بعض لوگ تصور کرتے ہیں کہ اسلام، شعر و شاعری سے مطابقت نہیں رکھتا ہے، جبکہ یہ توہم کے علاوہ کچھ نہیں ہے-
بیشک، شعر کا ذوق اور شاعری کا فن ، انسان کے دوسرے وجودی سرمایوں کے مانند، اس صورت میں قابل قدر ہے ، جب اس سے صحیح، مثبت اور تعمیری استفادہ کیا جائے- لیکن اگر اس فن سے معاشرہ کے اعتقادات اور اخلاق کو تباہ برباد کرنے اور فساد و بے راہ روی کی ہمت افزائی کے ایک تخریب کا رانہ وسیلہ کے عنوان سے استفادہ کیا جائے اور انسانوں کو بیہودگی کی طرف ڈھکیل دے، یا صرف ایک بے معنی سرگرمی شمار کیا جائے ، تو اس کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے بلکہ نقصان دہ بھی ہے- پس شعر ایک وسیلہ ہے اور اس کی قدر و قیمت کا معیار وہ مقصد ہے، جس کے لئے شعر سے استفادہ کیا جاتا ہے-
افسوس ہے، کہ دنیا کی اقوام اور ملتوں کی پوری تاریخ میں، شعر سے کافی حد تک نا جائز استفادہ کیا گیا ہے، اور اس لطیف ذوق الہی کو آلودہ ماحول کا اس قدر شکار بنایا گیا ہے کہ بعض اوقات یہ فساد و تباہی کا موثر ترین وسیلہ بن گیا ہے، خاص کر عصر جہالت میں ، جو عرب قوم کا فکری و اخلاقی پستی کا دور تھا، " شعر"، "شراب"، اور "غارت" ہمیشہ باہم ہوا کرتے تھے، لیکن اس حقیقت سے کوئی شخص انکار نہیں کرسکتا ہے کہ پوری تاریخ میں تعمیری اور با مقصد اشعار نے نمایاں کارنامے انجام دئے ہیں ، اور کبھی ایک قوم و ملت کو خونخوار اور ظالم دشمنوں کے مقابلے ایسےشجاعانہ طور پر صف آرا کیا ہے کہ انھوں نے کسی قسم کی پروا کئے بغیر دشمن کی صفوں پر یلغار کرکے انھیں تہس نہس کرکے رکھدیا ہے-
اہل بیت اطہار{ع} نے بھی با مقصد اشعار اور شاعروں کے حق میں تعریفیں کی ہیں اور ان کے حق میں دعائیں کی ہیں اور انھیں انعام و اکرام سے نوازا ہے کہ اگر ہم ان کی تفصیلات بیان کرنے بیٹھیں تو بات طولانی ھوگی-
امام صادق {ع} نے فرمایا ہے: " جس نے بھی ہمارے بارے میں ایک شعر کہا ہے، اس کی روح القدس نے تائید کی ہے-"
بعض لوگ تصور کرتے ہیں کہ اسلام، شعر و شاعری کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا ہے، اس تصور کا سر چشمہ قرآن مجید کی آیت: " والشعراء یتبعھم الغاوون"[1] ہے، جبکہ اس قسم کا تصور ایک توہم کے علاوہ کچھ نہیں ہے، کیونکہ آیہ شریفہ شعر کی تمام قسموں کی مذمت کرنا نہیں چاہتی ہے، بلکہ شعر کی ایک خاص قسم کی مذمت کرتی ہے، اس لئے ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے علماء نے شعر کے بارے میں مفصل بحثیں کی ہیں، من جملہ تفسیرنمونہ میں اس موضوع پر " اسلام میں شعر و شاعری " کے عنوان سے تفصیلی بحث کی گئی ہے-
بیشک، شعر کا ذوق اور شاعری کا فن ، انسان کے دوسرے وجودی سرمایوں کے مانند، اس صورت میں قابل قدر ہے ، جب اس سے صحیح، مثبت اور تعمیری استفادہ کیا جائے- لیکن اگر اس فن سے معاشرہ کے اعتقادات اور اخلاق کو تباہ برباد کرنے اور فساد و بے راہ روی کی ہمت افزائی کے ایک تخریب کا رانہ وسیلہ کے عنوان سے استفادہ کیا جائے اور انسانوں کو بیہودگی کی طرف ڈھکیل دے، یا صرف ایک بے معنی سرگرمی شمار کیا جائے ، تو اس کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے بلکہ نقصان دہ بھی ہے-
