کبھی کہا جاتا ہے : کہ اگر فلاں شخص فقیر ہے تو ضرور اس نےکوئی ایسا کام انجام دیا ہے کہ خدا اسے فقیر رکھنا چاہتا ہے اور اگر ہم غنی ہیں تو ہم نے ضرور کوئی ایسا کام انجام دیا ہے کہ خداوند متعال نے ہم پر مہربانی کی ہے- اس بنا پر دوسروں کا فقیر ھونا اور ہمارا غنی ھونا کسی مصلحت اور حکمت کے بغیر نہیں ہے – جبکہ انفاق کے سلسلہ میں حکم الہی متعدد حکمتوں اور فلسفوں پر مبنی ھوتا ہے، من جملہ:
۱- دولتمند افراد کا امتحان
۲- شدید دنیوی محبت سے انسانی دل کی رہائی-
۳- انسان کے دل کو نرم کرنا
۴- خدا کی نعمتوں کا شکر بجالانا
۵- نعمتوں میں اضافہ
۶- روح و جان کو سکون بخشنا
۷- بلاوں اور بری موت سے بچنا
لیکن مذکورہ تمام آثار اس صورت میں ہیں کہ حلال اور جائز مال میں سے انفاق کیا جائے کہ
خداوند اس کے علاوہ کسی انفاق کو قبول نہیں کرتا ہے اور برکت عطا نہیں کرتا ہے-
مذکورہ آیہ شریفہ میں قرآن مجید فرماتا ہے:" اے ایمان والو؛ جو تمھیں رزق دیا گیا ہے اس میں سے راہ خدا میں خرچ کرو قبل اس کے کہ وہ دن آجائے جس دن نہ تجارت ھوگی {کہ سزا کے بدلے میں سعادت و نجات کو خرید سکوگے} نہ دوستی کام ائے گی اور نہ سفارش- اور کافر ہی اصل میں ظالمین ہیں"[1] یہ آیہ شریفہ مسلمانوں سے خطاب ہے اور اس میں ایک ایسی ذمہ داری کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، جو معاشرہ میں اتحاد و یکجہتی اور حکومت اور دفاع و جہاد کی بنیادوں کو مستحکم کرنے کا سبب بن جاتی ہے-
اس کے بعد اس کام کے اخروی آثار کی طرف اشارہ کیاگیا ہے، جو انسان کے لئے حساب کے دن نجات کا سبب بن جائیں گے اور اس کے برخلاف انفاق کو ترک کرنا اس دن گرفت کا سبب بن جائے گا-[2]
آپ کے پیش کئے گئے سوال کے بارے میں قابل بیان ہے کہ اتفاق سے قرآن مجید نے اس سوال کو کفار کے قول سے نقل کیا ہے اور ان کی ایک ہٹ دھرمی کی طرف اشارہ کرتے ھوئے فرماتا ہے:" اور جب کہا جاتا ہے کہ جو رزق خدا نے دیا ہے اس میں سے اس کی راہ میں خرچ کرو تو یہ کفار، صاحبان ایمان سے طنزیہ طور پر کہتے ہیں کہ ہم انھیں کیوں کھلائیں جنھیں خدا چاہتا تو خودہی کھلا دیتا، تم لوگ تو کھلی ھوئی گمراہی میں مبتلا ھو-"[3]
بخیل افراد کی عامیانہ اور تنگ نظری پر مبنی منطق یہ ہے کہ وہ اپنے زعم میں زیادہ مال جمع کرنے کے لئے اور اپنے بخل کی توجیہ کرنے کے لئے کہتے ہیں:" اگر فلان شخص فقیر ہے، تو اس نے ضرور کوئی ایسا کام انجام دیا ہے کہ خدا اسے فقیر رکھنا چاہتا ہے اور اگر ہم غنی ہیں تو ہم نے ضرور ایسا کوئی عمل انجام دیا ہے جس کی وجہ سے ہم پر خدا کی مہربانی ھوئی ہے، اس بنا پر نہ ان کا فقر اور نہ ہمارا غنی ھونا بلا حکمت ہے-
اگر خداوند متعال رزاق ہے، تو تم لوگ کیوں ہم سے چاہتے ھو کہ فقیروں کو ہم رزق دیں؟ اور اگر خدا نے چاہا ہے کہ وہ محروم رہیں، تو ہم ان کو کیوں بہرہ مند کریں جنھیں خداوند متعال نے محروم رکھا ہے؟
یہ لوگ اس حقیقت سے غافل ہیں کہ انفاق کے سلسلہ میں حکم الہی متعدد حکمتوں اور فلسفوں پر مبنی ھوتا ہے، من جملہ:
۱- دولتمندوں کا امتحان: دنیا امتحان کا ایک ہال ہے، خدا وند متعال ایک کا تنگدستی سے امتحان لیتا ہے اور دوسرے کا مال و دولت سے ، کبھی ایک انسان کو دو زمانوں میں ان دونوں امتحانوں سے دوچار کرتا ہے، کہ کیا وہ فقر کے دوران امانتداری اور شکر گزاری کو بجا لاتا ہے؟ یا سب چیزوں کو پامال کرتا ہے ؟ اور غنی اور دولتمند ھونے کے دوران، جو کچھ اس کے اختیار میں ھوتا ہے وہ اس میں سے راہ خدا میں خرچ کرتا ہے یا نہیں؟
