شیخ انصاری غیبت کی یوں تعریف کرتے هیں : " تمام روایتوں اور فقها کے بیانات سے غیبت کے بارے میں یه تعریف معلوم هو تی هے که غیبت یعنی : لوگوں کی عدم موجودگی میں ان کے بارے میں ایسی باتیں کر نا که جس کی غیبت کی جاتی هو ، وه اسے پسند نه کرے اور برا محسوس کرے [1]– غیبت گناه کبیره هے اور آیات و روایات میں اس کی سخت ممانعت کی گئی هے[2]-
ائمه اطهار علیه السلام سے نقل کی گئی روایتوں کے مطابق ، غیبت کی حقیقت یه هے که کوئی شخص کسی کے بارے میں کوئی ایسی بات کهے ، که اگر وه شخص اسے سنے تو اسے پسند نه کرے – خواه وه بات کسی ایسے عیب و نقص کے بارے میں هو جو اس میں ، یا اس کے بدن میں یا اس کے دین و دنیا میں پایا جاتا هو اور یا کسی ایسی چیز میں هو جو اس سے مربوط هے-
اس سوال کے جواب میں که ، کن لوگوں کی غیبت کر نا حرام هے ، کیا تمام مومنین و مسلمانوں کی غیبت کر نا حرام هے جو خدا کا اعتقاد رکھتے هیں اور اسلام پر پابند هیں یا ---؟ بهت سے علما اور فقها نے اس سوال کے جواب میں غیبت کے بارے میں بیان کی گئی آیات و روایات سے استناد کر کے کها هے که : " غیبت اور دوسروں کی عدم موجود گی میں بد گوئی کر نے کی بنیاد اور معیار ، وه احترام هے جو انسانوں کو دین سے حاصل هوا هے اس لحاظ سے، جو لوگ مومن نهیں هیں ، چونکه خود اپنی مرضی سے ایمان کے دائرے میں داخل نهیں هوئے هیں ، کسی احترام کے حقدار نهیں هیں – اس بناپر ان کی غیبت کر نا جائز جانا گیا هے-[3]
قابل ذکر بات هے که غیبت کے سلسله میں کچھـ شرائط کا هو نا ضروری سمجھا گیا هے که ان کے پورے هو نے کی صورت میں غیبت محقق هو تی هے ، مثلاً :
١- جس شخص کی غیبت کی جاتی هو وه مجلس میں حاضر نه هو-
٢- اس کے بارے میں کی جانے والی بات عیب ونقص شمار هوتی هو-
٣- یه عیب ، پوشیده، اور مخفی عیب هو-
٤- جس شخص کے بارے میں غیبت کی جائے وه اس بات کو سن کر ناراض هو جائے-
٥- غیبت کر نے والے کا اراده مذمت اور عیب بیان کر نا هو-[4]
مذکوره سوال میں ، دوسری شرط کے محقق هو نے کے بارے میں ، دو حالتوں کا هو نا ممکن هے:
الف : نماز نه پڑھنے والا شخص، اس موضوع کے بارے میں کوئی پروا نهیں کرتا هے اور بعض اوقات دوسرے لوگوں کو بھی نماز نه پڑھنے کی ترغیب دیتا هے اور فقهی اصطلاح میں متجاهر فسق (کهلم کهلا فسق کا مرتکب) هے اور لوگوں کے درمیان اپنے آپ کو اس صفت سے معرفی کرتا هے-
اس سلسله میں پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم نے فر مایا هے : " من اتقی جلباب الحیاء فی وجھھ فلا غیبۃ له" " جو شرم و حیا کے پردے کو اپنے آپ سے هٹا دے، اس کی غیبت کر نا حرام نهیں هے[5]- "اس روایت کے مفهوم سے استفاده کیا جاسکتا هے که اگر کوئی شخص برائیوں پر فخر ومباهات کر تا هے اور کسی بھی قسم کے شرم و حیا کا پابند نهیں هے ، اس نے اپنے احترام اور شخصیت کو نابود کر دیا هے اور اس کا یه طرز عمل اس کی بد گوئی (غیبت) کو جائز قرار دینے کا سبب بنا هے –
