دینی تعلیمات کے مطابق ، تکالیف شرعی کے لئے انسان کے اختیار و اراده کی شرط هے ، یعنی اگر انسان اپنے اراده و اختیار کے ساتھـ کوئی ایسا کام انجام دے، جو مستحق پاداش هو- اس لئے فقه شیعه میں جس انسان سے تکلیف ساقط کی گئی هے ، وه مضطر(مجبور) انسان هے – اگر کوئی مسلمان کسی ایسے کام کو انجام دینے میں مجبور هو جائے ، که اختیار کی حالت میں اسے انجام نهیں دیتا ، جیسے مبتزل موسیقی ، تو یهاں پر اس موسیقی کو سننے کا حرام اور گناه هو نا ساقط هو تا هے – البته خود شخص کو ایسا ماحول فراهم نهیں کر نا چاهئے که ایسی مجلسوں میں شرکت کر نے پر مجبور هو جائے ، بلکه ایسے جلسات میں شرکت کر نے سے حتی الامکان پر هیز کر نا چاهئے، لیکن اگر ایسے حالات پیدا هوئے اور اس کے لئے ایسی تقاریب میں شر کت کر نے کے علاوه کوئی چاره نه هو تو فقها کے مطابق اس کے لئے کوئی گناه نهیں هے –
یهاں پر هم آپ کی توجه کو اس سلسله میں مراجع کے فتاوی کی طرف مبذول کر تے هیں :
موسیقی کی مجلسیں :
سوال نمبر ٢٤٨ : اگر هم ایک مجلس میں مطرب اور لهو لعب پر مشتمل موسیقی سننے پر مجبور هوں ، کیا پھر بھی هم مرتکب گناه هوں گے؟
تمام مراجع کا فتوی هے :
اگر موثر هو نے کا احتمال دیتے هو تو، تمام شرائط فراهم هو نے کی صورت میں ، نهی عن المنکر کر نا چاهئے –اگر قبول نهیں کر تے ، اور آپ کا وهاں پر حضور حرام موسیقی سننے یا گناه کی تائید کا سبب بنے ، تو اس مجلس کو ترک کر نا چاهئے مگر یه که آپ کا یه عمل فتنه وفساد کا سبب بنے – اس صورت میں اس جگه پر ضرورت کی حد تک رهنا کوئی حرج نهیں هے – لیکن ممکن هو تو حرام موسیقی کو سننے سے پرهیز کر نا چاهئے اور اگر اس کی آواز آپ کی مرضی کے خلاف آپ کے کانوں تک پهنچ جائے تو کوئی حرج نهیں هے-[1]