۲- شدید دنیوی محبت سے انسانی دل کی رہائی: اہل بیت اطہار{ع} کی روایتوں میں، دنیا کی محبت کو تمام خطاوں اور گناھوں کا سر چشمہ شمار کیا گیا ہے-[4] انفاق، اس نا مطلوب محبت کو نابود کرنے کا سبب ہے-
۳- انسان کے دل کو نرم کرنا: نرم دلی، سنگ دلی کے مقابلے میں ہے- سنگ دلی انسان کو انسانیت کے درجہ سے خارج کردیتی ہے اور ممکن ہے اس حالت میں اس کے لئے گناہ کا مرتکب ھونا اور ظلم کرنا آسان ھو جائے- لیکن اگر انسان فقیروں اور محتاجوں کی حاجت پوری کرنے کی طرف توجہ کرے اور ان کی زندگی کے بارے میں خود کو مسئول جانے تو وہ ایک ہمدرد اور مہربان دل رکھنے والا بن جائے گا-
۴- خدا کی نعمتوں کا شکر بجالانا: انفاق، خدا کی نعمتوں کا شکرانہ ہے- خدا کی نعمتوں کا شکر بجالانا متعدد طریقوں سے حاصل ھوتا ہے، سب سے بہتر شکرانہ عملی شکرانہ ہے-
۵- نعمتوں میں اضافہ: خداوند متعال نے مومن اور باتقوی انسانوں کے انفاق کے بارے میں ضمانت دی ہے کہ ان کے انفاق کئے ھوئے مال کا کئی گنا، کبھی ہزاروں گنا اور کم از کم دس گنا مادی و معنوی عطایا عنایت کرکے تلافی کرے گا،[5] اور اس طرح انفاق کرنے والا شخص جب اس جوش و جذبہ کے ساتھ میدان میں قدم رکھے گا تو وہ سخی تر عمل کرے گا اور وہ کبھی کسی قسم کی کمی اور فقر کا احساس تک نہیں کرے گا ، بلکہ خداوند متعال کا شکرانہ بجا لائے گا کہ خداوند متعال نے اسے اس قسم کی مفید اور منافع بخش تجارت عطا کی ہے-
ایک مومن انسان نہ صرف مال میں کمی واقع ھونے اور فقر سے دوچار ھونے کا خوف نہیں رکھتا ہے ، بلکہ وہ اطمینان رکھتا ہے کہ یہ کام ایک منافع بخش تجارت کے مانند ہے کہ اصل مال محفوظ رہنے کے علاوہ اس میں افزائش ہوگی اور منافع بھی حاصل ھوگا-
۶- انفاق، کی صداقت ایمان کی نشانی: ایمان کی قدر و منزلت اس کی صداقت میں مضمر ہے ورنہ جو ایمان صرف باتوں تک محدود ھو اور عمل کے مقام پر نہ ھو تو اس کی کوئی قدر و منزلت نہیں ہے- قرآن مجید اس سلسلہ میں ارشاد فرماتا ہے :" صاحبان ایمان صرف وہ لوگ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لے آئے اور پھر کبھی شک نہیں کیا اور اس کی راہ میں اپنے مال اور اپنی جان سے جہاد بھی کیا، در حقیقت یہی لوگ اپنے دعوائے ایمان میں سچے ہیں-"[6]
۷- روح و جان کا سکون: عام طور پر نیک اعمال اور خاص طور پر انفاق، روح و جان سکون کا سبب بنتا ہے آرام و سکون حاصل ھونے کے سلسلہ میں انفاق کے رول کے بارے میں اس آیہ شریفہ سے استناد کیا جاسکتا ہے کہ ارشاد ھوتا ہے:" جو لوگ اپنے اموال کو راہ خدا میں رات میں، دن میں خاموشی سے اور علی الاعلان خرچ کرتے ہیں، ان کے لئے پیش پروردگار اجر بھی ہے اور انھیں نہ کوئی خوف ھو گا نہ حزن-"[7]
۸- بلاوں اور بری موت سے بچنا: بلاوں اور بری موت سے بچنا، انفاق کے اثرات میں سے ہے، اس موضوع کی طرف روایات میں بھی اشارہ کیا گیا ہے – امام باقر{ع} فرماتےہیں:" صدقہ ۷۰ بلاوں اور بری موت کو دور کرتا ہے، کیونکہ صدقہ دینے والا ہر گز بری موت کے ذریعہ اس دنیا سے رخصت نہیں ھوگا-"[8]
