دینی علما اور ماھرین بعض موضوعات جیسے عورت کے قاضی ھونے کے بارے اختلاف نظر رکھتے ھیں۔ یھ امور دین کی ضروریات اور مسلمات میں شمار نھیں ھوتy ھیں۔ جو لوگ کھتے ھیں کھ عورت قاضی نھیں ھوسکتی انھوں نے روایات اور اجماع جیسی دلیلوں سے استناد کیا ھے جس کے بارے میں مفصل بحث ھے اور اس کو ھم کسی اور مقام پر بیان کریں گے۔
اس حکم کے فلسفھ کے بارے میں بعض نکات کو بیان کیا گیا ھے جو ان کی تائید کرتا ھے یھاں پر ھم بعض کی جانب اشاره کرتے ھیں۔
۱۔ عورت اور مرد کے درمیان جسمانی اور روحانی قوتوں کے لحاظ سے فرق ھے۔ اس فرق کی وجھ سے، اور مرد کی عورت سے خلقت میں برتری کے لحاظ سے بعض ذمھ داریوں کو عورتوں سے اٹھا لیا گیا ھے کیوں کھ قوت کے مطابق ھی افراد کو ذمھ داریاں سونپی جاتی ھیں۔
۲۔ عورتوں کی روحانی خصوصیات جو ان سے الگ نھیں کی جاسکتی ھیں، ان کا احساسات کے مقابل انفعالی جذبه رکھنا ھے۔ اور چونکھ مسائل میں قضاوت خصوصا حدود اور قصاص کا جاری کرنا، سب سے بڑا چلینج ھے، جس میں قاطع ھونا اور اس کے اثرات کو قبول کرنا شامل ھے، اسی لئے یھ عھده مردوں کو سونپ دیا گیا ھے۔
البتھ توجھ کرنی چاھئے کھ بعض نے ان دلیلوں اور اظھارات کو نھیں مانا ھے اور وه عورتوں کیلئے قضاوت کو جائز قرار دیتے ھیں۔
دینی ماھرین اور علماء نے بعض موضوعات جیسے عورت کا قاضی بننا اور دیگر عناوین کے بارے میں اختلاف کیا ھے۔ یھ امور دین کی ضروریات اور مسلمات میں شمار نھیں ھوتے ۔ عورتوں کی قضاوت کے جائز نھ ھونے کے سلسلے میں سب سے اصلی بحث کا نقطھ روایات اور احادیث ھیں۔
حضرت امام صادق علیھ السلام فرماتے ھیں: آپ نظر کریں اگر آپ میں سے ایک ، آدمی ھمارے واقعات کو جان لے یعنی جان لے که ھمارا نظریھ کیا ھے اور وه ھمارے نظریات کی اطلاع رکھتا ھوگا تو اس کواپنے درمیان قاضی قرار دیں اور میں اس کوآپ کے درمیان قاضی کے عنوان سے نصب کرتا ھوں ۔ [1]
اس روایت میں تعبیر " رجل یعنی مرد" سے کی گئی ھے اورقاعده اولیھ کے مطابق یھ قید احترازی (دوری کرنے کیلئے ) ھے اور موضوع میں دخیل ھے ۔ [2]
اس کے علاوه اجماع [3] عورتوں کے قاضی ھونے کے منکروں کی اصلی تکیھ گاه ھے یعنی اجماع اس بات پر ھوا ھے کھ قاضی مرد ھونا چاھئے۔ [4]
اس طرح یھ گروه بعض امور کا لحاظ کرتے ھیں اور ان کی طرف توجھ کرکے اس نتیجے پر پھنچتے ھیں ( کھ عورت کا قاضی ھونا جائز نھیں ) ذیل میں ھم بعض کی جانب اشاره کریں گے۔
۱۔ ذمھ داری ، طاقت کے مطابق سونپنا۔
اسلای نقطھ نظر میں مرد اور عورت خلقت(ماھیت) کے لحاظ سے یکسان ھیں ،" انسانو! اپنے پروردگار سے ڈرو، جس نے تم کو ایک نفس سے پیدا کیا اور ا س کا جوڑا بھی اسی کی جنس سے پیدا کیا ھے۔ " [5]
لھذا جو کچھه بھی خلقت اور شرع سے انسان کیلئے (اس لحاظ سے کھ وه انسان ھے) ، ثابت ھوتا ھے وه مرد اور عورت دونوں کیلئے ثابت ھے۔ مرد اورعورت اگرچھ ایک نوع (انسان ) سے ھیں لیکن ان دونوں صنفوں کا کو ایک دوسرے سے اختلاف اور امتیاز بھی ھے۔
قرآن کریم میں ارشاد ھے: "مرد عورتوں کے حاکم اور نگراں ھیں ، ان فضیلتوں کی بناپر جو خدا نے بعض کو بعض پر دی ھے۔ [6]
