قرآن مجید کے حروف مقطعات کے بارے میں کافی بحثیں کی گئی ہیں، من جملہ علامہ طباطبائی فرماتے ہیں:
حروف مقطعات والے سوروں میں موجود شباہتوں کے پیش نظر ممکن ہے انسان احتمال دے کہ ان حروف اور ان سے شروع ھونے والے سوروں کے درمیان کوئی رابطہ ھو-
پس یہ حروف خداوند متعال اور اس کے پیغمبر{ص} کے درمیان ایسے رموز ہیں جن کے معنی ہم سے پوشیدہ ہیں اور ہمارا عادی فہم و اداراک ان کو سمجھنے کی طاقت نہیں رکھتا ہے- مگر یہ کہ ہم احتمال دیں کہ ان حروف اور ان کے { سوروں کے درمیان کوئی} خاص رابطہ ہے-
عصر جدید کے ایک محقق نے ، قرآن مجید کے بعض سوروں کی ابتداء میں موجود حروف مقطعات کے بارے میں الیکٹرانک سسٹم سے ایک تحقیق کر کے کچھ اہم نکات ثابت کئے ہیں- وہ اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ قرآن مجید کے ۲۹ سوروں کی ابتداء میں پائے جانے والے حروف مقطعات جو مفرد یا مرکب صورت میں ہیں، کی تعداد ان سوروں میں موجود دوسرے حروف سے زیادہ ہے-
اس بنا پر حسب ذیل چند اہم نکات حاصل ھوتے ہیں:
الف} یہ حروف، جنھیں قرآن مجید کی اصطلاح میں حروف مقطعات کہتے ہیں بیہودہ نہیں ہیں-
ب} یہ حروف خداوند متعال اور اس کے رسول{ص} کے درمیان ایک راز ہے کہ دوسروں کا اس راز کے بارے میں آگاہ نہ ھونا، ان کے بیہودہ ھونے کی دلیل نہیں ہے-
ج} اگر عام لوگوں کی ہدایت کے لئے لکھی گئی ایک کتاب میں کچھ کلیدی نکات خاص افراد کے لئے بھی موجود ھوں تو یہ اس کتاب کے ہدایت کرنے والی ھونے کے منافی نہیں ہے-
اگر چہ یہ رموز شاید براہ راست آج کے انسانوں کی کسی مشکل کو حل نہیں کرسکتے ہیں لیکن ممکن ہے پیغمبر{ص} ان رموز سے بہرہ مند ھوکر امت کی بہتر صورت میں راہنمائی کرسکیں اور اس طرح لوگوں کی کچھ مشکلات کوحل کرسکیں -
ان سب مطالب کے باوجود حروف مقطعات جیسے مسائل کی بحث، دین کی داخلی بحث ہے، یعنی ہمیں اس موضوع پر اس وقت بحث کرنی چاہئے کہ جب ہم خدا اور نبوت وغیرہ کی بحث سے فارغ ھوچکے ھوں، اس لحاظ سے جب ہم نے خداوند متعال کو نیک اوصاف اور حکمت کے ساتھ پہچان لیا اور معلوم ھوا کہ خداوند متعال کوئی عبث و بیہودہ کام انجام نہیں دیتا ہے، تو اگر حروف مقطعات کے استعمال کا جیسا کوئی مسئلہ پیدا ھو جائے کہ بالفرض ہم اس کی دلیل و راز کو معلوم نہ کرسکے تو بھی ہم اس کے اجمالی جواب { خدا کے حکیم ھونے} کے ذریعہ اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ یہ کام بیہودہ نہیں ہے-
اس سوال کا ایک مناسب جواب دینے سے پہلے ہم قرآن مجید کے حروف مقطعات کے بارے میں پیش کئے گئے دو نظریات بیان کرتے ہیں:
قرآن مجید کے حروف مقطعات کے بارے میں کافی بحث کی گئی ہے،[1] جن مفسرین نے اس موضوع پر گفتگو کی ہے، ہم ان میں سے پہلے علامہ طبا طبائی کا نظریہ پیش کریں گے پھر دوسرے مفسرین کے نظریات بیان کریں گے اور اس کے بعد نتیجہ نکالیں گے-
علامہ طبا طبائی {رح} فرماتے ہیں: قرآن مجید کے ۲۹ سوروں کی ابتداء میں حروف مقطعات آئے ہیں کہ ان میں سے بعض سورے ایک حروف سے شروع ھوتے ہیں، جیسے: سورہ "ص"، "ق" اور "ن" – بعض سورے دو حروف سے شروع ھوئے ہیں جیسے: "طہ"، "طس"، " یس" اور "حم" اور بعض سورے تین حروف سے شروع ھوتے ہیں، جیسے: " الم"، " الر" اور " طسم" اور بعض سورے چار حروف سے شروع ھوئے ہیں، جیسے: "المص" اور " المر" اور بعض سورے پانچ حروف سے شروع ھوئے ہیں، جیسے: سورہ" کھیعص" اور " حمعسق"-