ب : اماکبھی کچھـ افراد نماز نهیں پڑھتے هیں ، لیکن باطن میں وه اپنے اس عمل سے شر منده اور پشیمان هیں اور اپنی بے آبروئی وبے احترامی نهیں پاهتے هیں اور کوشش کر تے هیں که مستقبل میں اس کی تلافی کر کے نماز کو بجا لائیں گے، اس صورت میں ایسے افراد کی غیبت جائز نهیں هے اور یهاں تک که ممکن هے ایسے افراد کی غیبت ، غیبت کر نے والوں کی هٹ دهرمی اور غرور کی وجه سے ، انھیں نماز کو بالکل ترک کر نے پر مجبور کرے-
اس کے علاوه پانچویں شرط کے محقق هو نے کے بارے میں ، کهنا چاهئے که بهت سے مواقع پر شخص کا عیب (غیبت) بیان کر نے میں مذمت اور عیب بیان کر نے کا قصد نهیں هوتا هے ، بلکه یه کام مورد نظر فرد کو خیر و صلاح کی طرف هدایت کر نے کے لئے ایک کلی اجماع حاصل کر نا هو تا هے، جیسے ، ڈاکٹروں کی ایک ٹیم کسی بیمار کی مخفی بیماریوں اور عیبوں کے بارے میں صلاح و مشوره کرتی هے [6]، تاکه بیمار کی صحت یابی کے لئے علاج کا کوئ مناسب طریقه پیدا کر سکیں ، نتیجه کے طور پر ایسی شرائط کے پیش نظر هم شرعی احکام میں غیبت کے جائز هو نے کی دلیل رکھتے هیں – لیکن جو بات اهم هے ، وه یه هے که اس حالت میں امر بالمعروف و نهی عن المنکر کی شرائط کی ضرور رعایت کی جانی چاهئے اور اسی کے مطابق عمل کر نا چاهئے –
قابل ذکر بات یه هے که اگر چه غیبت اخلاقی و اجتماعی گناهان کبیره میں سے هے اور اس کے خطرناک مفاسد هیں ، لیکن خاص مواقع پر ، جهاں انسانوں کے بارے میں مصلحت وخیر هو اور ایک مشروع و عقلائی مقصد هو جو اس کے مفاسد کی تلافی کرتا هو، یا یه که اس کا کوئی مفسده نه هو تو اس صورت میں شرعی لحاظ سے غیب کو جائز شمار کیا گیا هے-
بعض مواقع جهاں پر غیبت جائز هے حسب ذیل هیں :
١- طلب انصاف
٢- نهی عن المنکر
٣- سوال اور فتوی حاصل کر نا
٤- نام نهاد دانشور
٥- اظهار فسق
البته فقهائے شیعه کے نظریه کے مطابق متجاهرفسق (اطهار فسق) کے بارے میں کهنا چاهئے : " ان کی غیبت جائز هے ، لیکن اسی گناه کے بارے میں جس کو وه آشکار صورت میں انجام دیتے هیں ، نه ان کے مخفی اور پوشیده گناهوں کے بارے میں [7]– ورنه تمام لوگ اس لحاظ سے که معصوم نهیں هیں کسی نه کسی گناه کے مرتکب هو تے هیں ، اگر طے یه پائے که هر شخص جو گناه کے مرتکب هو، اس کی غیبت جائز هے ، تو معاشرے میں کسی کی آبرو محفوظ نهیں رهے گی-
نتیجه کے طور پر اگر کوئی تارک الصلوت شخص نماز نه پڑھنے کا کهلم کهلا اظهار کرے اور لوگوں کی طرف سے اس کے اعتراض کی پروا نه کرے ، تو اس کا یه عیب ظاهر کر نا جائز هے یا غیبت کے عنوان کے عدم تحقق کے لحاظ سے یا استثنائی طور پر فسق کا کهلم کهلا مظاهره کر نے والے کی غیبت حرام نه هو نے کے لحاظ سے-