اس بنا پر، اگر چہ تکوینی نظام کے مطابق خداوند متعال نے زمین کو اپنی تمام نعمتوں کے ساتھ انسان کے اختیار میں قراردیا ہے، اور انھیں اپنے کمال کی راہ کو طے کرنے میں آزاد رکھا ہے- اور اس میں ایسی جبلتیں پیدا کی ہیں کہ ان میں سے ہر ایک اسے ایک طرف کھینچتی ہے – خداوند متعال نے اپنے تشریعی نظام میں ان جبلتوں کو جان نثاری، فدا کاری اور درگزر و انفاق کے ذریعہ کنٹرول کرنے ، تہذیب نفس، اور انسانوں کی تربیت کرنے کے لئے کچھ قوانین مقرر کئے ہیں تاکہ انسان کو اس طریقہ سے خلیفہ الہی کے مقام تک پہنچادے، جس کی اس میں استعداد پائی جاتی ہے، زکوۃ کے ذریعہ نفسوں کی تطہیر کرتا ہے، اور انفاق کے ذریعہ دلوں میں سے بخل کو دور کرتا ہے ، اور طبقاتی فاصلوں کو دور کرتا ہے جو انسان کی زندگی میں ہزاروں فساد برپا کرنے کا سرچشمہ ہے وغیرہ- اور بہ الفاظ دیگر خداوند متعال چاہتا ہے کہ انسان کو دنیا کے امور کی اصلاح کرنے کے سلسلہ میں ایک ذمہ داری سونپے تاکہ اس طریقہ سے دنیا بھی کمال تک پہنچے اور انسان بھی- ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ یہ تمام آثار و نتائج اس صورت میں حاصل ھوسکتے ہیں ، جب حلال اور جائز مال سے انفاق کیا جائے، کیونکہ خداوند متعال اس کے علاوہ انفاق کو قبول نہیں کرتا ہے اور برکت عطا نہیں کرتا ہے-
[1] بقره،254 يَأَيُّهَا الَّذِينَ ءَامَنُواْ أَنفِقُواْ مِمَّا رَزَقْنَاكُم مِّن قَبْلِ أَن يَأْتىَِ يَوْمٌ لَّا بَيْعٌ فِيهِ وَ لَا خُلَّةٌ وَ لَا شَفَاعَةٌ وَ الْكَافِرُونَ هُمُ الظَّالِمُونَ
[2] تفسير نمونه، ج2، ص: 258
[3] (وَ إِذا قِيلَ لَهُمْ أَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ قالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلَّذِينَ آمَنُوا أَ نُطْعِمُ مَنْ لَوْ يَشاءُ اللَّهُ أَطْعَمَهُ إِنْ أَنْتُمْ إِلَّا فِي ضَلالٍ مُبِينٍ).
[4] کلینی ،محمد بن یعقوبَ ،الكافي ج 2 ص 131،"... َحُبُّ الدُّنْيَا رَأْسُ كُلِّ خَطِيئَةٍ ..."دارالکتب الاسلامیه،1365ه.ش،تهران ،8جلدی
[5] حدید،18:" إِنَّ الْمُصَّدِّقِينَ وَ الْمُصَّدِّقَاتِ وَ أَقْرَضُواْ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا يُضَاعَفُ لَهُمْ وَ لَهُمْ أَجْرٌ كَرِيم
[6]حجرات ،15:"إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ ءَامَنُواْ بِاللَّهِ وَ رَسُولِهِ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُواْ وَ جَاهَدُواْ بِأَمْوَالِهِمْ وَ أَنفُسِهِمْ فىِ سَبِيلِ اللَّهِ أُوْلَئكَ هُمُ الصَّدِقُونَ"
[7] بقره،274 "الَّذينَ يُنْفِقُونَ أَمْوالَهُمْ بِاللَّيْلِ وَ النَّهارِ سِرًّا وَ عَلانِيَةً فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَ لا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَ لا هُمْ يَحْزَنُونَ ."
[8] الكافي ج 4 ص 3، 7- عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سِنَانٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع يَقُولُ الصَّدَقَةُ بِالْيَدِ تَقِي مِيتَةَ السَّوْءِ وَ تَدْفَعُ سَبْعِينَ نَوْعاً مِنْ أَنْوَاعِ الْبَلَاءِ وَ ... الكافي ج 4 ص 3، 7- عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سِنَانٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع يَقُولُ الصَّدَقَةُ بِالْيَدِ تَقِي مِيتَةَ السَّوْءِ وَ تَدْفَعُ سَبْعِينَ نَوْعاً مِنْ أَنْوَاعِ الْبَلَاءِ وَ ...