اس جملہ سے اس سوال کا جواب واضح ھوجاتا ہے کہ آخر کار مذکورہ آیات سے یوں معلوم ھوتا ہے کہ شاعر ھونا اچھا ہے یا برا ہے؟ بد صورت ہے یا خوبصورت؟ اور اسلام شعر کا موافق ہے یا مخالف؟
سوال کا جواب یہ ہے کہ اس سلسلہ میں اسلام کا معیار شعر کے " مقاصد" ، " موقف" اور " نتیجہ" پر مبنی ہے- بقول امیرالمومنین علی|ع} جب آپ {ع} کے اصحاب میں سے چند افراد نے رمضان المبارک کی ایک رات کو افطار کے وقت شعر و شاعری شروع کی، تو ان سے مخاطب ھوکر فرمایا:
اعلموا ان ملاك امركم الدين، و عصمتكم التقوى، و زينتكم الادب، و حصون اعراضكم الحلم:-[2]
" جان لو کہ آپ کےاس کام کا معیار دین ہے، اور تمھارے تحفظ کا سرمایہ تقوی ہے، آپ کی زینت ، ادب ہے اور آپ کی آبرو کے محکم قلعے، حلم و برد باری ہیں-"
امیرالمو منین {ع} کا مذکورہ کلام اس امر کی طرف ایک اشارہ ہے کہ شعر ایک وسیلہ ہےاور اس کی قدر و قیمت کا معیار وہ مقصد ہے جس کے لئے شعر کہا جاتا ہے-
افسوس ہے، کہ دنیا کی اقوام اور ملتوں کی پوری تاریخ میں، شعر سے کافی حد تک نا جائز استفادہ کیا گیا ہے، اور اس لطیف ذوق الہی کو آلودہ ماحول کا اس قدر شکار بنایا گیا ہے کہ بعض اوقات اسے فساد و تباہی کا موثر ترین وسیلہ بنایا گیا ہے خاص کر عصر جہالت میں ، جو عرب قوم کا فکری و اخلاقی پستی کا دور تھا، " شعر"، "شراب"، اور "غارت" ہمیشہ باہم ہوا کرتے تھے، لیکن اس حقیقت سے کوئی شخص انکار نہیں کرسکتا ہے کہ پوری تاریخ میں تعمیری اور با مقصد اشعار نے نمایاں کارنامے انجام دئے ہیں ، اور کبھی ایک قوم و ملت کو خونخوار اور ظالم دشمنوں کے مقابلے ایسےشجاعانہ طور پر صف آرا کیا ہے کہ انھوں نے کسی قسم کی پروا کئے بغیر دشمن کی صفوں پر یلغار کرکے انھیں تہس نہس کرکے رکھدیا ہے-
ہم نے خود اپنے اسلامی انقلاب کی کامیابی سے ہمکنار ھونے کے ایام میں بخوبی مشاہدہ کیا کہ مناسب اشعار اور نعروں کی صورت میں کہے گئے مختصر و مفید اشعار نے ہمارے عوام میں کیسا جوش و ولولہ پیدا کیا اور کس طرح جذبات کے خون کوجوانوں کی رگوں میں دوڑا دیا اور انسانوں کے ٹھاٹھیں مارتے ھوئے سمندر کو میدان میں لایا اور ان مختصر و مفید اشعار نے دشمن کو متزلزل کرکے رکھدیا اور ظالموں کے ایوانوں کو لرزہ بر اندام کرکے ڈھادیا-
اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہےکہ کبھی ایک اخلاقی شعر انسان کی روح و جان میں ایسا اثر کرتا ہے کہ ایک ضخیم اور بامعنی کتاب وہ کام انجام نہیں دے سکتی ہے-
جی ہاں، پیغمبر اکرم {ص} کی ایک مشہور حدیث میں نقل کیا گیا ہے:" ان من الشعر الحکمۃ وان من البیان لسحرا"- " بعض اشعار حکمت ہیں، اور کلمات سحر کا اثر رکھتے ہیں"[3] کبھی اشعار غوغا پیدا کرتے ہیں-
کبھی مناسب شاعرانہ الفاظ ، دشمن کے دل پرتیز تلواراور تیر کا اثر ڈالتے ہیں ، چنانچہ پیغمبر اسلام {ص} سے نقل کی گئی ایک حدیث میں اس قسم کے اشعار کے بارے میں فرمایا گیا ہے:" والذین نفس محمد بیدہ مکانما تنضھونھم بالنیل"[4] " قسم اس ذات کی جس کے قبضہ میں محمد کی جان ہے، ان شعروں کے ذریعہ جیسے ان کی طرف تیر پھینک رہے ھو-"
یہ کلام وہاں پر فرمایا ہے کہ: دشمن ہجو آمیز اشعار کہکر مسلمانوں کی حوصلہ شکنی کرتے تھے- پیغمبر اسلام {ص} نے حکم دیا کہ ان دشمنوں کی مذمت میں اور مسلمانوں کی ہمت افزائی کے لئے اشعار کہیں-