اس سلسله میں مزید معلو مات حاصل کر نے کے لئے ملا حظه هو :
مکاسب محرمه ، امام خمینی (رح) ،ص٣٧٠- ٤٨٠ –
مکاسب محرمه ، شیخ انصاری ، ج١،ص٢٦٧- ٣١٩-
" غیبت تالیف ": خلجی ، محمد تقی
"غیبت از نگاه شیخ انصاری "، تالیف میرزا خانی ، حسین
[1] - شیخ انصاری ، مکاسب ،محرمه ،ج١،ذ٢٧٦-
[2] - سوره حجرات ،١٢ ،همزه ،١-
[3] - خلجی ،محمد تقی ،غیبت ،ص١٢٨-
[4] ملاحظه هو: محمد تقی نراقی ، "جامع السعادت" ج ٢،ص ٢٩٣، شهید ثانی ، "جامع المقاصد" طبع آل البیت ، ج٤،ص٢٧—
شیخ انصاری اپنی کتاب مکاسب میں کهتے هیں : مجموعاً جوکچھـ غیبت کی بحث( غیبت کے عنوان کی تحقیق) میں بیان کیاگیا هے ، من جمله روایات اور فقها کے اقوال سے، یه نتیجه لیا جاسکتا هے که : الف : اگر کسی کی عدم موجود گی میں کوئی ایسی چیز کهی جائے جو غیب نه هو ،تو اس صورت میں یه غیبت نهیں هے –اگر چه جس کی غیبت کی جاتی هے اس کے خیال کے مطابق وه غیبت بھی هو – ب : اور اگر غیبت کی جانے والے کی عدم موجود گی میں کوئی ایسی بات کهی جائے جو اس کے حال کے مطابق شرعاً یا عرفاً عیب هو ، اس صورت میں که سننے والے سے یه عیب مخفی هو، اس طرح که جس کی غیبت کی جاتی هو وه اس عیب کے دوسروں کے سامنے بیان کئے جانے سے راضی نه هو اور غیبت کر نے والا بھی اراده رکھتا هو که اس کو معیوب معرفی کرے، اس طرح کی بات یقینی طور پر غیبت شمار هوتی هے – ج : اور اگر غیبت کر نے والےنے ، مذکوره مورد کے بارے میں ، غیبت هو نے والے کی عیب جوئی کا اراده نه کیا هو، یهاں پر بھی بظاهر حرام هے ، کیونکه حقیقت میں وه مومن کا عیب فاش کر نے والا هے – بهر حال عقل و روایات کے مطابق ، جو کچھـ مو من کی خواری وذلت اور بے احترامی کا سبب بنے وه اجمالی طور پر حرام هے ، د : اگر کسی کی عدم موجود گی میں کوئی بات کهی جائے ، اس میں ایک ایسا عیب هو جو سننے والے کے لئے واضح هو اور غیبت هو نے والا نه اظهار کے طور پر ، نه متکلم کی مذمت کی حیثیت سے اور نه بیان کے لحاظ سے اعتراض نهیں کرتا هو، اور اگر اس کی ایسی تعریف هو جس کا مفهوم مذمت هو اور متکلم هر صورت میں ، شیخ انصاری کے مطابق غیبت کے مفهوم میں عیب کا قصد و اراده نه رکھتا هو ، یعنی یهاں تک که غیبت کر نے والا عیب جوئی کا اراده نه رکھتا هو، تو بھی یه غیبت هے (شیخ انصاری مکاسب محرمه ،ج١ ص ٢٧٨- ٢٨٦) لیکن امام خمینی(رح) کی نظر میں مفهوم غیبت میں عیب جوئی دخیل هے – اس لئے اگر کسی کے عیب بیان کر نے میں عیب جوئی کا اراده نه هو تو وه غیبت نهیں هے اور موضوع کے لحاظ سے غیبت سے خارج هے (امام خمینی رحمۃ الله علیه ، مکاسب المحرمه ج١،ص٤٠٩٤٠٢، c d جامع الفقه)
[5] - جامع السعا دات ،ج ٢ ،ص ٣٢٢-
[6] - جامع السعادات،ج٢،ص٣٢١-
[7] - ملاحظه هو: بهجت ،محمد تققی، جامع المسائل ،ج٢،ص٤٠٤-