"أَمَّنْ يُجيبُ الْمُضْطَرَّ إِذا دَعاهُ وَ يَكْشِفُ السُّوء" کا جملہ در حقیقت قرآن مجید کے سورہ نمل کی ۶۲ ویں آیت ہے خدا وند متعال فرماتا ہے: "بھلا وہ کون ہے جو مضطر کی فریاد کو سنتا ہے جب وہ اس کو آواز دیتا ہے اور اس کی مصیبت کو دور کرتا ہے"
اگر چہ خداوند متعال شرائط پورے ھونے کی صورت میں ہر ایک کی دعا کو قبول کرتا ہے، لیکن مذکورہ آیہ شریفہ میں ، "مضطر" کے عنوان پر زیادہ توجہ دی گئی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ دعا قبول ھونے کی شرائط میں سے ایک یہ ہے کہ انسان عالم اسباب سے امیدوں کو بالکل توڑ کے اپنے پورے قلب و روح کو خداوند متعال کے اختیار میں قرار دے دے، اور تمام چیزوں کو اسی سے متعلق جانے اور تمام مشکلات کے حل کو اسی کے ہاتھ میں دیکھے، اور یہ ادراک و عقیدہ اضطرار کی حالت میں ہاتھ آتا ہے اگر چہ یہ حالت افراد کے لئے عدم اضطرار میں بھی پائی جاتی ہے، لیکن عام انسان اس طرح نہیں ہیں-
البتہ اگر انسان اس مرحلہ پر پہنچے تو اس نے دعا قبول ھونے کی سب سے اہم شرائط حاصل کی ہیں-
"أَمَّنْ يُجيبُ الْمُضْطَرَّ إِذا دَعاهُ وَ يَكْشِفُ السُّوء" کا جملہ در حقیقت قرآن مجید کے سورہ نمل کی ۶۲ ویں آیت ہے خدا وند متعال فرماتا ہے:"بھلا وہ کون ہے جو مضطر کی فریاد کو سنتا ہے جب وہ اس کو آواز دیتا ہے اور اس کی مصیبت کو دور کرتا ہے "
وضاحت یہ ہے کہ امام صادق {ع} اور امام باقر{ع} سے نقل کیا گیا ہے کہ، اس آیہ شریفہ کی تفسیر میں فرمایا ہے : وہ خدا جو مضطر کی دعا کو قبول کرتا ہے ، یعنی وہ، جو شخص شدید مشکلات کی وجہ سے اس کا سہارا لیتا ہے اور وہ، جو انسان کو تکلیف پہچانے والی چیز کو دور کرتا ہے[1]-
اگر چہ خداوند متعال شرائط پورے ھونے کی صورت میں ہر ایک کی دعا کو قبول کرتا ہے، لیکن مذکورہ آیہ شریفہ میں ، "مضطر" کے عنوان پر زیادہ توجہ دی گئی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ دعا قبول ھونے کی شرائط میں سے ایک یہ ہے کہ انسان عالم اسباب سے امیدوں کو بالکل توڑ کے اپنے پورے قلب و روح کو خداوند متعال کے اختیار میں قرار دے، اور تمام چیزوں کو اسی سے متعلق جانے اور تمام مشکلات کے حل کو اسی کے ہاتھ میں دیکھے، اور یہ ادراک و عقیدہ اضطرار کی حالت میں ہاتھ آتا ہے اگر چہ یہ حالت افراد کے لئے عدم اضطرار میں بھی پائی جاتی ہے، لیکن عام انسان اس طرح نہیں ہیں-
صحیح ہے کہ عالم ، عالم اسباب ہے، اور مومن اس سلسلہ میں حتی الامکان کوشش کرتا ہے لیکن کبھی عالم اسباب میں غرق نہیں ھوتا ہے، بلکہ ہر چیز کو اس کی پاک ذات کی برکت جانتا ہے اور اسباب کے پردے کے پیچھے " مسبب الاسباب" کو دیکھتا ہے اور ہر چیز کو اسی سے چاہتا ہے-
البتہ اگر انسان اس مرحلہ پر پہنچے تو اس نے دعا قبول ھونے کی سب سے اہم شرائط حاصل کی ہیں-