اور اسلام کا دفاع کرنے والے ایک شاعر کے بارے میں فرمایا:" تم بھی ان کی ہجو کرنا ، جبرئیل تمھارے ساتھ ہے-"[5]
خاص کر جب با ایمان شاعر " کعب بن مالک" اسلام کو تقویت بخشنے کے لئے شعرکہتا تھا، اس نے پیغمبر اکرم {ص} سے پوچھا: یا رسول اللہ؛ شعر کے بارے میں جو یہ مذمت آمیز آیات نازل ھوئی ہیں، میں کیا کروں؟ آنحضرت {ص} نے جواب میں فرمایا:" ان المؤمن يجاهد بنفسه و سيفه و لسانه: " مومن راہ خدا میں اپنی جان، تلوار اور زبان سے جہاد کرتا ہے-"[6]
ائمہ اہل بیت {ع} نے بھی با مقصد اشعار اور شعراء کے بارے میں تعریفیں اور دعائیں کی ہیں اور انھیں انعام و اکرام سے نوازا ہے کہ اگر ہم اس کی تفصیلات بیان کریں تو بات لمبی ھوگی-
لیکن افسوس ہے کہ پوری تاریخ میں بعض ناصالح افراد نے اس عظیم فن اور ملکوتی و لطیف ذوق اور خلقت کے خوبصورت ترین مظہر کو آلودہ کرکے رکھدیا ہے، اور اسے کمال کی بلندیوں سے مادیات کی پستی میں گرا دیا ہے، اور اس قدر جھوٹ بولا ہے کہ مشہور ضرب المثل" احسنہ اکذبہ" {یعنی بہترین شعر سب سے جھوٹا شعر ہے} وجود میں آگئ ہے-
کبھی شعر کو ظالموں اور جابروں کی خدمت کے لیے کہا گیا ہے اور حقیر اجرت کے لئے زبردست چاپلوسی سے کام لیا ہے اور کبھی عیش و عشرت اور شراب و رسوائی کی اس قدر وصف گوئی کی ہے کہ قلم اسے ذکر کرنے سے شرم محسوس کرتا ہے-
کبھی اشعار کے ذریعہ جنگ کے شعلوں کو بھڑکایا ہے اور انسانوں کو ایک دوسرے کے لیے غارت اور قتل عام کرنے پر اکسایا ہے اور زمین پر بے گناھوں کے خون کی ہولیاں کھیلی گئی ہیں-
لیکن اس کے برعکس بعض با ایمان اور باہمت شعراء نے کسی کو باج دئے بغیر اس ملکوتی توانائی سے انسانوں کی آزادی، تقوی اور ظالموں اور غارتگروں سے مقابلہ کرنے میں استفادہ کیا ہے اور فخر و مباہات کا مقام حاصل کیا ہے-
ایسے شعراء نے کبھی حق کے دفاع میں ایسے اشعار کہے ہیں کہ ہر بیت کے بدلے میں جنت میں ایک گھر خریدا ہے[7] اور کبھی " بنی امیہ" اور " بنی عباس" کے ظلم و بربریت کے دوران "مدارس آیات" جیسے قصیدے کہہ کر سینوں میں محبوس دلوں کو جلا بخشی ہے اور اس طرح ان شعراء نے ظلم و بربریت کے پردوں کو چاک کیا ہے، ایسا لگتا ہے کہ روح القدس ان کی زبانوں پر یہ اشعار جاری کر رہے تھے-
اور کبھی محکوم ، مظلوم اور احساس کم تری سے دوچار عوام میں تحریک اور جوش و جذبہ پیدا کرنے کے لئے اشعار کہتے تھے-
اور قرآن مجید ان کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے:" إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ وَ ذَكَرُوا اللَّهَ كَثِيراً وَ انْتَصَرُوا مِنْ بَعْدِ ما ظُلِمُوا.
دلچسپ بات یہ ہے کہ ایسے شعرا نے بعض اوقات ایسے لافانی اشعار کہے ہیں کہ بعض روایتوں کے مطابق ائمہ اطہار {ع} نے لوگوں کو ان کے اشعار کو محفوظ رکھنے کی تاکید کی ہے – چنانچہ "عبدی" کے اشعار کے بارے میں امام صادق{ع} سے نقل کیا گیا ہے کہ آپ{ع} نے فرمایاہے:" يا معشر الشيعة علموا اولادكم شعر العبدى، فانه على دين اللَّه: " یعنی اپنے بچوں کو "عبدی" کے اشعار سکھا دو، کیونکہ وہ خدا کے دین پر ہے"-[8]
ہم اس بحث کو عبدی کے چند مشہور اشعار کو بیان کرکےاختتام بخشتے ہیں جو انھوں نے پیغمبر اکرم {ص} کی خلافت اور جانشینی کے بارے میں کہے ہیں:
و قالوا رسول اللَّه ما اختار بعده
اماما و لكنا لأنفسنا اخترنا!
