ھر نیک عمل دو حصوں ، حسن فعلی ( اصلی عمل ) اور حسن فاعلی ( صحیح عمل ) سے تشکیل پاتا ھے ، یعنی وه کام خدا کی بارگاه میں قبول ھوتا ھے جو صحیح بھی ھو اور اس میں نیت ھو اور جو خدائی مقصد اور خدا کی رضا کیلئے انجام پائے ، اسلامی روایات میں فعل کی نیت پر بھت تاکید کی گئی ھے اور اسے عمل کی روح کے طور پر پھچنوایا گیا ھے کبھی مومن انسان کسی خاص عمل کی نیت کرتا ھے جس کو انجام دینے پر وه کامیاب نھیں ھوتا اگر اس عمل کے انجام کی نیت سچ ھو اور حقیقی قصد انجام دینے کیلئے ھو۔ تو ائمھ معصومین علیھم السلام کی روایات کے مطابق خداوند متعال اس عمل کو ثواب اور اجر عطا کرتا ھے۔ دعای عھد کے بارے میں بھی یھی ھے کھ اگرکوئی خالص نیت سے اس کو انجام دینے کا قصد کرے اور اس کے انجام دینے سے پھلے مرجائے تو خداوند متعال اس کو دعا کا اثر اور ثواب عطا کرتا ھے اس طرح کی مستحب دعاؤں کا پڑھنا اجر اور ثواب کے زیاده ھونے کا باعث بنتا ھے۔
اسلامی شریعت میں ھر عمل اور کام کے دو پھلو ھیں اور اس عمل کے قبول ھونے کی شرط میں ان دو پھلوؤں کا خیال رکھنا ھے۔
۱۔ پھلے خود عمل ، صحیح اور پسندیده ھونا چاھئے جیسے دوسروں کی مدد کرنا ، دعا پڑھنا، وغیره۔
۲۔ دوسرے اس سالم اور صحیح عمل کو صحیح نیت سے انجام دینا۔ مثال کے طورپر اگر کوئی صرف خدا کی رضا کیلئے دُعا پڑھے۔ دوسروں کی مدد کو صرف خدا کے فرمان کی اطاعت اور اسکی رضا کیلئے کرے، نھ کھ اپنی تعریف کیلئے۔ تو پھلے کو حسن فعلی اور دوسرے کو حسن فاعلی کھتےھیں اور اسے حسن نیت بھی کھتے ھیں اسلام میں نیت اور اس کے اثر کی اعمال کے قبول ھونے میں بھت تاکید کی گئی ھے پیغمبر اکرم صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم سے مروی ھے کھ فرمایا:"اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ھے" [1] معصوم اماموں علیھم السلام سے بھی متعدد روایات اس سلسلے میں وارد ھوئی ھیں، جن میں اعمال میں نیت کے اثر کو بیان کیا گیا ھے ۔ امام صادق علیھ السلام پیغمبر اکرم صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم سے نقل فرماتے ھیں کھ انھوں نے فرمایا: مؤمن کی نیت اس کے عمل سے بھتر ھے" [2] مرحوم مجلسی اس روایت کی تفسیر میں حضرت امام باقر علیھ السلام سے روایت کرتے ھیں کھ فرمایا: اس کا سبب یھ ھے کھ مؤمن بھت سے نیک کاموں کا قصد کرتا ھے مگر ان کو انجام دینے میں کامیاب نھیں ھوتا ھے" [3]
یعنی مومن کی نیت کی وسعت نیک اعمال کیلئے عمل کی وسعت سے زیاده ھے کبھی وه یھ قصد کرتا ھے کھ کسی خاص عمل کو انجام دے یا مثلا دعای عھد کو چالیس دن تک پڑھے [4] یا خاص مقدار میں مال فقراء کے درمیان تقسیم کرے۔ اس کے باوجود کھ وه اپنی موت کے وقت کو نھیں جانتا ھے اور نھ ھی حال حاضر میں اس کے پاس خیرات کرنے کیلئے اتنی رقم ھوتی ھے لیکن اگر وه اپنی نیت میں سچا ھو۔ تو خداوند اتنا ھی اجر اور ثواب، بغیر اس کے کھ وه عمل کو انجام دے اُسے عطا کرتا ھے کیوں کھ خداوندمتعال وسعت عطا کرنے والا اور کریم ھے۔
امام صادق علیھ السلام فرماتے ھیں؛ فقیر بنده کھتا ھے کھ خدایا مجھے مال اور سرمایھ عطا کر، تا کھ میں احسان کروں اور فقراء کے درمیان تقسیم کروں خداوند چونکھ اس کی نیت کی صداقت کو جانتاھے اور جانتا ھے کھ وه سچ کھتا ھے اس کیلئے وھی اجر اور ثواب قرار دیتا ھے۔ کیوں کھ خداوند وسعت دینے والا اور کریم ھے" [5]
پس یھ بات مسلم ھے کھ اگر انسان ان دعاؤں کو پڑھنے کا قصد کرتا ھے پھر اگر چھ اس نے کچھه بھی نھیں پڑھا یا اسے تھوڑی مقدار میں پڑھا ھے اور مرجاتا ھے یا کسی اور کام کی وجه سے وه نھیں پڑھ سکتا ھے تو خداوند اسے اجر اور ثواب عطا کرتا ھے اور مسلم بات ھے کھ ان دعاؤں کا پڑھنا بھت ھی خوب ، پسندیده ، اجر اور ثواب کا باعث بنتا ھے۔ اگر چھ اس طرح کے افعال کو قاعدے کے مطابق انجام دینا بھتر ھے۔
ان ھی دعاؤں میں بھت ھی اھم اورپرمعنی دعا جس کو پڑھنے کی کافی تاکید کی گئی ھے۔ حضرت امام زمانھ(عج) کی دعای عھد ھے جو حضرت امام صادق علیھ السلام سے منقول ھے که: "جو مؤمن اس دعا کو چالیس صبحوں میں پڑھے وه ھمارے حضرت قائم عجل اللھ تعالی فرجھ الشریف کے اصحاب میں ھوگا اور اگر ان کے ظھور سے پھلے اس دنیا سے رخصت ھوا تو اسے اپنی قبر سے نکال کر امام کی خدمت مین لایا جائے گا یھ دعا بھی اس قاعدے سے مستثنی نھیں ھے اور مذکوره احادیث کے مطابق اگر چالیس دن پڑھنے کی نیت رکھتا ھو اور کسی بھی وجه سے پڑھنے میں کامیاب نھ ھوتو خداوند اسے اجر اور ثواب عطا کرے گا۔