نی چاهئے اور مال سادات کو خود ان کو دے سکتا هے-[4]
آیت الله العظمی سیستانی : مال امام کو اپنے مرجع تقلید کو دینا چاهئے یا جهاں پر اس نے خرچ کر نے کی اجازت دی هو وهاں پر خرچ کرے اور احتیاط واجب هے که عام جهات سے وه مر جع اعلم هو نا چاهئے اور مال سادات کو خود انھیں دے سکتا هے-[5]
آیت الله العظمی صافی گلپائیگانی : مال امام کو اپنے مرجع تقلید کو دینا چاهئے یا کسی ایسے مجتهد کو دینا چاهئے جو کیفی اور کمی کے لحاظ سے اس کے مرجع تقلید کے مانند خرچ کر تا هو اور اس کے علاوه ایسی جگه پر صرف کرسکتا هے جهاں پر اس کے مرجع تقلید نے خرچ کر نے کی اجازت دی هو اور مال سادات کو خود انھیں دے سکتا هے-[6]
نوٹ :
خمس دوحصوں میں تقسیم هو تا هے : اس کا آدھا مال امام اور دوسرا نصف مال سادات هے- آیات عظام سیستانی ، تبریزی (رح) اور صافی گلپائیگانی مال سادات کو ادا کر نے میں مجتهد کی اجازت ضروری نهیں جانتے هیں-