دلچسپ بات ہے کہ بعض روایتوں میں اس آیت کی تفسیر حضرت مھدی {عج} کے قیام سے کی گئی ہے-
ایک روایت میں امام باقر{ع} نے فرمایا ہے:" خدا کی قسم ، گویا میں مھدی {عج} کو دیکھ رہا ھوں کہ حجر الاسود سے ٹیک لگا کر، خدا سے اپنے حق میں دعا کرتے ہیں ، اس کے بعد فرمایا: خدا کی قسم کتاب خدا میں اور آیہ " امن یجیب المضطر- - -" میں مضطر وہی ہیں"-
ایک اور حدیث میں امام صادق {ع} یوں فرماتے ہیں: " یہ آیہ شریفہ آل محمد {ص} کے مھدی {عج} کے بارے میں نازل ھوئی ہے، خدا کی قسم مضطر وہ ہیں– جب وہ مقام ابراھیم {ع} پر دو رکعت نماز بجا لائیں گے اور بارگاہ الہی میں دعا کے لئے ہاتھ بلند کریں گے ان کی دعا قبول ھوگی، اضطرار برطرف ھوگا اور انھیں زمین پر خلیفہ قرار دیا جائے گا"[2]
البتہ ظاہر ہے کہ اس تفسیر سے مراد، اس آیہ شریفہ کو حضرت مھدی {عج} کے وجود سے مخصوص کرنا نہیں ہے ، بلکہ آیہ شریفہ کا ایک وسیع مفہوم ہے کہ ان میں سے ایک واضح مصداق حضرت مھدی {عج} ہیں، جب پوری دنیا میں فساد پھیلا ھوگا، دروازے بند ھوئے ھوں گے، خنجر ہڈیوں تک پہنچ چکا ھوگا اور انسانیت تعطل کا شکار ھوچکی ھوگی، اضطرار کی حالت پوری دنیا میں نمایاں ھوگی، اس وقت وہ {امام مھدی} زمین کے مقدس ترین نقطہ پر دعا کے لئے ہاتھ بلند کریں گے اور حل مشکلات کی دعا کریں گے اور خداوند متعال ان کی اس دعا کو ان کے مقدس عالمی انقلاب کا سرآغاز قرار دے گا اور " ویجعلکم خلفاء الارض" [3]کے مصداق کے عنوان سے انھیں اور ان کے دوستوں کو زمین کا خلیفہ قرار دے گا-[4]
آخر میں ایک نکتہ کی یاد دہانی کرانا ضروری ہے-
اگر چہ بزرگوں کی ایک تعداد نے فرمایا ہے کہ: بہتر ہے انسان جب مشکلات اور سختیوں سے دوچار ھو جائے تو اس آیہ شریفہ کو پڑھے[5] اور عام لوگ اس آیہ شریفہ کو دعا کے عنوان سے جانتے ہیں، لیکن اس پر مزید فکروغور کرنے کی ضرورت ہے جو اس نکتہ کی طرف ہماری راہنمائی کرتے ہیں کہ اس آیت میں دعا کا سیاق نہیں پایا جاتا ہے، اس لحاظ سے جب ہمارے ائمہ{ع} اس آیت سے دعا کا ارادہ کرتے تھے تو یوں پڑھتے تھے: يَا مَنْ يُجيبُ الْمُضْطَرَّ إِذا دَعاهُ وَ يَكْشِفُ السُّوء َ ارْحَمْنِي وَ اكْشِفْ مَا بِي مِنْ غَمٍّ وَ كَرْبٍ وَ وَجَعٍ وَ دَاء.[6] { اے وہ جو مضطر کی دعا کو قبول کرتا ہے اور پریشانیوں اور مشکلات کو دور کرتا ہے مجھ پر رحم فرما اور ہر قسم کے اضطراب ، غم و اندوہ اور درد و رنج کو مجھ سے دور فرما-
[1] مجلسی، محمد باقر، بحار الأنوار ، ج 68، ص 118، مؤسسه الوفاء، بیروت، 1404 هـ
[2] مجلسی، محمد باقر، بحار الأنوار، ج 51، ص 48.
[3] نمل، 62.
[4] مكارم شيرازى، ناصر، تفسير نمونه، ج 15، ص 520 – 522، ناشر: دار الكتب الإسلامية، طبع تهران، طبع اول، 1374 ھ ش.
[5] حاج ميرزا جواد آقا، ملكى تبريزى، المراقبات، ص 261.
[6] مجلسی، محمد باقر، بحارالأنوار، ج 92، ص 103.