مردوں میں عورتوں کی به نسبت زیاده فکری ، جسمانی ، [7] اور نفسانی قوتوں کے ھونے کی وجھ سے زندگی ، خاندگی اور معاشرتی اھم مسائل میں مرد حکمراں اور سرپرست کے مانند ھیں"۔ [8]
خلاصھ یھ کھ مرد اور عورتیں جسمانی لحاظ اور بناوٹ ( فیزیولوجی) کی شرائط کے اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف ھیں اسی لیئے وه ایک ذمھ داری کیلئے خلق ھوئے ھیں۔ یھ اختلاف ( نھ کھ نسلی امتیاز ) حکمت کے مطابق اور انسان کی نسل کے دوام کیلئے ضروری ھے اور اس کا ھرگز یھ مطلب نھیں کھ کمال کی راھیں عورتوں کیلئے بند یا محدود ھیں۔ بلکھ اسی اختلاف کی خاطر بعض ذمھ داریاں جیسے قضاوت عورتوں سے اٹھالی گئی ھیں ، دوسرے الفاظ میں ، یھ مردوں کی قوت قدرتی اور فطری ھے اور صرف مردوں پر زیاده ذمھ داری ڈالتی ھے اور اسی لئے طاقت کے لحاظ سے مردوں کا خداوند متعال کے نزدیک زیاده اجر اور ثواب ھے۔
۲۔ قضاوت میں قاطع ھونے کی ضرورت
عورتوں کی روحانی خصوصیات انفعالی حوصلھ اور جذبات اور احساسات کے مقابلے میں اثر قبول کرنا ھے لھذا مردوں کی بھ نسبت وه نفسانی انفعالات ( رد عمل ) جیسے خوشی ، غم ، رونا ، ھنسنے میں جلدی ھی اثر لیتی ھیں۔ یھ واضح ھے کھ فیصلے کرنے میں حقیقت اس وقت پیدا ھوتی ھے جب انسان اپنے جذبات اور احساسات پر قابو رکھے اور انھیں لگام دے سکتا ھو۔ اس کے علاوه چونکھ مسائل میں قضاوت کرنے ، خصوصا حدود اور قصاص کو جاری کرنے میں بڑا چلینج ھوتا ھے جو دین کے مخالف لوگوں کی جانب سے ھوتا ھے لھذا اس میں قاطع ھونا اور اس کے اثرات کو قبول کرنے کی ضرورت ھوتی ھے۔ دوسرے الفاظ میں عورتوں کی خلقت اور فطرت محبت ھے اور اس لئے وه بعض امور میں قطعی فیصلے نھیں کرسکتے اس لئے وه ان عھدوں سے معاف ھوئی ھیں اور یھ اھم ذمھ داری مردوں کو عطا ھوئی ھے جو خود ایک عورت کے لئے مثبت اور قدر و قیمت والا رتبه ھے۔
بعض نے مذکوره دلیلوں میں خدشھ ظاھر کیا ھے اور وه قضاوت کو عورتوں کے حق میں جائز قراردیتے ھیں [9] وه لوگ کھتے ھیں ،که قضاوت عورتوں کیلئے ایک فرض نھیں ھے اور شارع مقدس نے عورتوں کو اس سخت فریضے سے معاف کیا ھے اور ان سے فرض کے طورپر نھیں چاھا ھے اور اگر حدیث میں آیا ھے کھ " لیس علی النساء جمعۃ و جماعۃ ۔۔۔و لا تولی القضاۃ ۔۔۔" [10] تو اس کا مطلب یھ ھے که نماز جمعھ اور نماز جماعت اور قضاوت کا قبول کرنا عورتوں پر واجب نھیں۔ اور حدیث میں نھیں آیا ھے ۔ " لیس للمراۃ جمعۃ " کھ اس سے حق استفاده سلب ھو۔ [11]
اسی طرح عورت کا زیاده مھرباک ھونا اس کی ذات میں عقلی اور فکری قوتوں کو معتدل کرنے سے مانع نھیں ھے اور عورت بھی مرد کے مانند عقل نظری ( کسی چیز کی سوچ) میں اعتدال سے مالا مال ھوسکتی ھے۔ اور اس کے عقلی پھلو اور قضاوت میں معتبر فراست ، اس کے احساسات اور جذبات سے نھیں دب سکتے۔ ھاں ممکن ھے که عورتوں کو مردوں کی بھ نسبت زیاده ھی اپنے جذبات کو معتدل کرنے کی مشق کرنی پڑے۔ لیکن اگر مشق کے برابر شرائط موجود ھوں ، تو عورتوں کو قضاوت کے عھدے سے محروم رکھنے کی کوئی دلیل موجود نھیں ھے۔ [12]