اس کے علاوہ یہ حروف { استعمال ھونے کی تعداد کے لحاظ سے} آپس میں فرق رکھتے ہیں – ان میں سے بعض صرف ایک جگہ پر استعمال ھوئے ہیں ، جیسے: " ن" اور ان میں سے بعض حروف کئی سوروں کی ابتداء میں آئے ہیں، جیسے: " الم"، "الر"، " طس" اور " حم"-
اگر ہم ان دو نکات کو مد نظر رکھتے ھوئے، " الم اور " المر" جیسے حروف مقطعات سے شروع ھونے والے سوروں پر ذرا غور کریں، تو معلوم ھوگا کہ یہ سورے مضمون کے لحاظ سے بھی آپس میں شباہت رکھتے ہیں اور ان کا سیاق بھی یکساں ہے، اس طرح کہ ان کے درمیان پائی جانی والی شباہت دوسرے سوروں میں نہیں پائی جاتی ہے-
ایسے سوروں کی ابتدائی آیات میں جو شباہت پائی جاتی ہے، ان میں اس معنی کی تاکید کی گئی ہے کہ، مثال کے طور پر " حم" سے شروع ھونے والے سوروں کی پہلی آیت " تلک آیات الکتاب" کی عبارت سے شروع ھوتی ہے ، یا ایک دوسری عبارت سے جس کے یہی معنی ہیں، اس قسم کی آیات ان سوروں کی ابتداء میں ہیں جو " الر" سے شروع ھوتے ہیں، جن میں فرما یا گیا ہے " تلک آیات الکتاب" یا اس معنی کی کوئی عبارت ھوتی ہے اس کی مثال ان سوروں میں ملتی ہے جو " طس" سے شروع ھوتے ہیں یا وہ سورے جو " الم" سے شروع ھوتے ہیں، ان میں سے اکثر سوروں میں اس کتاب میں شک و شبہہ نہ ھونے کا ذکر کیا گیا ہے اور ایک ایسی عبارت ہے جس کے یہی معنی ہیں-
ان شباہتوں کو مد نظر رکھتے ھوئےممکن ہے انسان خیال کرے کہ ان حروف اور ان حروف سے شروع ھونے والے سوروں کے مضامین میں کوئی خاص رابطہ ھوگا- اس خیال کی تائید اس سے ھوتی ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ سورہ اعراف، جو " المص" سے شروع ھوا ہے، میں ایسے مطالب ہیں جو سورہ " الم" اور سورہ "ص" میں پائے جاتے ہیں – اس کے علاوہ ہم دیکھتے ہیں کہ سورہ " رعد" جو حروف " المر" سے شروع ھوا ہے ، میں سورہ " الم" اور سورہ" المر" دونوں کے مطالب پائے جاتے ہیں-
یہاں سے معلوم ھوتا ہے کہ یہ حروف خداوند متعال اور اس کے پیغمبر {ص} کے درمیان کچھ رموز ہیں، کہ ان کے معنی ہم سے پنہان ہیں اور ہمارا عام فہم و ادراک انھیں سمجھنے سے قاصر ہے، مگر اسی حد تک کہ احتمال دیں کہ ان حروف اور ان حروف سے شروع ھونے والے مضامین کے درمیان کوئی خاص رابطہ ہے-[2]
ان مطالب کو بیان کرنے کے سلسلہ میں عصر جدید کے ایک مفسر نے ایک دلچسپ نکتہ بیان کیا ہے، جس کی طرف ہم ذیل میں اشارہ کرتے ہیں: کئی سال قبل امریکہ میں مقیم ایک مصری محقق " ڈاکٹر رشاد" کو قرآن مجید کے بعض سوروں کی ابتداء میں موجود حروف مقطعات کے بارے میں کچھ معلومات حاصل ھوئیں، جنھیں انھوں نے الیکٹرانیک سسٹم سے ثابت کیا ہے – وہ اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ ہر سورہ کی ابتداء میں پائے جانے والے ان حروف مقطعات کا اس سورہ کی آیات کے اندر پائے جانے والے دوسرے حروف کے ساتھ ایک رابطہ ہے، اس کے بعد اس نے اپنے اس انکشاف اور نظریہ کو کئی برسوں کی کوششوں کے نتیجہ میں الیکٹرانیک سسٹم کے ذریعہ ثابت کیا اور اس نتیجہ کا اعلان کیا کہ ان مفرد یا مرکب حروف مقطعات کی مقدار، ان سوروں میں موجود دوسرے حروف سے زیادہ ہے، اس انکشاف کی بنا پر، معلوم ھوتا ہے کہ قرآن مجید کی مخصوص لغت، جملوں اور آیات کی غیر معمولی ترکیب کے معجزہ کے علاوہ اس کے حروف بھی ایک تنظیم اور حساب و کتاب کے تحت ترتیب دئے گئے ہیں کہ وہ بذات خود ان کے معنی ، حقائق و محتوی کے علاوہ ایک معجزہ ہیں-