اقمنا اماما ان اقام على الهدى
اطعنا، و ان ضل الهداية قومنا!
فقلنا اذا انتم امام امامكم
بحمد من الرحمن تهتم و لا تهمنا
و لكننا اخترنا الذى اختار ربنا
لنا يوم خم ما اعتدينا و لا حلنا!
و نحن على نور من اللَّه واضح
فيا رب زدنا منك نورا و ثبتنا!
انھوں نےکہا کہ رسول خدا {ص} نے اپنے بعد کسی کو امام کے عنوان سے منتخب نہیں کیا ہے لیکن ہم خود منتخب کریں گے"
ہم نے ان سے کہا کہ اس صورت میں آپ خود اپنے امام ہیں، اور آپ پریشان ھوئے ہیں اور ہم پریشان نہیں ہیں-
ہم نے ایسا امام بنایا کہ اگر وہ ہدایت کی راہ پر قائم ہے تو ہم اس کی پیروی کریں گے اور اگر گمراہی پر ہو تو ہم اسے چھوڑ دیں گے۔
" لیکن ہم نے اسی کو منتخب کیا ہے جسے خداوند متعال نے غدیر خم کے دن منتخب کیا تھا اور ہم اس سے ذرہ برابر نہیں ہٹیں گے-
ہم خداوند متعال کے واضح نور پر باقی ہیں- خداوندا؛ ہمارے نور پر اضافہ کرنا اور ہمیں ثابت قدم رکھنا"-[9] و [10]
اسی طرح شہید محمد صادق صدر{رح} نے فقہ کے لحاظ سے شعر و شاعری پر ایک مفصل بحث کی ہے، اس موضوع کے سلسلہ میں مزید استفادہ کرنے کے لئے اس بحث کی طرف رجوع کرسکتے ہیں-[11]
امین الاسلام شیخ طبرسی بھی اپنی کتاب " الآداب الدینیہ للخزانۃ المعینۃ" میں امام رضا{ع} سے ایک روایت نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں: " مختصر یہ کہ مذکورہ تمام مطالب سے معلوم ھوتا ہے کہ مقدس اور شریف زمان و مکان میں شعر بیان کرنا مکروہ ہے[12] اور اس سلسلہ میں جو تیز و تند روایتیں پائی جاتی ہیں وہ تقیہ پر مشتمل ہیں-
حسن ختام کے عنوان سےہم حضرت امام صادق {ع} کی ایک حدیث نقل کرتے ہیں کہ حضرت {ع} نے فرمایا ہے:" اب تک ہمارے بارے میں کسی نےایک شعر بھی نہیں کہا ہے مگر یہ کہ روح القدس نے اس کی تائید کی ھو-[13]
[1] الشعراء،224، و گمراهان از پى شاعران مىروند.
[2] ابن ابى الحديد، شرح نهج البلاغه، ج 20، ص 461.
[3] اس حدیث کو شیعہ و سنی بہت سے دانشوروں نے اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے { ملاحظہ ھو کتاب الغدیر ج۲ ص ۹}
[4] مسند احمد، ج 3، ص 460.
[5] مسند احمد، ج 4، ص 299.
[6] تفسير قرطبى، ج 7، ص 4869.
[7] امام صادق {ع} سے نقل کیا گیا ہےکہ آپ {ع} نے فرمایا ہے : من قال فينا بيت شعر بنى اللَّه له بيتا فى الجنة، " یعنی جو شخص ہمارے بارے میں ایک شعر کہے خداوند متعال اس کے لئے بہشت میں ایک گھر تعمیر کرتا ہے-" { ملاحظہ ھو الغدیر ج ۲ ص ۳}
[8] نور الثقلين، ج 4، ص 71.
[9] قمی، عباس، الكنى و الالقاب، ج 2 ص 455.
[10]مکارم شیرازی، ناصر، تفسير نمونه، ج 15، ص 382 – 386.
[11] ملاحظہ ھو: ما وراء الفقه، ج10، ص93.
[12] جامعة مدرسين، طبع اول، قم، 1405 هـ ق.بحراني، يوسف بن أحمد بن إبراهيم، الحدائق الناضرة في أحكام العترة الطاهرة، ج 13، ص 164، ناشر مؤسسة النشر الإسلامي وابسته به
[13] شيخ صدوق، عيون أخبار الرضا عليه السلام، ج1، ص 7، ناشر: نشر جهان، تهران، طبع اول، 1378 ق.