اس کے علاوه اگر کچھه دلیلوں سےاستفاده ھوتا ھے کھ امام معصوم علیھ السلام کا عام حکم ، قاضی کےنصب کرنے میں ، مرد قاضی سے مخصوص ھے تور اس دلیل سے یھ استنباط نھیں کیا جاسکتا کھ ولی فقیھھ کو بھی قاضی کی شرط میں مذکر ھونے کا خیال رکھنا ھے۔ کیوں کھ کوئی دلیل موجود نھیں جو یھ بیان کرے کھ مذکر ھونا شرعی شرط ھے۔
استاد ھادوی اس دلیل کے بیان میں فرماتے ھیں: ھم نے گزشتھ بحثوں میں اس شرط کا، لفظ " رجل" سے جوروایات میں قاضی کے نصب ھونے کے بارے میں وارد ھوئی ھے اس صفت کے ساتھه استفاده کیا کھ معتبر شرائط معصوم ائمه علیھم السلام یا شریعت کی طرف سے نصب کرنے میں ضروری ھیں ۔ لیکن ان شرائط کی رعایت ولی فقیھھ پر ضروری نھیں ھے۔
اگر نبوی روایت کھ جس میں " عورت" کی نسبت یھ جملھ وارد ھوتا " و لا تولی القضاۃ" ( وه قضاوت پر نھیں بیٹھه سکتی ) سند کی حیثیت سے معتبر ھوتی، یا ھم " مذکر" ھونے کی شرط کو متشرعھ ارتکاز ( بعض امور میں عورتوں کے محدود ھونے سے، جیسے امامت جماعت میں) سے یھ استفاده کرتے اور سمجھتے کھ "مذکر" ھونا ایک شرعی شرط شمار ھوتی جسے فقیھیھ کو اپنے نصب میں رعائت کرنی ھوتی۔ [13]
اجماع کی دلیل، تمام ھونے کے مفروضے میں ، سبھی فقھاء کا حقیقی اتفاق ، ان کی ایک یا چند مذکوره دلیلوں کے استناد سے ممکن بنتا ھے اور اس طرح کا اجماع حجیت اور اعتبار سے گرتا ھے [14] نتیجھ یھ کھ عورتوں کی قضاوت بعض شیعھ فقھاء کی نظر میں جائز ھے اور اس میں کوئی اشکال نھیں۔
[1] کافی ، ج ۱ ،ص ۶۷۔
[2] مزید جانکاری کیلئے کیلئے رجوع کریں ، ھادوی، تھرانی مھدی ، قضاوت و قاضی، ص ۹۱ ، ۔۔۔ ۹۲۔
[3] اجماع ایک مورد قبول استدلال ھے۔
[4] جواھر الکلام ، ج ۴۰ ، مفتاح الکرامۃ ، ج ۱۰ ص ۹، جامع الشتات ، ج ۲، ص ۶۸۰۔
[5] سوره نساء / ۱ ، جزوه اسلام میں عورت کے حقوق مصباح یزدی ، محمد تقی معارف قرآن۔
[6] " الرجال قوامون علی النساء بما فضل اللھ بعضھم علی بعض ۔۔۔" سوره نساء / ۳۴۔
[7] عورتوں کے بدن کی قسم مردوں کے بدن سے لطیف اور نازک ھوتی ھے عام طور پر مردوں کا جسم عورتوں کے جسم سےزیاده سخت اور مستحکم ھوتا ھے بالکل جس طرح مردوں کی اوسط طاقت ، عورت کی اوسط طاقت سے زیاده ھے۔ اور عورتوں کو پچاسویں سال تک حاملھ نھ ھونے کی صورت میں ، ھر مھینھ میں کچھه دن ماھواری ھوتی ھے جس کی وجھ سے بیماروں کی سی حالت ، جسمانی ضعف ، اور روحانی مشکلات پیش آتی ھیں اور اسی طرح عورتوں کے پستان کی حالت ایسی ھوتی ھے کھ وه آسانی سے بچوں کو دودھ دے سکتی ھیں اور بچوں کو دودھ دینا بھی ان کے بدن کی طاقت کا کم ھونے کا باعث بنتا ھے۔
[8] المیزان ، ج ۱۴ ص ۳۴۳۔
[9] مزید جانکاری کیلئے ، رجوع کریں ، جوادی آملی ، زن در آئینھ جلال و جمال ، ص ۳۴۸ ، ۳۵۴۔
[10] مں لا یحضره الفقیھ۔ ج ۴ ص ۳۶۲۔
[11] جوادی آملی ، زن در آئینھ جلال و جمال ، ص ۳۵۰۔
[12] ایضا ۔ص ۳۵۳۔
[13] قضاوت و قاضی ، ص ۱۵۱۔
[14] جوادی آملی ، زن در آئینھ جلال و جمال ، ص ۳۴۹، و ۳۵۳۔