یہ انکشاف قرآن مجید کے سورہ بقرہ کی ابتداء میں موجود حروف مقطعات کے بارے میں بعض پیش کئے گئے نظریات کو ثابت کرتا ہے کہ ان میں سے ایک ان مفرد یا مرکب حروف اور اس سورہ کے کلمات کے درمیان پائے جانے والے تناسب کے معجزہ کی طرف اشارہ ہے- شائد یہ نظریات اور انکشافات مزید حقائق کشف ھونے کا ایک پیش خیمہ ہوں گے-[3]
مذکورہ مطالب کے پیش نظر مندرجہ ذیل چند اہم نکات معلوم ھوتے ہیں:
الف} یہ حروف، جن کو قرآن مجید کی اصطلاح میں حروف مقطعات کہتے ہیں بیہودہ نہیں ہیں ، کیونکہ ان کے بہت سے فوائد بیان کئے گئے ہیں اور اگر آپ اپنے ہی قول پر غور کریں گے، اور آپ نے ان حروف کو " مرموز" حروف سے تعبیر کیا ہے، اور ہم یہ گمان نہیں کرتے کہ اگر کوئی آپ سے لفظ " مرموز" کے معنی پوچھ لے، تو آپ جواب میں " بیہودہ" کہیں گے-
ب} جو کچھ ہم نے اس سلسلہ میں مفسرین کے نظریات کے طور پر پیش کیا، اس سے معلوم ھوتا ہے کہ یہ حروف مقطعات، خداوند متعال اور اس کے پیغمبر{ص} کے درمیان ایک رمز{ code } ہے البتہ ممکن ہے انسان اس کے بعض رموز کا انکشاف کرسکے اور ہر رمز میں کچھ اسرار پوشیدہ ھوتے ہیں جن سے دوسرے بے خبر ھوتے ہیں اور دوسروں کا ان اسرار کے بارے میں باخبر نہ ھونا ان کے بیہودہ ھونے کی دلیل نہیں ہے –
ج} اگرعام لوگوں کے لئے لکھی گئی ہدایت پر مبنی کسی کتاب میں چند کلیدی نکتے خواص کے لئے بھی درج کئے گئے ھوں، تو اس کتاب کے ہدایت گر ھونے کے منافی نہیں ہے-
اگر چہ یہ رموز شاید براہ راست آج کے انسانوں کی کسی مشکل کو حل نہیں کرسکتے ہیں لیکن ممکن ہے پیغمبر{ص} ان رموز سے بہرہ مند ھوکر امت کی بہتر صورت میں راہنمائی کرسکیں اور اس طرح لوگوں کی کچھ مشکلات کوحل کرسکیں -
ان سب مطالب کے باوجود حروف مقطعات جیسے مسائل کی بحث، دین کی داخلی بحث ہے، یعنی ہمیں اس موضوع پر اس وقت بحث کرنی چاہئے جب ہم خدا اور نبوت وغیرہ کی بحث سے فارغ ھوچکے ھوں، اس لحاظ سے جب ہم نے خداوند متعال کو نیک اوصاف اور حکمت کے ساتھ پہچان لیا اور معلوم ھوا کہ خداوند متعال کوئی عبث و بیہودہ کام انجام نہیں دیتا ہے، [4]تو اگر حروف مقطعات کے استعمال کا جیسا کوئی مسئلہ پیدا ھو جائے کہ{ بالفرض ہم اس کی دلیل و راز کو معلوم نہ کرسکے تو بھی ہم اس کے اجمالی جواب { خدا کے حکیم ھونے} کے ذریعہ اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ یہ کام بیہودہ نہیں ہے-
[1] اس سلسلہ میں ہماری اسی سائٹ کے عنوان سے:" معنای حروف مقطعات قرآن" سوال: ۲۴۷۳ ملاحظہ ھو-
[2] طباطبائی، محمد حسین، تفسير الميزان، موسوى همدانى، سيد محمد باقر، ج 18، ص 7، 8، ناشر: دفتر انتشارات اسلامى جامعۀ مدرسين حوزه علميه قم، قم، طبع پنجم، 1374 ھ ش.
[3] طالقانى، سيد محمود، پرتوى از قرآن، ج 5، ص 8، پاورقی، ج 4، ص 157، ناشر: شركت سهامى انتشار، تهران، 1362ھ ش.
[4] مؤمنون، 115.